• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کا بیلسٹک میزائل پروگرام شروع دن سے ہی امریکہ اور بھارت کی آنکھوں میں کھٹک رہا ہے اور یہ ممالک اسے اپنے لئے خطرہ تصور کرتے ہیں جس کا اندازہ امریکی قومی سلامتی کے نائب مشیر جان فائنر کے حالیہ بیان سے لگایا جاسکتا ہے کہ ’’پاکستان کی بیلسٹک میزائل ٹیکنالوجی امریکہ کیلئے بڑھتا ہوا ایک خطرہ ہے جو امریکہ کو نشانہ بناسکتا ہے۔‘‘ یاد رہے کہ اس بیان سے ایک روز قبل امریکہ کی جانب سے پاکستان کی قومی میزائل ڈویلپمنٹ ایجنسی اور اس کی 3 وینڈر کمپنیوں پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ امریکی محکمہ خارجہ کے اعلامیہ میں کہا گیا کہ یہ پابندیاں امریکی ایگزیکٹو آرڈر کے تحت لگائی گئی ہیں جو جوہری ہتھیاروں اور انکے پھیلائو کو روکنے کیلئے نافذ کیا گیا ہے۔ بعد ازاں پاکستان کے دفتر خارجہ نے جان فائنر کے بیان کو مضحکہ خیز قرار دیا اور کہا کہ ’’کسی ذمہ دار پاکستانی اہلکار نے کبھی امریکہ پر میزائل داغنے کی دھمکی نہیں دی، پاکستان کے میزائل پروگرام سے امریکہ کو کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں اور پاکستان کا جوہری یا میزائل پروگرام صرف پاکستان کی سیکورٹی کیلئے ہے، امریکہ جانتا ہے کہ پاکستان نے جوہری پروگرام کیوں شروع کیا۔ ‘‘

امریکہ اس سے قبل بھی پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام پر اپنے خدشات کا اظہار کرچکا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کی حمایت سے انکار امریکی پالیسی کا حصہ ہے تاہم یہ پہلی بار ہوا ہے کہ امریکہ کی جانب سے پاکستان کی کسی قومی کمپنی پر پابندی عائد کی گئی ہو جو یقیناً باعث تشویش ہے۔ امریکہ کا الزام ہے کہ NDC پاکستان کے شاہین میزائل کی سیریز کے بیلسٹک میزائلوں کی تیاری اور ترقی میں ملوث ہے۔ یاد رہے کہ اس سے قبل رواں سال ستمبر میں بھی امریکہ نے پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کو مبینہ طور پر ساز و سامان کی ترسیل کرنے والے چینی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ سمیت کئی چینی کمپنیوں پر پابندیاں عائد کی تھیں۔ ان کمپنیوں پر بھی یہ الزام تھا کہ انہوں نے میزائل ٹیکنالوجی کی پابندیوں کے باوجود پاکستان کے شاہین میزائل 3 اور ابابیل سسٹمز کے راکٹ موٹرز کیلئے ساز و سامان فراہم کیا تھا۔ واضح ہو کہ پاکستان کے درمیانی فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل شاہین 3 اور ابابیل میزائل کا شمار بہترین صلاحیتوں والے میزائلوں میں ہوتا ہے۔ شاہین 3 میزائل کی رینج 2750 کلومیٹر ہے جبکہ ابابیل جنوبی ایشیا میں پہلا ایسا میزائل ہے جو 2200 کلومیٹر کے فاصلے تک متعدد وار ہیڈز یا جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور بھارت میں مختلف اہداف کو نشانہ بناسکتا ہے۔ پاکستان کے شاہین اور ابابیل میزائلوں کے برعکس بھارت کے اگنی 5 انٹر کانٹی نینٹل میزائل کی رینج 5000 کلومیٹر ہے جو پاکستان کے علاوہ چین کے دور دراز شہر کو ہدف کا نشانہ بناسکتا ہے۔ بھارت اپنے میزائل پروگرام کیلئے دنیا بھر سے کھلے عام ساز و سامان خرید رہا ہے مگر بھارتی میزائل پروگرام کو ساز و سامان سپلائی کرنے والی کمپنیاں امریکی پابندیوں سے مستثنیٰ ہیں۔ پاکستان کا بیلسٹک میزائل سسٹم ہمارے ایٹمی پروگرام کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے اور ایٹمی پروگرام بیلسٹک میزائل سسٹم کے بغیر ناممکن ہے جو امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کی آنکھوں میں کھٹک رہا ہے۔ ان ممالک کو خطرہ ہے کہ پاکستان آنے والے وقت میں اپنا اسپیس وہیکل لانچ کرسکتا ہے جس سے پاکستان کو انٹر کونٹی نینٹل میزائل فائر کرنے کی صلاحیت حاصل ہوجائے گی تاہم ایسی کوئی مصدقہ رپورٹس یا اطلاعات نہیں ہیں کہ پاکستان نے ایسے طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل بنائے ہوں یا ان کا تجربہ کیا ہے جو امریکہ تک ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ حال ہی میں امریکہ نے بھارت کو جدید ہتھیاروں کی ٹیکنالوجی منتقل کی ہے لیکن پھر بھی اسے پاکستان کے میزائلوں سے خطرہ محسوس ہوتا ہے جو پاکستان کے ساتھ امریکہ کے امتیازی سلوک اور دہرے معیار کو ظاہر کرتا ہے۔

پاکستان کے میزائل پروگرام پر بھارت کی گھبراہٹ تو سمجھ میں آتی ہے لیکن سپر پاور امریکہ کی پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام پر تشویش اور پابندیاں سمجھ سے بالاتر ہیں۔ امریکہ نے بھارت کے میزائل پروگرام پر کبھی اس طرح کی پابندیاں عائد نہیں کیں جس کا میزائل پروگرام پاکستان سے بہت ایڈوانس ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ آئندہ سال جنوری میں اپنے عہدے کا حلف اٹھارہے ہیں اور ان کی نئی انتظامیہ میں کئی بھارتی نژاد شامل ہیں جس سے اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ مستقبل میں پاکستان کے بارے میں امریکہ کا رویہ کیسا ہوگا اور پاکستان کو آنے والے وقت میں اسی طرح کے بیانات کیلئے تیار رہنا چاہئے جیسا کہ امریکی قومی سلامتی کے نائب مشیر جان فائنر نے دیاہے۔ پاکستان پر امریکی پابندیاں کوئی نئی بات نہیں اور نہ ہی ان پابندیوں سے پاکستان پر کوئی اثر پڑتا ہے۔ امریکہ ماضی میں بھی پاکستان کے جوہری پروگرام کے حصول کے دوران اسی طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرتا رہا مگر ہمارا ایٹمی پروگرام کامیابی سے ہمکنار ہوا اور موجودہ صورتحال میں بھی امریکی دھمکیاں اور پابندیاں پاکستان کے بیلسٹک میزائل کے پروگرام پر حائل نہیں ہوں گی اور امریکہ کو منہ کی کھانا پڑے گی۔

تازہ ترین