میں جذبات سے مغلوب ہوں۔
پانچ دن کتابوں کی اور ان کے عشاق کی خوشبوئوں کے درمیان گزرے ہیں۔اللہ تعالیٰ کے حضور سجدۂ شکر بجالانا چاہتا ہوں کہ آخر عمر میں بھی ہر عمر کے قارئین میسر ہیں اور اب تو ’فیس بک لائیو‘ کی بدولت ناظرین بھی مل رہے ہیں۔ کچھ نہ پوچھئے جب ایک نو عمر یاد دلاتا ہے کہ دو سال پہلے اس اسٹال پر آپ نے مجھے ’ایاں ایاں یویو‘ دی تھی۔ اس کے ساتھ آنے والے میرے ہم عمر بتاتے ہیں کہ وہ ’اخبار جہاں‘ کے اوائل سے مجھے پڑھ رہے ہیں۔ اور جب بعض مشرقی پاکستان کے کسی سیاستدان کے انٹرویو کا حوالہ دیتے ہیں تو اعتماد بحال ہوتا ہے کہ تمام المیوں کے باوجود پاکستانی اپنے مشرقی پاکستانی بھائیوں کو نہیں بھولے ۔ زیادہ تر ہمارے اتوار کے کالم کا حوالہ دیتے ہیں کہ آپ کا وہ مشورہ بہت قیمتی ہے کہ اتوار کی دوپہر کا کھانا اپنے بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں، بہوئوں دامادوں کے ساتھ کھائیں۔ ان کے ذہنوں میں تڑپتے سوالات کے جوابات دیں۔ یہ اس پروپیگنڈے کی نفی ہوتی ہے کہ اخبار نہیں پڑھے جارہے ہیں۔ اکثر بزرگ اور ادھیڑ عمر کی بزرگ مرد اور خواتین بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ ’جنگ ‘ تو ہمارے ہاں بچپن سے آرہا ہے۔ ایک دو ایسے بھی ہم عصر آجاتے ہیں جو دلّی سے ’جنگ‘ اور میر خلیل الرحمن کا ذکر کرتے ہیں۔ ایسے کلمات سن کر یقین ہوجاتا ہے کہ ہماری ریاضت بے نتیجہ نہیں رہی۔ یہ پرنٹ( حرف مطبوعہ) کے دور شباب کے قصے 60 اور 70 کی دہائی کی باتیں اکیسویں صدی کی تیسری دہائی میں۔ اب پرنٹ اور ڈیجیٹل کا سنگم ہورہا ہے۔ میں ہر پرنٹ اور سوشل میڈیا کی بات کرنے والے سے کہہ رہا ہوں کہ سوشل میڈیا کو پرنٹ کا رقیب نہ سمجھیں۔ پرنٹ بھی نامہ بر تھا۔ اور یہ سوشل میڈیا بھی۔ اصل حقیقت ’نامہ‘ ہے۔ جسے محبوب تک پہنچنا اور پہنچانا ہے۔ محبوب ہمارے پڑھنے والے ہیں۔ سوشل میڈیا کی اصطلاح میں ناظرین Viewers۔ عبارت۔ متن۔ Content۔ اصل ہے۔ عبارت صدیوں پرانی ہے۔ انسان کی سب سے پہلی اور دائمی سہیلی۔ اسے مغرب Information کہتا ہے۔ اطلاع۔ انسان شروع ہی سے اطلاع پہنچانے کیلئے بے تاب رہا ہے۔ نقارہ پیٹتا تھا۔ ہم نقارے سے موبائل فون کی گھنٹی تک پہنچے ہیں۔میں پھر یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اطلاع کی فراہمی جاری رکھنےکیلئے پرنٹ اور ڈیجیٹل کا امتزاج ناگزیر ہے۔ پہلے نامہ بھیجنے کیلئے نامہ بر ضروری ہوتا تھا۔ ان دنوں اخبار اور ناول میں رابطے کیلئے نیوز ایجنٹ اور ہاکر کے وسیلے لازمی تھے۔ لیکن عشق کی آخری منزل ’’تو من شدی من تو شدم‘‘،’’ تو میں ہوگیا، میں تو ہوگیا‘‘ ہے۔ عاشق اور محبوب کے درمیان کوئی اور نہ ہو۔ تو اب ہم اسی منزل پر ہیں۔ سوشل میڈیا کے آلات نے وسیلے ختم کردیے ہیں۔ اب کسی نامہ بر کی حاجت ہے نہ کسی تارِبرقی کی۔ بس دو چیزیں ہونی چاہئیں۔ Content (عبارت) اور بجلی Power۔ تیسرا زندہ رہنے کی قوت ارادیWill to Survive۔اب آتے ہیں ہم اصل موضوع کی طرف کہ زندہ رہنے کی قوت ارادی۔ میں یعنی اپنی بقا کیلئے ہمیں معلوم نہیں کہ اسلام آباد،پنڈی کی طرف یا لاہور، کراچی، پشاور، کوئٹہ، مظفر آباد،گلگت کی جانب دیکھنے کی عادت ہی کیوں پڑ گئی ہے۔ یہ تو صرف ڈیم ہیں یا پل ہیں۔ ان میں سے دریا کو گزرنا پڑتا ہے۔ دریا تو آپ ہیں۔ واہگہ سے گوادر تک جیتے جاگتے، شہر چلاتے، ذمہ داریاں سنبھالتے۔ دریا آپ محنت کش ہیں، یونیورسٹیاں ہیں،دینی مدارس ہیں،علما ہیں،طالبان علم ہیں،شاعر، افسانہ نگار، ناول نویس، صحافی، اینکر پرسن، ان قطروں سے ہی دریا بنتا ہے۔ یہ دریا ہی ہے جو زمینیں سیراب کرتا ہے۔یہ ارکان قومی و صوبائی اسمبلی، سینیٹ،وزیر اعظم، صدر، اعلیٰ سرکاری عہدیدار،عدلیہ کے منصف، سب دریا کے دونوں کنارے کھڑے، پلوں، ڈیموں کی نگرانی پر مامور منصب دار ہیں، چھوٹے بڑے۔ یہ خود دریا نہیں ہیں۔ فیصلہ دریا کرتا ہے،اپنا راستہ دریا خود بناتا ہے۔ دریا راستہ بدل بھی لیتا ہے۔ ہم سب اس سر زمین کے مقروض ہیں۔ وہ بھی جو ملک کے اعلیٰ ترین عہدوں پر متمکن ہیں۔ صدر پاکستان، وزیرا عظم پاکستان،وزرائے اعلیٰ، گورنر، وفاقی و صوبائی وزرا، چیف جسٹس سب کے یہ عہدے اختیارات اس عظیم سر زمین کی بدولت ہیں۔ اگر پاکستان نہ ہوتا تو یہ عہدے کہاں ہوتے۔ اس ملک نے آپ کو اگر یہ عہدے عنایت کیے ہیں تو آپ کے کچھ فرائض بھی ہیں۔ اپنی مراعات میں آپ اضافہ کرتے رہتے ہیں۔ وہ جو آپ کے علاقے ہیں۔ ان میں رہنے والے انسان ہیں، انکی خدمت، انکی خوشحالی سے آپ اس ملک کا قرض ادا کرسکتے ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ اب اس قرض کی ادائیگی کی جائے۔ اسکی صورت صرف یہ ہے کہ ہم سب ملکر پاکستان کو اجتماعی طورپر آگے لیکر جائیں۔ ہم میں سے کوئی بھی اپنے ملک سے بے وفا نہیں ہے، سب مخلص ہیں، سب باہمت ہیں اور ہم سب میں یہ صلاحیت ہے ، اہلیت ہے۔ ہم اس ملک کو آگے لے جاسکتے ہیں۔ ہمیں یہ اختیارات اس لیے نہیں ملتے کہ دوسروں کا جینا حرام کردیں۔ ہمارے سامنے اگر اس عظیم مملکت کے آئندہ دس پندرہ سال ہونگے، 24کروڑ کی ضرورتیں پوری کرنے کا عزم ہوگا، پینے کا صاف پانی میسر کرنا، فصلوں کی فی ایکڑ پیداوار بڑھانا، عوام کا ذہنی معیار عالمی سطح پر لیجانا، ٹیکنالوجی کی تیز رفتاری میں متحرک ہونا، صرف اور صرف سچ بولنا، تو ہم میں سے کوئی بھی دوسرے کو ملک دشمن نہیں کہے گا۔ ہم سب نہ صرف دوسروں کی صلاحیتوں کو استعمال نہیں ہونے دیتے، اپنی اہلیت کو بھی بروئے کار نہیں لارہے ہیں۔ یقین جانئے کہ 60فی صد نوجوان آبادی، ایک انتہائی حساس محل وقوع، بے حد قیمتی معدنیات اور ایک سیاسی، سماجی، عمرانی شعور رکھنے والے بے مثال ملک کے رہنمائوں اور حکمرانوں کا جو ذہنی معیار ہونا چاہئے، وہ نہیں ہے۔ میں نے کتاب میلے میں بچوں، بچیوں، بزرگوں کی آنکھوں میں جھانکا ہے۔ حجاب میں بیٹیوں، بہنوں کی آنکھیں بہت کچھ کہہ رہی ہیں۔ یہ فیصلے کی گھڑی ہے۔ میرے ہم وطن بہت زندہ شعور رکھتے ہیں۔ ان میلوں میں وہ جو کتابیں ڈھونڈتے ہیں، خریدتے ہیں۔ ان سب میں آخرت کی سرخروئی بھی پیش نظر ہوتی ہے اور دنیا میں کامیابی بھی۔ جاسوسی سیریز کے عشاق بہت ہیں،وہ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ مجرم کیسے پکڑا جاتا ہے، سازش کی جڑ تک کیسے پہنچا جاتا ہے اور اس وقت ضرورت بھی یہی ہے کہ اصل مجرم پکڑے جائیں۔ سازشیں بے نقاب کی جائیں۔