• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

منظر کچھ یوں ہے کہ میاں محمد نواز شریف نے سرخ کوٹ، سرخ مفلر اور کالا ماسک پہن رکھا ہے، آصف علی زرداری نے سیاہ شلوار کرتا، اجرک اور سندھی ٹوپی زیب تن کر رکھی ہےاور عمران خان نے ہلکے نیلے رنگ کے شلوار قمیص پر گہرا نیلا کوٹ پہنا ہوا ہے۔ تینوں اصحاب ایک گول میز کے گرد تشریف فرما ہیں۔ عمران خان کے چہرے پر خفیف سی مسکان ہے، میاں صاحب باقاعدہ مسکرا رہے ہیں اور زرداری صاحب کی باچھیں پھیل کر کانوں کی لویں چُھو رہی ہیں۔مقام غالباً جاتی امرا ہے۔عمران خان نے گفتگو آغاز کی’’ سب سے پہلے میں چاہوں گا کہ کلثوم آپا کی فاتحہ پڑھ لی جائے۔‘‘

یہ کہہ کر عمران خان نے ہاتھ فضا میں بلند کر دیے۔ میاں صاحب اور زرداری صاحب نے کن انکھیوں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیے۔ دعا سے فارغ ہوتے ہی عمران خان کچھ یوں گویا ہوئے۔ ’’ میں چاہتا ہوں ہم ماضی کو دفن کر کے آگے بڑھیں۔میں اقرار کرتا ہوں مجھ سے غلطیاں ہوئی ہیں، مجھے فیض حمید اور اس کے بزرگوں نے بہکا دیا تھا، میں نے چارٹر آف ڈیموکریسی کو ’’مُک مُکا‘‘ کا نام دیا، یہ میں نے بہت برا کیا، بلاشبہ وہ چارٹر آئین کے بعد اس ملک کی سب سے اہم دستاویز تھی، اس ملک کو جمہوریت کی پٹری پر چڑھانےکیلئے اور سویلین بالا دستی قائم کرنے کیلئے سیاسی جماعتوں کے درمیان میثاقِ جمہوریت اولین شرط ہے۔‘‘ عمران بڑے وفور کے عالم میں چارٹر آف ڈیموکریسی کے فیوض و برکات گنواتے چلے جا رہے ہیں، میاں صاحب مسکرائے جا رہے ہیں اور زرداری صاحب تو شدید مسکرائے جا رہے ہیں۔ اب عمران خان ایک نئے میثاقِ جمہوریت پر زور دے رہے ہیں جس کے تحت کوئی سیاسی جماعت کسی غیر سیاسی قوت کی آلہ کار بن کرمنتخب حکومتوں کا خاتمہ کرنے میں کردار ادا نہیں کرے گی، کوئی حکومت اپنے سیاسی مخالفین کو ناروا سپردِ زنداں نہیں کرے گی، سیاست کو سیاست ہی رہنے دیا جائیگا کرودھ کا کاروبار نہیں بنایا جائیگا۔اس مقام پر زرداری صاحب خود پر قابو نہیں رکھ سکے اور انہوں نے عمران خان کی طرف ایک فضائی بوسہ اچھال دیا۔ میاں صاحب زیرِ لب بڑبڑا رہے ہیں ’’دیر آید، درست آید۔‘‘

یہ منظر ہم نے چشمِ تصور سے دیکھا ہے، ہوا یوں کہ پچھلے ہفتے رانا ثنا اللہ نے خواجہ محمد رفیق شہید کی برسی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر نواز شریف، زرداری اور عمران مل بیٹھیں تو ہمارے ستّر سال کے مسائل ستّر دنوں میں حل ہو جائیں۔اس بیان نے خیال کو مہمیز دی، اور ہماری یہ نغمہ سنجی اسی گرمیِ نشاطِ تصور کا شاخسانہ ہے۔اپنی تمام تر خوش گمانیوں کے با وصف ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ گلشن شاید نا آفریدہ ہی رہے، مگر خواہشوں کے پیڑ ہرے بھرے رکھنے کیلئے ان کی آب یاری لازم ہوا کرتی ہے۔بات یہ ہے کہ ستّر دن تو کیا ہم سمجھتے ہیں کہ اگر ہماری سیاست کی یہ تثلیثِ مقدس مل بیٹھے تو ہمارے سیاسی استحکام کی بنیاد سات دنوں میں ڈالی جا سکتی ہے۔یہ کوئی مفروضہ نہیں ہے، یہ منظر ہم پہلے بھی دن کی روشنی میں اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں۔ جب 2006ءمیں ملک کی اہم سیاسی جماعتوں نے میثاقِ جمہوریت پر دستخط کئے تھے تو ملکی سیاسی نظام نے اس کے میٹھے ثمر سمیٹے تھے۔ 2008ءسے 2013 کے درمیان کم از کم دو مرتبہ نواز شریف کو حکومت بنانے میں معاونت کی پیش کش کی گئی جو انہوں نے مسترد کی۔آصف علی زرداری ان معاملات سے اچھی طرح آگاہ تھے۔ پھر 2014 میں عمران خان کے دھرنے اور نواز شریف کی حکومت کے خاتمے کے منصوبے کی پیپلز پارٹی نے بہ بانگِ دُہل مخالفت کی تھی۔ یاد رہے کہ ان دو حکومتوں کے دوران ملک میں ایک سیاسی قیدی بھی نہیں تھا۔ یہ سب میثاقِ جمہوریت کی برکتیں تھیں۔ جمہوریت کا یہ سفر کیسے کھوٹا ہوا، اپنے ایک ایک سیاسی مخالف کو چُن چُن کر کس طرح جیلوں میں ٹھونسا گیا، عدالتوں کو کیسے انصاف فروشی کے اڈوں میں تبدیل کیا گیا، پارلیمان میں ایک افسر بٹھا کر کس طرح قانون سازی کا مذاق بنایا گیا، کس طور میڈیا کا نرخرہ دبوچ کر جھوٹ بلوایا گیا، یہ ایک دل خراش داستان ہے۔ سویلینز نے پائی پائی کر کے جو سیاسی اثاثہ بنایا تھا، یک مشت لٹا دیا گیا۔ اب میں ہوں اور ماتمِ یک شہرِ آرزو۔سیاسی جماعتوں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ نہیں ہوا کرتا، مذاکرات ہوا کرتے ہیں، دنیا بھر میں ایسا ہی ہوتا ہے، تاریخ میں بھی ایسا ہی ہوتا رہا ہے، بد ترین سیاسی دشمن بھی آپس میں گفتگو کرتے ہیں، Apartheid کا غیر انسانی نظام قائم کرنیوالے سفید فام بھی افریقن نیشنل کانگریس سے مذاکرات کرتے تھے، کالونیوں میں ’’آقا‘‘ اور ’’غلام‘‘ بھی مذاکرات کرتے تھے، ریاستیں دہشت گردوں سے بھی مذاکرات کرتی رہی ہیں، بھٹو صاحب کو پی این اے سے مذاکرات کرنا پڑے تھے،حتیٰ کہ ڈکٹیٹر ایوب خان کو اپوزیشن سے مذاکرات کرنا پڑے تھے، مگر عمران خان اپنے سیاسی مخالفین سے بات چیت کیلئے کسی صورت، کسی حالت میں آمادہ نہیں ہوتے تھے۔ حالت یہ رہی کہ ملکی سلامتی پر جی ایچ کیو میں بریفنگ میں بہ طور وزیرِ اعظم بھی عمران خان اپوزیشن رہ نمائوں کیساتھ ایک چھت تلے بیٹھنے پر تیار نہیں تھے۔ نفرت کی سیاست کا انجام بہ ہر حال ناخوشگوار ہوا کرتا ہے۔ رانا ثنااللہ ہمیں جو خواب دکھا رہے ہیں وہ بہت سہانا ہے۔ تین بڑے ایک میز کے گرد کب بیٹھ پائینگے، ہم نہیں جانتے۔ فی الحال تو ہم پارلیمان میں ہونے والے مذاکرات کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ کوہ ہمالیہ بھی سر ہو جائے گا،پہلے شملہ پہاڑی پر تو چڑھ جائیں۔

تازہ ترین