سولہ دسمبر آیا اور بغیر کوئی سبق سکھائے گزر گیا۔بنگلہ دیش، پاکستان اور بھارت میں تاریخ کا پہیہ الٹا گھوم رہا ہے۔ ایک ہی کھیل بار بار دہرایا جا رہا ہے۔ بنگلہ دیش کی تخلیق کے بعد فیض ؔ صاحب نے ڈھاکہ سے واپسی پر کہا تھا:
ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد
پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد
کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد
خون کے دھبے تو پانی ہی سے دھل سکتے ہیں۔یہاں بارش ہی خون کی ہو رہی ہے۔ اپنے پندرہ سالہ دورِ اقتدار میں شیخ حسینہ نے جماعتِ اسلامی کے لیڈروں کو پھانسی پہ لٹکا کے تقسیم کے تمام زخم ہرے کر ڈالے۔ 80 ہزار کروڑ ٹکوں کی کرپشن پر شیخ حسینہ کے خلاف تحقیقات کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ شیخ حسینہ اور خالدہ ضیاء کے درمیان اقتدار کی ایسی خوفناک جنگ ہوتی رہی، جیسی ہمارے ہاں میاں محمد نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو میں۔ الیکشن میں بار بار دھاندلی ہوتی رہی۔ پاکستان میں یہ کھیل بار بار دہرایا گیا کہ سیاستدانوں کا ایک حصہ طاقتوروں کا نوکر بن جاتا اور انہی کی مدد سے اقتدار میں آتا ہے۔ اس کے بعدجیتنے والا پوری ریاستی قوت کے استعمال سے یقینی بناتا ہے کہ ہارنے والے کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے۔ الیکشن کے نتائج ہر دفعہ متنازع ہوتے ہیں۔اگلے الیکشن تک دھاندلی کا ہنگامہ جاری رہتا ہے۔ملک میں ایسے کرائے کے ٹٹو دستیاب ہیں، ضرورت پڑنے پر جن سے مرکزکے خلاف اسلام آباد میں دھرنے دلوائے جا سکتے ہیں۔ایسے ہی ایک دھرنے کے نتیجے میں سابق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ برطرف ہوتے ہوتے بچے۔ آج آئر لینڈ میں صحافیوں کی غیر قانونی جاسوسی پر پولیس کو جرمانہ کیا گیا۔ ہمارے ہاں بڑے بڑے صحافی مہینوں کیلئے اغوا ہو جاتے ہیں۔ چادر چاردیواری کا تقدس ختم ہو چکا۔ سیاسی حریفوں کے گھرتوڑ دیے جاتے ہیں کہ سیاست سے توبہ کر لیں۔ الطاف حسین سمیت ہمارے بڑے سیاسی لیڈروں کو بیساکھیوں کے ساتھ سیاست میں اتارا گیا۔پھر بھٹو کی پھانسی نے عشروں ملک میں عدم استحکام پیدا کیا۔ بے نظیر بھٹو کو سکیورٹی رسک قرار دیا گیا۔ بعد میں ضرورت پڑی تو بھٹو اور شریف خاندان کو یکجا کر دیا گیا۔
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
عمران خان کے سیاسی منظر نامے پر ابھرنے سے ایک بھونچال پیداہو گیا تھا۔ 2013ء کا الیکشن ہارنے کے بعد خود عمران خان بھی اسی نتیجے پر پہنچے کہ طاقتوروں کی اشیر باد کے بغیر پاکستان میں حکومت بنانا ممکن نہیں۔ پھر کیا ملا انہیں؟جاوید لطیف جیسے لیگی لیڈر خود مانتے ہیں کہ ہم الیکشن نہیں جیتے، ہماری حکومت بنا دی گئی۔ 1970ء کے الیکشن میں جب جیتنے والی جماعت کو اقتدار منتقل کرنے سے انکار کیا گیا تو کیا نتیجہ نکلا۔ 1970ء میں یہی غداری کے سرٹیفکیٹ تھے، عوامی لیگ کو جو جاری کیے جاتے تھے۔ آج ایک اور جماعت معتوب ہے۔علی امین گنڈا پور نے جو پر امن نہ رہنے کی دھمکی دی، وہ بڑی خوفناک ہے۔ اگر وہ قبائل ہتھیار اٹھانے پرتل گئے، جو ان ہتھیاروں کو اپنا زیور سمجھتے اور دشمنیاں عدالت سے باہر نبھانے پر یقین رکھتے ہیں تو کیا ہوگا؟ ہم کس طرف جا رہے ہیں؟ امریکہ سمیت دنیا بھر میں شنید ہے کہ پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بڑھتی چلی جا رہی ہیں۔حبس اتنا ہے کہ مخلوق لو کی دعا مانگ رہی ہے۔عمران خان سمیت سب فریقوں کو پیچھے ہٹنا ہوگا۔ پاکستان آج اس خوفناک دلدل میں دھنس چکا ہے، جہاں انتقام کی آرزو مکمل تباہی پر منتج ہو گی۔ عمران خان سمیت تمام قوتیں میز پر بیٹھیں۔ ایک دوسرے سے انتقام نہ لینے اور ایک دوسرے کو محفوط راستہ دینے کا بندوبست کیا جائے۔استحکام درکار ہے تو پچھلے الیکشن کو اب بھول جائیں۔ ایک نئے غیر متنازع الیکشن کرالیے جائیں۔ وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے فرمایا:ایک دن کے احتجاج سے ملکی معیشت کو 190ارب روپے کا نقصان ہوتاہے۔ الیکشن کی کل لاگت 42ارب ہے۔ ہاتھ سے لگائی گئی گرہیں اب اگر ہم نے دانتوں سے نہ کھولیں تو مکمل تباہی ہماری منتظر ہے۔ایک ہی طرح کا کھیل پاکستان اور بنگلہ دیش میں بار بار دہرایاجا رہا ہے۔ رہا بھارت تو معاشی ترقی کے باوجود مذہبی کشمکش پوری قوت سے جاری ہے۔ کشمیر سمیت کئی ریاستوں میں مکمل ریاستی جبر کیساتھ معاملات کودبایا جاتا ہے، کچھ عرصے بعد جو پھر پوری قوت کے ساتھ ابھر آتے ہیں۔برصغیر میں شایدصرف آزاد کشمیر والے مبرا ہیں، جو پوری قوت سے باہر نکلتے اور اپنا حق لے کر ہی لوٹتے ہیں۔یا اب پندرہ برس بعد بنگلہ دیش میں تبدیلی آئی ہے۔برصغیر کا نصیب اتنا بھیانک کیوں ہے؟ دنیا ہمیں ایسے دیکھتی ہے، جیسے صحت مند لوگ دیوانے کو دیکھتےہیں۔ دنیا کہاں پہنچ گئی، ہم ادھر ہی پھنسے ہوئے ہیں۔ کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ خون کو پانی سے دھو دیا جائے؟