الوداع 2024۔دو دن بعد ہم ایک نئے سال سے دوچار ہورہے ہوں گے۔ یہ اوپر والا ہی جانتا ہے کہ یہ 2025ہمارے لیے کتنی قیامتیں، بشارتیں، کتنی خزائیں، کتنی بہاریں لے کر آرہا ہے۔
آج اتوار ہے۔ 2024کا آخری اتوار۔ آج دوپہر کے کھانے پر اپنے بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں، بہوئوں دامادوں کے ساتھ بیٹھ کر کچھ زیادہ وقت رکھئے گا۔ بہت طویل سال تھا۔ ایک ایک لمحہ گن کر گزارا ہے۔ واہگہ سے گوادر تک سب کو ہر لمحے کسی اچھی خبر کا انتظار رہا ہے۔ یہ ہماری نئی نسل ہماری اولادیں ہم سے زیادہ با خبر ہیں، انہیں علم ہے کہ ٹیکنالوجی میں کیا نئی نئی ایجادات ہورہی ہیں ہونے والی ہیں، سوشل میڈیا سے ملحقہ کمپنیوں کے نشانے کیا کیا ہیں۔
میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں، اگر چہ حق ادا نہیں کرپاتا، میرا عوام کیلئے لکھنے کا سفر 1962سے شروع ہوا تھا، اب 62سال ہورہے ہیں۔ مسلسل چھ دہائیاں، اب بھی لکھنا سیکھ رہا ہوں۔ اب بھی اپنے ضمیر سے لڑائی رہتی ہے کیونکہ گورنمنٹ کالج لاہور میں آخری سال جو عزم کیا تھا، جو خواب دیکھے تھے۔ امام غزالی نے، ژاں پال سارتر نے، برگساں نے، ڈیکارٹ نے، اقبال نے جو کچھ کہا تھا مجھے 62سال ملے۔ بڑے میڈیا ہائوسز میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہا۔ قارئین کی ایک بڑی تعداد سے مخاطب ہونے کا موقع ملا۔ اظہار خیال اور اپنے ماضی الضمیر کی ترسیل کے مصدقہ ذرائع ملے۔ بہت سے صدور، وزرائے اعظم کے ساتھ اندرونی اور بیرونی سفر بھی کیے۔ کوئی خواب پورا نہ ہو سکا، اب بھی سوچ رہا ہوں، اس کشمکش میں راتیں گزر رہی ہیں کہ ہم یورپ، شمالی امریکہ میں زندگی کی جو آسانیاں دیکھتے ہیں، وہ اپنے ہاں کیوں نہ لا سکے۔ ہمارے حکمراں، سول، فوجی، بہت کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ خود ساختہ یا مسلط کردہ جلا وطنی میں تو زیادہ قریب سے وہ سہولتیں صرف دیکھتے ہی نہیں خود بھی ان سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ مگر جب فیصلہ ساز مسندوں پر بیٹھتے ہیں تو یہ آسانیاں ان کی ترجیح کیوں نہیں ہوتی ہیں۔ مجھے تو بار بار یہ احساس ہوتا ہے کہ اس مملکت خداداد کی ناکامیوں میں میرا بھی حصّہ ہے، تو ان پاکستانیوں کے ذہنوں میں یہ قلق یہ ندامت کیوں نہیں ہے۔
میری پشیمانی میں مزید اضافہ اس وقت ہو جاتا ہے جب میں اپنے ہمسائے میں لوگوں کو سہولتیں ملتی دیکھتا ہوں۔ دبئی، ابوظہبی، شارجہ، راس الخیمہ، العین، کویت، بحرین، سعودی عرب، قطر یہ سب 1971تک، ریگ زار تھے۔ اب دنیا کی بہترین معیشتیں ہیں۔ 1972میں ان کے ایئر پورٹس کیا تھے، اب کیا ہو گئے ہیں۔ خلیج کی ان ریاستوں کی مسلسل ترقی کے جو دورانیے ہیں۔ وہی ہماری بربادی کے عرصے کیوں ہیں۔ کیا ہم سب نسلی طور پر نا اہل ہیں، ناکام ہیں، ہماری تاریخ تو آٹھ دس ہزار سال پرانی ہے، ہمارا تمدن تو صدیوں پر محیط ہے، ہماری شاعری، ہماری کہانیاں تو کئی کئی ہزاریوں پر پھیلی ہوئی ہیں، اتنی تہذیبی مسافتیں طے کرنے والے تو آج بہت آگے ہونے چاہئے تھے۔ حکمران طبقے تو اپنے مفادات کی تکمیل کرتے ہیں۔ ان کی ترجیحات خاندانی ہوجاتی ہیں، ان کی خواہشات موروثیت میں ڈھل جاتی ہیں۔ مگر یہ یونیورسٹیاں، یہ دینی مدارس، یہ تحقیقی ادارے، یہ میڈیا ہائوسز انہوں نے غیر جذباتی غیر جانبدارانہ، معروضی تحقیق کرکے زوال کی ذمہ داریوں کی نشاندہی کیوں نہیں کی۔
76سال بہت عرصہ ہوتا ہے۔ ہم نے اپنی آبادی میں کتنے کروڑوں کا اضافہ کردیا لیکن آنے والوں کیلئے پینے کے صاف پانی کا، اناج کی پیداوار میں فی ایکڑ اضافے کا اہتمام نہیں کیا۔ ضرورت کی مصنوعات کا، ان کی مینو فیکچرنگ کا، ان کی برآمدات کا انتظام نہیں کیا۔ ہمارے صنعت کار اتنے منافع شعار تھے کہ ملک میں مشکلات پیدا ہوئیں، منافع میں کمی آنے لگی تو وہ اپنا سرمایہ اپنی فیکٹریاں دوسرے ملکوں میں لے گئے۔
آئیے اس جانے والے سال کی باتیں کرتے ہیں۔ دو دن رہ گئے ہیں، پہلی دعا تو یہ ہے کہ یہ 2 دن خیریت سے گزر جائیں، کوئی ایسی خبر نہ آئے جس سے مائوں کی گود اجڑ جائے، جس سے سہاگنیں بیوہ ہو جائیں۔ اللہ تعالیٰ تمام شہروں قصبوں دیہات میں امن و امان رکھے۔ خاص طور پر ہمارے قبائلی علاقوں میں جہاں جہاں ہمارے جانباز، ہمارے فوجی افسر جو ان ملکی سلامتی کیلئے اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں۔
2024میں مفاہمت،استحکام، ترقی خوشحالی کیلئے بیانات بھی بہت آئے۔ بیانیے بھی، تقریریں بھی، اشتہارات بھی لیکن کوئی ایسا بڑا کارنامہ نہیں ہوا جس سے ہماری اکثریت تک ثمرات پہنچتے۔ گرفتاریوں، فوجی عدالتوں سے سزائو ںپر تو عالمی طاقتوں کے مذمتی بیانات آ رہے ہیں، الیکشن میں نتائج بدلنے پر بھی واویلا ہو رہا ہے۔ لیکن حکمرانوں کی طرف سے عوام کی بے چینی ختم کرنے کیلئے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا گیا۔
اس سال ملک میں بر سرا قتدار صدر، وزیرا عظم اور کابینہ کے ساتھ ساتھ کئی سابق صدر بھی تھے۔ وزرائے اعظم بھی۔ سابق آرمی چیف بھی۔ سابق وفاقی وزراء۔ سینیٹ کے سابق چیئرمین۔ قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر۔ سابق چیف سیکرٹری۔ بہت سے ملک کے باہر ہیں۔ کلیدی عہدوں والے اعلیٰ افسر بھی ہیں۔ ان سب کی اجتماعی ذہانت اگر ملک کے مفاد میں استعمال ہوتی تو یہ سال اتنا سفاک اور ظالم نہ ہوتا۔ تاریخی اور تہذیبی حوالے سے اس سال میں کیا کچھ منفی نہیں ہوا۔ آئی ایم ایف سے قرض لے کر ڈیفالٹ کو ٹالا گیا۔ ملک میں بڑی سرمایہ کاری باہر سے ہوئی نہ اندر سے۔ مزید لوگ بے روزگار ہوئے۔ مزید بین الاقوامی کمپنیاں اپنا سرمایہ لے کر چلی گئیں۔ بحیرۂ روم مزید پاکستانی نوجوان نگل گیا۔
2024تو ہم نے گن گن کر گزارا ہے۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کوئی دن ایسا آیا ہو جب ہمیں کسی قیادت کی طرف سے ایسی خوشی ملی ہو جس سے گوادر سے واہگہ تک سب سرشار ہوئے ہوں۔تہذیبی، تمدنی، ادبی سطح پر کتاب میلوں، ادبی فیسٹیولز کا اہتمام ہوا۔ پاکستان آرٹس کونسل کراچی نے سالانہ ادبی فیسٹیول صرف کراچی میں ہی نہیں ملک کے دوسرے حصوں میں بھی منعقد کیے۔ 30دن مسلسل سے زیادہ کا ایک عالمی ادبی فیسٹیول تو کراچی میں منعقد کیا۔ جو اپنی قسم کی پہلی کوشش تھی۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان علمی ادبی کوششوں کا ارباب اختیار پر کوئی اثر ہوتا ہے یا نہیں۔
ایک قلق جو ہمیشہ سے ہوتا ہے اس سال زیادہ شدت سے ہوا کہ ہم سب توقعات اسلام آباد، پنڈی اور دوسری صوبائی راج دھانیوں سے رکھتے ہیں۔ ہماری یونیورسٹیاں، کالج دینی مدارس جہاں لاکھوں طلبہ و طالبات، ہزاروں اساتذہ موجود ہیں، کتنے لاکھ جیتے جاگتے ذہن، وہ بانجھ تو نہیں ہیں، وہ کچھ نہ کچھ سوچتے ہوں گے، ان کے محسوسات تاثرات پر مشتمل تحقیقی رپورٹیں کیوں نہیں آتیں۔ 2024بھی اپنی ہلاکت خیزیاں کرتا ہوا چلا گیا ہے۔ الوداع 2024۔ خوش آمدید 2025۔