• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گیتوں کا شہر ملتان جسے مدینۃ الاولیا بھی کہا جاتا ہے۔ اپنی خوبصورت مساجد، باغات اور تاریخی مقامات کیلئے مشہور ہے، خاص طور پرشاہ رکن عالم کی درگاہ اور ہنر مند لوگوں کی وراثت کیلئے ۔ موسم آنے پر آموں کی خوشبو اور ثقافتی رنگینی اس شہر کی پہچان ہے۔ ملتان میں مدفون بزرگوں کے علاوہ میرے جاننے والے بہت کم ہیں۔ یوسف رضا گیلانی سے تھوڑی سی آشنائی ہے۔ لندن میں ایک بار ان کے ساتھ ایک خوبصوت دن گزارا تھا۔ سی پی او ملتان صادق علی ڈوگر کے ساتھ تعلق اس زمانےمیں قائم ہوا تھا جب وہ میانوالی میں ڈی پی او ہوتےتھے انہوں نے میانوالی جیسی قتل گاہ کو امن کا گہوارہ بنا دیا تھا۔ میانوالی پنجاب کے ان شہروں میں جہاں ہر مہینے بہت سے لوگ قتل ہو جاتے ہیں۔ میں نے ابھی جب ملتان پولیس کے حوالے سے کالم لکھنےکا سوچا تو نہاں خانہ ذہن میں خالد مسعود خان لہرا گئے، انہیں فون کیا اور ان سے اجازت لی۔ اگرچہ ملتان پولیس پران کےکچھ تحفظات تھے مگر انہوں نےکہا کہ مجھے یہ کالم ضرور لکھنا چاہئے۔

صادق علی ڈوگر کی سربراہی میں اس سال ملتان پولیس نے آئی ٹی ایپس استعمال کرتے ہوئے ایک ہزار دو سو اسی مجرم گرفتار کیے۔ کئی معروف اشتہاری بھی سلاخوں کے پیچھے پہنچ گئے۔ ایک ہزار بتیس چوری شدہ گاڑیاں برآمد کرکے مالکان کے حوالےکی گئیں۔ نو سو چھہتر موبائل فون ریکور کیے گئے ہیں۔ یہاں بھی سی پی او ملتان نے کرائم کنٹرول کیلئے اپنا مخصوص پولیس پیٹرولنگ پلان تشکیل دیا جس سے سنگین مقدمات میں کمی آئی۔ پچھلے سال کے مقابلے میں اس بار ڈکیتی کی وارداتوں میں چوبیس فیصد، نقب زنی کی وارداتوں میں تہتر فیصد، وہیکلز چوری بارہ فیصد اور باقی جرائم میں پچیس فیصد کمی آئی۔ ان کے آنے کے بعد منشیات فروشوں کے خلاف بھی کریک ڈاؤن ہوا اور صرف چھوٹے نہیں بڑے منشیات فروشوں پر بھی ہاتھ ڈالا گیا۔ اس سال جو منشیات پولیس نے پکڑی وہ گزشتہ سال کے مقابلے میں پینتالیس فیصد زیادہ ہے۔ جن منشیات فروشوں کے خلاف کارروائی کی گئی، ان میں سینتالیس فیصد چرس، اکیس فیصد شراب، ستتر فیصد ہیروئن اور چوبیس فیصد آئس بیچنے والے لوگ شامل ہیں۔ سیدھے سبھائو یہ کہ چرس ریکوری1174 کلو گرام، ہیروئن ریکوری48 کلوگرام، آئس ریکوری29 کلوگرام افیون ریکوری، 8.5کلو گرام شراب ریکوری 67153لٹر اس سال ہوئی۔ بے شک ملتان میں منشیات فروشی نمایاں طور پر کم ہوئی ہے۔ سنگین مقدمات میں یکسوئی کیلئے باقاعدہ ٹیمیں تشکیل دی گئیں۔ جن میں آئی ٹی کے ماہرین بھی شامل تھے۔ سو اس حوالے سے اس سال ملتان پولیس کی کارکردگی سو فیصد رہی۔ ان میں ڈاکہ زنی کے دوران قتل کے سترہ مقدمات تھے، سترہ قتل کی اندھی وارداتوں پر کامیاب روشنی ڈالی اور مجرموں کو فرفتار کیا۔ ریپ کے ساتھ قتل کے تین مقدمات میں ملوث لوگوں کو انجام تک پہنچایا۔ اغوا برائے تاوان کی دو وارداتوں کو کامیابی سے حل کیا۔ ملزمان کےخلاف وہ گھیرا مسلسل تنگ کرتے جا رہے ہیں۔ اسی وجہ اس سال تریپن پولیس مقابلے ہوئےجس میں11 ملزمان ہلاک ہوئے اور باسٹھ زخمی حالت میں گرفتار کیے گئے۔ اس سال درج ہونے والے چھ ہزار سات سو سنگین مقدمات میں سے اسی فیصد مقدمات میں کامیابی حاصل کی۔

ڈوگرصاحب کا مزاج ہے کہ وہ کرائم کنٹرول کے ساتھ ساتھ عوام الناس کی سہولیات پر خصوصی توجہ دیتے ہیں۔ میانوالی میں پولیس کا اسکول اس وقت بھی وہاں کے چند بہترین اسکولوں میں سے ایک ہے۔ ملتان کےخدمت مراکز میں عوام کیلئے مختلف پولیس سروسز فراہم کی گئی ہیں جن میں اکہتر ہزار آٹھ سو بیس افراد کو جنرل پولیس ویری فکیشن سرٹیفکیٹس، تین ہزار نو سو سترہ افراد کو وہیکل ویری فکیشن سرٹیفکیٹس جاری کیے گئے۔ اس کے ساتھ ساتھ تھانہ جات میں موصول ہونے والی ایک لاکھ اٹھہتر ہزار دو سو ننانوے درخواستوں پر سو فیصد شرح کے ساتھ اقدامات کا اندراج کیا گیا ہے۔ انہوں نے میانوالی کی طرح یہا ں بھی عوام الناس کیلئے اپنے دفتر کے دروازے چوبیس گھنٹے کھلے رکھے ہوئے ہیں۔ انتالیس سے زیادہ کھلی کچہریاں منعقد کی ہیں۔ ملتان پولیس نے ٹریفک وائیولیشن کی روک تھام کیلئے ٹریفک قوانین کی پابندی نہ کرنے والے افراد کے خلاف بھی کریک ڈاؤن کیا جس کے نتیجہ میں چار لاکھ چوالیس ہزار نو سو تراسی ای چالان عمل میں لائے گئے جس سے جرمانہ کی مد میں تین سو ایک ملین روپےسرکاری خزانے میں جمع ہوئے۔ کریک ڈاؤن کے نتیجے میں ایسے افراد، جو بغیر لائسنس ڈرائیونگ کر رہے تھے، کی جانب سے ڈرائیونگ لائسنس کیلئے تریپن ہزار درخواستیں موصول ہوئیں۔ بے شک اعداد و شمار تو یہی ہیں مگر مہنگائی کی مسلسل بڑھتی ہوئی شرح کے سبب چوری وغیرہ کی وارداتیں پورے ملک میں بڑھ چکی ہیں، اس کیلئے خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔ حالات کچھ ایسے ہوتے ہیں جہاں اسلامی سزائیں اپنی عمل داری کم کر لیتی ہیں۔ کہتے ہیں کہ اگر بھوک کی اضطراری حالت میں کسی نے روٹی چوری کر لی ہے تو اس پر حد لاگو نہیں ہوتی۔ جنابِ عمر فاروقؓ نے قحط کے زمانے میں کچھ ایسے ہی فیصلے سنائے تھے۔ مجموعی طور پر میں سمجھتا ہوں کہ آئی جی پنجاب اور وزیر اعلیٰ کو سی پی او ملتان کو سراہنا چاہئے کہ ان کی مسلسل محنت ملتان کی صورتحال کو بہتر بنانے میں کامیاب ہو گئی ہے وگرنہ ان سے پہلے ملتان میں جرائم کی شرح بہت بڑھ گئی تھی۔ خاص طور پر چوری کی وارداتوں میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا تھا۔ ملتان کے حوالے سے میں جاوید ہاشمی کا ذکر کرنا بھول گیا تھا۔ وہ بھولنے والی شخصیت نہیں۔ اللہ ان کی عمر دراز کرے اور انہیں صحت مند رکھے۔

تازہ ترین