تحقیق و جستجو انسانی فطرت کا خاصا ہے جو خالق کائنات نے اسے ودیعت کیا ہے۔اس کے نتیجے میں فروغ پانے والی جدید ٹیکنالوجی نے دنیا کا رخ ہی بدل دیا ہے۔جو کام پہلے دنوں،بلکہ گھنٹوں میں ہو سکتے تھے وہ اب منٹوں اور سیکنڈوں میں ہوجاتے ہیں۔اب تو مصنوعی ذہانت بھی روشناس ہوگئی ہےجو ایک نیا حیرت کدہ ہےلیکن اس تکنیکی انقلاب کے جتنے فوائد ہیں ، منفی استعمال سےاتنے ہی نقصانات بھی سامنے آرہے ہیں۔ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورک (وی پی این)اس سلسلے کی بہت اہم کڑی ہے۔اس کے جہاں بہت سے فائدہ مند ثمرات ہیں ،وہاں کثیرالجہتی منفی نتائج بھی مشاہدے میں آرہے ہیں ۔اس حوالے سے کارپردازان مملکت کو جو سب سے بڑا مسئلہ پریشان کررہا ہے وہ سیکورٹی خدشات ہیں جو ملک دشمن اور امن مخالف عناصر پیدا کرسکتے ہیں۔ان خطرات سے نبرد آزما ہونے کیلئےپاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی(پی ٹی اے)نے وی پی این رجسٹریشن کی نئی حکمت عملی وضع کی ہے کیونکہ مروجہ پالیسی سے مطلوبہ نتائج برآمدنہیں ہوئے۔پی ٹی اے نے وی پی این کے لئے نئی لائسنسنگ پالیسی کیٹگری متعارف کرانے کا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت کمپنیاں اس ٹیکنالوجی سے استفادے کیلئے پرمٹ حاصل کرنے کی درخواست دے سکتی ہیں۔اس کا مقصد پراکسی کمپنیوں کو لائسنس کا اجرا روکنا ہے۔ایسی کمپنیوں کو غیر رجسٹرڈ قرار دے کر بلاک کردیا جائے گا ۔صرف مقامی کمپنیاں جو پاکستان کے قوانین ،شرائط اور قواعد کی پابند ہونگی ،صارفین کو پراکسی خدمات مہیا کرنے کی مجاز ہونگی۔اس سے ریگولیٹری اتھارٹی کو ان کمپنیوں پر زیادہ کنٹرول حاصل ہوجائے گا۔اس وقت زیادہ تر وی پی این کمپنیاں غیر ملکی ہیں ،جو اس کے کنٹرول سے باہر ہیں ۔لوکل وی پی این سروسز کا تصور پاکستان سافٹ ویئر ہائوسز ایسوسی ایشن نے پیش کیا تھا جو انفارمیشن ٹیکنالوجی اور آئی ٹی کی سروسز مہیا کرتی ہے۔اس وقت ملک میں 25لاکھ فری لانسرز ،جن میں اکثریت خواتین کی ہے ،اپنے کنبوں کی کفالت کیلئے آئی ٹی خدمات سے استفادہ کررہے ہیں۔نئی حکمت عملی کے نفاذ سے وہ حکومت کے کنٹرول میں آجائیں گے۔اس سے نہ صرف سیکورٹی خدشات پر قابو پانے میں مدد ملے گی ،بلکہ فیک نیوز،انتشار پھیلانے والے مواداور ہر قسم کے منفی پراپیگنڈے کے تدارک میں بھی مدد ملے گی۔فنی ماہرین نےنئی پالیسی پر اعتراض کیا ہےکہ اس سے حکام کو نگرانی کے وسیع اختیارات مل جائیں گے ،لیکن وی پی این کا استعمال روکا نہیں جاسکے گا۔کسی کمپنی کو بلاک کیا جائے گا تو لوگ دوسری کمپنیوں سے رجوع کرلیں گے ۔لیکن یہ بھی مدنظر رہے کہ فائبر آپٹیکل ،کیبل اور وائٹل انٹرنیٹ ملک کا مستقبل ہے،اس سے انکار ممکن نہیں ۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی جو وفاق میں حکومت کی اتحادی جماعت ہے ،کے چیئرمین بلاول بھٹوزرداری نے جام شورو یونیورسٹی کے کانووکیشن سے خطاب کرتے ہوئے قومی اسمبلی میں ڈیجیٹل بل لانے کا اعلان کیا ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ اسلام آباد میں اعلیٰ عہدوں پر فائز بڑی عمر کے لوگوں اور افسروں کو انٹرنیٹ کی سمجھ ہی نہیں۔موجودہ دور میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی تک رسائی نوجوانوں کا بنیادی حق ہے اور ملک میں نوجوانوں کی آبادی 65فیصد ہے ،انھیں اس مقصد کیلئے جو روشن مستقبل کی ضمانت ہیں ،جدوجہد کرنا ہوگی کیونکہ بوڑھے اس بارے میں سوچتے ہی نہیں ۔بلاول بھٹو کی سوچ یقیناً تعمیری اور مثبت ہے ۔ملک میں انٹرنیٹ کی سست رفتار سے وابستہ لوگ بہت پریشان ہیں ۔اس سے قومی خزانے کو بھی اربوں روپے کا نقصان ہورہا ہے ۔دوسرے معاملات کے علاوہ اس مسئلے کا حل بھی ناگزیر ہے جو جدید دور کے تقاضوں سے عہدہ برآ ہونے کیلئے تلاش کرنا اور اس پر سختی سے عمل کرنا ہوگا۔