وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے کہا ہے کہ وہ مذاکرات کیلئے پی ٹی آئی کی 31 جنوری کی ڈیڈلائن کو سنجیدہ نہیں لیتے، 9 مئی کا معاملہ اُن تک بھی جائے گا جو اس واقعے کے منصوبہ ساز اور ماسٹر مائنڈ تھے۔
جیو نیوز کے پروگرام "آج شاہ زیب خانزادہ کے ساتھ" میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کو نظر بند کرنے یا خیبر پختونخوا بھیجنے کی کبھی کوئی آفر نہیں کی گئی، مذاکرات کا مطلب جیل سے رہائی نہیں ہے۔
عطا تارڑ نے کہا کہ 9 مئی کے فیصلے عجلت میں تو نہیں کیے گئے، مذاکرات سے 9 مئی کا تعلق نہیں، ہر چیز کا مخصوص قانون اور عدالت ہوتی ہے، نارکوٹکس کا معاملہ ہوگا تو وہ اینٹی نارکوٹکس کورٹ میں فیصلہ ہوگا، جو لوگ فوجی تنصیبات کی توڑ پھوڑ کر رہے تھے ان کو ملٹری کورٹس نے سزا سنائی، کیسز میں رائٹ ٹو فیئر ٹرائل دیا گیا۔
عطا تارڑ نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی ملٹری کورٹس کے فضائل بیان کیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ دنیا کی بہترین کورٹ بنی ہے تو ملٹری کورٹ بنی ہے۔
وزیراطلاعات نے کہا کہ امریکا، برطانیہ میں کسی ملٹری ہیڈ کوارٹر پر ایسا حملہ ہوتا تو وہاں قیامت برپا ہوجاتی، امریکا میں بھی ملٹری کورٹس موجود ہیں وہاں بھی ملٹری کورٹس سے سزائیں ہوتی ہیں، پاکستان کے آئین و قانون کے مطابق 9 مئی کے واقعات پر سزائیں ہوئیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ مذاکرات کا یہ مقصد نہیں تھا کہ کسی کے کیسز ختم کرکے اسے رہائی دے دی جائے، 26ویں آئینی ترمیم میں پی ٹی آئی شامل تھی، معاشی استحکام کیلئے بہت ساری چیزوں پر بات ہو سکتی ہے، ایگزیکٹیو کسی کی رہائی کیلئے کیا کرسکتا ہے؟ عدالت نے فیصلے کرنے ہیں۔
عطا تارڑ نے مزید کہا کہ بانی پی ٹی آئی نے سیاسی بیانیہ دیا، بانی کو ہاؤس اریسٹ یا کے پی کے جیل میں بھیجنے کی کوئی آفر نہیں ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا پر ریاست کی پالیسی کی ترجمانی نہیں ہوتی، کوئی ملک کسی دوسرے کو یہ نہیں کہتا ہے کہ عدالتوں کو سائیڈ پر رکھو اور کسی کو رہا کر دو، تمام ممالک جن سے ڈپلومیٹک تعلقات ہیں ان کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
وزیر اطلاعات نے کہا کہ افغانستان کے معاملے پر دفترخارجہ موقف دیگا، جب تک تصدیق نہیں ہوتی میں تبصرہ نہیں کر سکتا۔