اسرائیل نے دن دہاڑے، دنیا کی آنکھوں کے سامنے ہزاروں فلسطینیوں کو قتل کر دیا، اور اس قتلِ عام میں بچوں، بوڑھوں، عورتوں اور بیماروں کے ساتھ بھی کوئی رعایت نہیں برتی گئی۔ غزہ کا ہر سکول اور ہر ہسپتال زمیں بوس کر دیا گیا، شہداء کے جنازوں پر میزائیل چلائے گئے، غذا کی ترسیل بند کر دی گئی، سفاکیت اور خوں خواری کی نئی تاریخ رقم کی گئی۔ اس قتلِ عام میں اسرائیل کو امریکا اور اس کے اتحادیوں کی ہر طرح کی غیر مشروط حمایت حاصل رہی ہے، اور آج بھی حاصل ہے۔اب ذرا دل تھام کر اگلی خبر بھی سن لیجیے۔ امریکا، یورپی یونین اور برطانیہ نے پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتِ حال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اللہ ہی اللہ۔ بلاشبہ، یہ ’’تشویش‘‘ مضحکہ خیزی کے نادر ترین نمونوں میں شمولیت کی حق دار ٹھہرے گی۔
نو مئی کے حملوں میں شامل پچیس سویلینز کو پاکستانی ملٹری کورٹس نے اپنے حالیہ فیصلوں میں سزا سنائی تو امریکا، یورپی یونین اور برطانیہ نے بہت ناک بھوں چڑھائی اور فوجی عدالتوں کو انصاف کے مروجہ اصولوں اور انسانی حقوق کے تقاضوں کی نفی قرار دیا ۔ فوجی عدالتیں تو چھوڑئیے، امریکا اور مغربی ممالک تو دنیا بھر میں مارشل لاز کی حمایت بھی کرتے ہیں، بادشاہتوں کو قائم رکھنے میں دل و جان سے مدد بھی فراہم کرتے ہیں، اور آمریتوں کے صدقے واری بھی جاتے ہیں، پھر کبھی کبھی یہ انسانی حقوق اور انصاف کے تقاضے کہاں سے ٹپک پڑتے ہیں؟ ایک سیدھا مسئلہ تو یہ ہے کہ آج کل پاکستان سامراج کے لیے کسی پراکسی جنگ میں شامل نہیں ہے، اور ماضی گواہ ہے کہ جب جب خطے میں جنگ رکتی ہے، پاکستان قابلِ استعمال نہیں رہتا تو امریکا کو کئی ’’اصولی موقف‘‘ یاد سے آ کے رہ جاتے ہیں۔ پچھلے ہفتے امریکا نے پاکستان کی کچھ نجی کمپنیوں پر اس الزام کے تحت پابندی لگا دی تھی کہ یہ ادارے دورمار میزائلوں کی تیاری میں شامل ہیں۔ قرائن بتاتے ہیں کہ پاکستان کا بازو مروڑنے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں، اور ایسے ہی موقعوں کیلئے امریکا نے کچھ خصوصی چابک رکھے ہوئے ہیں جن میں پاکستان کی جوہری طاقت سے انسانی حقوق کی صورت حال تک کئی آزمودہ چھانٹے شامل ہیں۔ پاکستان کی طرف اس درشت رویے کو ہم خطے میں چین اور امریکا کے مفادات کے تصادم کے پس منظر میں سمجھنے کی کوشش کر سکتے ہیں، مگر دوسری طرف پی ٹی آئی کے دوستوں کا اصرار ہے کہ امریکا اور یورپ عمران خان کی رہائی چاہتے ہیں، اور اس سلسلے میں آنے والے دنوں میں پاکستان پر دبائو بڑھتا جائے گا، اور ٹرمپ کے قصرِ صدارت میں داخلے کے بعد فائنل رائونڈ شروع ہو جائے گا۔ ہمیں اس بارے میں کبھی کوئی شبہ نہیں رہا کہ عمران خان کے جاں نثار حامی ایک متوازی کائنات میں رہتے ہیں جس کے ’حقائق‘ ہمارے لئے یک سر اجنبی ہیں۔
جہاں تک فوجی عدالتوں کا معاملہ ہے، ہم اس قول سے متفق ہیں کہ ’’ملٹری کورٹس کا انصاف کی دنیا میں وہی مقام ہے جو ملٹری بینڈ کا موسیقی کی دنیا میں ہے۔‘‘ بہ طور اصول، سویلینز کے کیس فوجی عدالتوں میں نہیں چلنے چا ہئیں۔ اب ذرا نو مئی کے واقعے پر ایک نظر ڈال لیجیے۔ ادارے کے اندرونی ذرائع مصر ہیں کہ نو مئی فوج کے اندر بغاوت برپا کرنے کا ایک منظم منصوبہ تھا، خیال یہ تھا کہ ’’حقیقی آزادی‘‘ کے لاکھوں متوالے پاکستان کے طول و عرض میں فوجی عمارتوں اور شہداء کی یادگاروں پر حملہ آور ہوں گے، میر جعفر و میر صادق کی ذریت کے خلاف نفرت کا تاریخی مظاہرہ میڈیا کی زینت بنے گا، ملک میں فضا بندی مکمل ہو جائے گی، اور جب لوہا گرم ہو جائے گا تو اندر سے ضرب لگائی جائے گی، اور سپہ سالار کو اسی طرح گھر جانے پر مجبور کیا جائے گا جیسے یحییٰ خان اینڈ کو نے ایوب خان کو کیا تھا۔ فرض کیا، یہ سچی کہانی ہے تو پھرسوال پیدا ہوتا ہے کہ ان مجرموں کا کیس کس عدالت میں چلنا چاہیے؟ اپنے ملک کی ناقابل رشک جمہوریت اور ہائی برڈ نظام کی ساخت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے، یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ نو مئی کے ماسٹر مائنڈ اور کارندے خوش قسمت ہیں جو اب تک ’عذاب الیم‘ سے بچے ہوئے ہیں۔ بلکہ ہماری ٹوٹی پھوٹی جمہوریت اور عدالتی نظام کو تو چھوڑیے، دنیا کی مضبوط ترین جمہوریتوں میں بھی فوج کے اندر شورش برپا کرنے کی ناکام سازش کرنے والوں کو نشانِ عبرت بنا دیا جاتا ہے، اور بہت سے ملک تو آج بھی ایسے ہیں جہاں ناکام باغیوں کو فائرنگ اسکواڈ کے سامنے کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ نو مئی حملوں کی تیاری ایک سال تک کھلے بندوں کی گئی تھی، قمرباجوہ صاحب اپنی نوکری کی توسیع کی بے لگام خواہش میں ایسے مبتلا ہوئے کہ عمران خان کو ایک سال تک اپنے ادارے کے خلاف دشنام طرازی، جانور، غدار، میر جعفر کا بیانیہ بنانے اور نفرت پھیلانے کی کامل آزادی حاصل رہی۔ نو مئی اس ذہن سازی کا بدیہی نتیجہ تھا۔ پی ٹی آئی ابتدائی دنوں میں نو مئی کو ’’یومِ فتح مبین‘‘ قرار دیتی رہی، ادارے کا شدید ردِ عمل آنا شروع ہوا تو ’’فالس فلیگ‘‘ کا بیانیہ گھڑا گیا جسے آج بھی بہ طور بیانیہ استعمال کیا جاتا ہے، مگر دوسری طرف پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا جنگ جُو فوج کے خلاف نفرت انگیز بیانیہ بنانے کا کوئی موقعہ ضائع نہیں کرتے، عمران خان خود بھی سقوطِ ڈھاکا اور بنگالی حریت پسندوں کے خلاف فوجی کارروائیوں کا تذکرہ کر کے فوج کو طیش دلاتے ہی رہتے ہیں۔ ان حالات میں پی ٹی آئی حکومت مذاکرات کا ڈول ڈالا توگیا ہے مگر ان مذاکرات سے امید یں باندھنا خوش گمانی کی انتہا ہو گی۔ افواج کے خلاف زہر اگل کر، ایک ہائی برڈ حکومت سے شاید ہی کوئی رعایت لی جا سکے۔