• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

‎دن مہینے سال یونہی گزر جاتے ہیں۔ اپنے روٹین ورک میں ‎اس کا احساس ہی نہیں ہو پاتا ہم بہتر سے بہترین کی جستجو میں سرگرداں رہتے ہیں حتیٰ کہ ایک دن اسی کاوش میں خود بھی گزر جاتے ہیں، یہ دنیا جہاں دکھوں اور غموں کی آماجگاہ ہے وہیں سکھوں اور خوشیوں کا گہوارہ بھی ہے ہر گزرتے لمحے تمنا رہتی ہے کہ ہم دکھوں سے مکتی پائیں اور خوشیوں یا راحتوں سے ہم آغوش ہوجائیں مگر کیا کریں ہماری یہ دنیا دونوں کا مکسچر ہے’’کبھی دکھ ہے کبھی سکھ ہے ابھی کیا تھا ابھی کیا ہے ...یونہی دنیا بدلتی ہے اسی کا نام دنیا ہے‘‘۔ ہم لوگ ہر بدلتے سال یہ تمنا کرتے ہیں کہ پچھلے برس جو ناکامیاں ہوئیں اب کے برس بہر صورت انہیں کامیابیوں میں بدلیں گے اپنے لیے زیادہ سے زیادہ مسرتیں سمیٹیں گے اسی امید پر ہم ہر نئے برس نئی تمنائیں باندھتے ہیں مگر درویش اپنی اب تک کی زندگی کے حوادثات سے اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ دکھوں سے کامل مکتی ممکن ہی نہیں، آپ کو زندگی میں چاہے جتنی بھی راحتیں میسر ہوں کبھی مت بھولیے کسی بھی لمحے دکھ درد کی کوئی نہ کوئی چنگاری آپ کے دامن کو خاکسترکر سکتی ہے۔ اس لیے دکھوں کے ساتھ ہی جینے مسکرانے یا خوشیاں منانے اور بانٹنے کا فن سیکھ لیں غموں کا دور بھی آئے تو مسکرا کے جیو گزرا سال 2024 ذاتی طور پر اس ناچیز درویش کیلئے’’عام الحزن‘‘ تھا، اس کے باوجود وہ 2025 سے خوشگوار امیدیں باندھے اس کا استقبال کر رہا ہے تاہم دیکھنے والی بات یہ ہے کہ 2024 ہمارے ملک اور دنیا بھر کیلئے کیسا رہا؟ یہ سال اچھا اس لیے نہیں گردانا جا سکتا کہ جنتا اس برس بھی بلکتی رہی ہے خواص یا ایلیٹ کلاس کے اللے تللے پہلے جیسے ہی رہے لیکن عوامی دکھوں اور محرومیوں میں ذرہ برابر فرق نہیں آیا وہی غربت وہی مہنگائی، بےروزگاری، شدت پسندی کی اجارہ داری، وہی گھٹن، وہی جکڑ بندی، لیڈران نے البتہ نئے سال کے آغاز پر ایک اور نیا پانچ سالہ پلان یا چوسنی ضرور دی جس کا نام ہے’’اڑان پاکستان‘‘ یعنی اب یہ ملک ترقی و خوشحالی کی جانب پرواز کرنے لگے گا۔ ہمارے شہبازشریف جس طرح کی اڈاریاں مار رہے ہیںاسی نوع کی اڈاریاں وہ اگلے برسوں بھی مارنا چاہتے ہیں،تاہم درویش کو تو اس کی توقع اس لیےنہیں کہ وہ جن بیساکھیوں پر کھڑے ہیں اس کیلئےایک جواں سال امیدوار بھی پرتول رہا ہے۔جناب نےاپنے خوابوں کی تعبیر اچھے الفاظ میں یہ کہتے ہوئے بیان کی ہے کہ انڈیا کو ترقی دینے کیلئے منموہن نے نواز شریف کے ماڈل کو اپنایا تھا جس کی وجہ سے ہندوستان بہت آگے چلا گیا ، یہ بالکل ویسی ہی بڑھک ہے جیسی ہمارے بہت سے خوش عقیدہ مسلمان بھائی اپنا تقابل مغرب سے کرتے ہوئے اکثر ایسے دعوے کرتے پائےجاتے ہیں کہ مغرب نے ہماری مقدس آئیڈیالوجی کو اپنا کر اتنی زبردست ترقی کرلی جبکہ ہم نے چونکہ ان نظریات کو نہیں اپنایا اس لیے ذلیل وخوار ہو کر پوری دنیا میں رل رہے ہیں ۔شہباز شریف نے یہ بھی فرمایا کہ ہم نے اس پاکستان کو ٹیکسستان بنا ڈالا ہے پاکستان کو آگے لے کر جانا ہے تو ٹیکسز کم کرنے ہونگے میرا بس چلے تو میں ٹیکس دس سے پندرہ فیصد کم کردوں تاکہ چوری بھی کم ہو اور صلاحیت میں بھی بہتری آئے جس ملک کا پرائم منسٹر برملا اپنی بے بسی کا اظہار کررہا ہو خواہ حالات کے جبر سے یا کسی اور کے جبر سے وہاں بھلائی، ترقی یا خوشحالی کی صرف امیدیں ہی پالی جاسکتی ہیں۔ عالمی سطح پر ملاحظہ کریں تو یہ برس جاتے جاتے دو بہترین شخصیات کو اپنے ساتھ لے گیا ہے ایک سابق امریکی پریزیڈنٹ جمی کارٹر کو اور دوسرے انڈیا کے پرائم منسٹر من موہن سنگھ کو۔ ان دو شخصیات کے حوالے سے خوشگوار پہلو یہ ہے کہ دونوں کو بھرپور آئیڈیل طویل زندگی میسر ہوئی بالخصوص صدر جمی کارٹر کو جو دنیا میں ہیومن رائٹس کے علمبردار مانے جاتے تھے جنہوں نے انتہائی اہم عالمی چپقلش کے دور میں اپنی قوم کی نمائندگی کا حق ادا کیا یوں نوبل پرائز کے حقدار ٹھہرے بالخصوص ہمارا خطہ پاکستان ایران اور افغانستان، اس دور میں بڑی تبدیلیوں سے گزرے اسی طرح مڈل ایسٹ کی بدلتی صورتحال سے بھی وہ بطریق احسن نمٹے عالمی سطح پر 2024ءکے آخری ایام سیریا کے حوالے سے بہت بڑے انقلاب یا تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوئے شام میں نصف صدی سے زائد عرصے پر محیط آمریت و جبر کی سیاہ رات اختتام پذیر ہوئی ،آگے جو نئی سحر طلوع ہوئی ہے اس نے ہنوز یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ صبح صادق ہے یا کاذب مگر بے وجہ بدگمانی کی بجائے ہمیں اچھی امیدیں ہی استوار کرنی چاہئیں تاکہ مڈل ایسٹ میں بہتا انسانی خون کسی طرح رک سکے ارض مقدس کنعان میں امن و سلامتی ترقی و خوشحالی والی تین وزیتون کی نئی کونپلیں پھوٹ سکیں اسی طرح نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے بھی امن و ترقی کے حوالے سے دنیا کو بڑی توقعات ہیں ۔اسی طرح افغانستان میں طالبان کیساتھ ہمارے معاملات جس سطح پر چلے گئے ہیں انہیں اور نہیں تو ہمارے پالیسی سازوں کی عاقبت نا اندیشی ضرور قرار دیا جا سکتا ہے ۔ امید کی جاسکتی ہے کہ نئے سال میں ہم اپنی خارجہ پالیسی میں مثبت تبدیلیاں لائیں گے بالخصوص بھارت دشمنی کو خارجہ پالیسی کے محور کی حیثیت سے تبدیل کرنے کا بولڈ قدم اٹھائیں گے۔

تازہ ترین