• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سرعبدالستار ایدھی 88سالہ بھرپور زندگی گزارنے کے بعد اس جہان رنگ و بو سے کوچ کر گئے کوئی سو سال بھی جی لے بالآخر اسے ملک عدم جانا ہی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ آپ نے اس محدود زندگی کو کیسے گزارا؟ محض زندگی گزار لینا کوئی بڑائی نہیں ہے۔ ہم غربت اور وسائل کا رونا روتے ہیں کہ بہت کچھ کر گزرتے اگر وسائل ہوتے جبکہ ایدھی جی نے ہمیں بتایا اور سکھلایا کہ اگر سچی لگن ہو تو پربت بھی دھول ہے پہاڑوں جیسی رکاوٹیں آپ کے پاؤں کی ٹھوکر پر ہیں وسائل آپ سے آپ پیدا ہوتے چلے جاتے ہیں لوگ ملتے جاتے ہیں کارواں بنتا چلا جاتا ہے۔
1928ء کی ایک صبح بھارتی ریاست گجرات کے ایک انتہائی غریب میمن گھرانے میں آنکھ کھولنے والے اس نونہال کی داستان حیات زمانے بھر کیلئے چشم کشا ہے۔ قدرت نے جس کو سوائے دکھ درد اور رنج و غم کے کچھ نہ دیا تھا نتیجتاً وہ کسی تعلیمی ادارے میں زیورِ تعلیم سے بھی محروم رہ گیا وہ اپنی ناکامیوں کا جواز بنانے کیلئے کہہ سکتا تھا کہ قدرت نے اسے سوائے محرمیوں کے دیا ہی کیا تھا۔ گیارہ سال کی عمر میں تھا جب اس کی کل کائنات اس کی دکھیاری ماں فالج جیسے موذی مرض کا شکار ہوگئی ننھے عبدالستار کی ایک ہی دھن تھی کہ کسی طرح اس کی یہ پیاری ہستی اس سے چھن نہ جائے۔ اپنی اس لافانی محبت کیلئے وہ خدمت کی تصویر بن گیا دوا دارو سے لے کر کھانے پلانے اور نہلانے دھلانے تک اس نے اپنا لڑکپن اپنی پیاری والدہ محترمہ کی نذر کر دیا۔ افسوس اپنی اس 8سالہ تپسیا کے باوجود وہ اپنی اس محبوب ہستی کو بچا تو نہ سکا لیکن ریاضت کے اس درد سے اٹھنے والے سوز نے اسے لازوال خدمت کے ابدی سفر پر ایسے رواں دواں کیا کہ بس خدمت ہی اس کیلئے ’’نشان امتیاز‘‘ و پیمانہ عظمت ٹھہری۔ ضروریاتِ زندگی اور حصول روز گار کیلئے اِدھر ادھر ہاتھ پاؤں مارے لیکن کہیں جی نہ لگا کیونکہ ماں نے جاتے جاتے اس کی تمامتر لذت خدمت میں رکھوا دی تھی وہ ا سکول بھیجتے ہوئے اپنے ننھے ستار کو دوآنے جیب خرچ دیتی اور یہ نصیحت کرتی کہ بیٹا ایک آنہ تیرے لئے ہے اور ایک آنہ تیرے ہاتھوں کسی دوسرے کی خدمت کیلئے ہے اگر یہ چھوٹا سا بچہ اپنی معصومیت سے کبھی دونوں آنے خود خرچ کر آتا تو آکر ماں کو بتا دیتا ماں تنبیہ کرتی کہ دیکھو بیٹا کبھی کسی دوسرے کا حق نہیں کھاتے۔ یہ تھی وہ تربیت جس کے حصول سے وہ ننھا بچہ ما بعد دنیا والوں کے سامنے فرشتہ رحمت بن کر نمودار ہوا۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں جس کا عمل ہو بے غرض اس کی جزا کچھ اور ہے حورو خیام سے گزر بادہ جام سے گزر۔ تیرا امام بے حضور تری نماز بے سرور، ایسی نماز سے گزر ایسے امام سے گزر۔
کچھ یہی کیفیت میرے عظیم ممدوح کی تھی جسے آج پوری قوم بابائے خدمت‘‘ اور ’’خادم اعظم‘‘ کے محبت بھرے خطابات سے نواز رہی ہے۔ اس کسمپرسی میں زندگی کا آغاز کرنے والے کی قسمت میں شاید ابھی اور صعوبتیں جھیلنا بھی لکھا تھا۔ نوجوانی میں ماں کیا گئی باپ کی شفقت کا سایہ بھی جلد اٹھا لیا گیا غریب الوطنی اگر اذیت کا سفر ہے تو انیس برس کی عمر میں انہیں اس تکلیف سے بھی دوچار ہونا پڑا یعنی 1947ء میں بھارتی گجرات سے ہجرت کرتے ہوئے کراچی کے علاقے میٹھا درکو مسکن بنایا یہیں 1951 میں صرف پانچ ہزار روپے سے سماجی خدمت کی تنظیم کا آغاز ایک ڈسپنسری سے کیا بینٹوا میمن برادری سے شروع ہونے والاکام خدمت کے اس پیکر کی محنت اور لگن سے ذات برادریوں اور اقوام سے بڑھ کربلا تمیز ذات برادری، مذہب وملت انسانیت کا کام بن گیا۔ آج اس کی ایمبولینس سروس کے کام کو دنیا کا سب سے بڑا خدمت کا غیر سرکاری نیٹ ورک قرار دیا جاتا ہے آج اس کے پاس 5000ایمبولینس گاڑیاں اور ان سے دگنے ڈرائیو ر ہیں تو کچھ فلائنگ ایمبولینسز یعنی ہیلی کاپٹر بھی ہیں۔
سر عبدالستار ایدھی انسانی خدمت میں ہی مقامِ عظمت پر فائز نہیں ہوئے ہیں آپ بظاہر غیر عالم اور ٹھیٹھ گجراتی لہجہ ہونے کے باوجود فکری و شعوری طور پر بھی رہنمائی کے لائٹ ہائوس اور منیارِ نور بنے۔ اس حوالے سے ہم الگ سے ایک مضمون لکھیں گے ۔ وہ ایک انقلابی فکروسوچ کے مالک تھے جو وقت اور زمانے کے تھپیڑوں نے انہیں سکھلائی تھی وہ بالعموم سرمایہ داری اور مخصوص مذہبی پاپائیت سے نالاں رہتے تھے۔ انہیں گلہ تھا کہ بعض مولوی صاحبان محض اس وجہ سے ان کی مخالفت میں ہلکان ہوتے ہیں کہ اگر ایدھی نہ ہوتا تو ان کو شایدمزید چندے ملتے۔ بہرحال ایسے علمائے سوکی تعداد بہت کم ہے علمائے حق کی بہت بڑی تعداد ، خدمت خلق کے لئے کئے گئے کارناموں کی نہ صرف یہ کہ ستائش کرتی ہے بلکہ ان کی وفات پر ان حضرات کی طرف سے خلوص بھرے جذبات کا کھلا اظہار و اعتراف کیا گیا۔
پنجاب اسمبلی کے بالمقابل آویزاںان کے پورٹریٹ کو ہر کوئی محبت بھری نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔ وطنِ عزیز کیا وطنِ عزیز سے باہر بھی کوئی شعبہ زندگی ایسا نہیں جہاں سے ایدھی صاحب کے لئے صدائیں بلند نہیں ہوئی ہیں۔ قائداعظم کے بعد وہ پہلی غیر متنازع شخصیت ہیں جن سے پوری پاکستانی قوم بلا تفریق اظہارِ عقیدت و شکر وسپاس کررہی ہے اسی طرح وہ پہلی غیر سرکاری شخصیت قرار پائے ہیں جن کے جسدِ خاکی کی تدفین پورے سرکاری اعزازاور پروٹوکول کے ساتھ کی گئی ہے۔ اگرچہ یہ شکایت بھی پائی جا رہی ہے کہ سرکاری ہٹوبچو میں عوام کی محبوب شخصیت کو عوام سے دور رکھا گیا۔ وہ عمر بھر عوام کے لئے جیے اور عوام کے لئے مرے۔ جب گولیاں چل رہی ہوتی تھیں تب بھی وہ مرنے والوں اور زخمیوں کو اٹھانے سے باز نہ رہے لائوڈا سپیکروں پر کہا گیا کہ ایدھی صاحب خدا کے لئے چلے جائیں ورنہ گولی آپ کو بھی لگ سکتی ہے لیکن وہ انسانوں کی محبت کا متوالا کبھی جان کے خوف کو بھی خاطر میں نہ لایا۔ تازہ لاشوں کو چھوڑ وہ تو گلی سڑی بدبودار لاشوں اور کوڑھ کے مریضوں کو اٹھانے سے بھی دریغ نہ کرتا تھا ۔ تعفن زدہ لاشیں تو رہیں ایک طرف کتنے میٹرنٹی ہوم، شیلٹر ہوم، اولڈ ہوم، مردہ خانے اور یتیم خانے ہیں بلڈ بنکس ہیں جو ایدھی صاحب نے قائم کئے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ان کے خیراتی اداروں کی تعداد ساڑھے تین سو سے زائد ہے جو اندرونِ ملک اور کچھ بیرون ملک بھی پھیلے ہوئے ہیں ۔ یتیم اور بے سہارا بچوں کے لئے رہائش اور خوراک کا ہی نہیں تعلیم کا بھی بندوبست کیا پچاس ہزار سے زائد یتیم بچوں کی کفالت کی چالیس ہزار نرسوں کو ٹریننگ دی۔ 20 ہزار نومولود لاوارث بچوں کو سینے سے لگایا جس پر ان کی کردار کشی کرتے ہوئے فقرے کسے گئے جبکہ خدمتِ خلق کے پیکر کا کہنا تھا کہ بچے تو معصوم ہوتے ہیں کسی کے ماں باپ نے اگر غلطی کی ہے تو اس میں بچے کا کیا قصور ہے کہ اسے ناجائز قرار دے کر قتل کر دیا جائے۔ آج ان کے ہر پنگھوڑے پر لکھا ہوتا ہے کہ قتل نہ کرو اسے پنگھوڑے میں ڈال جائو۔آج ان خدمات کے اعتراف میں اگر سوسائٹی انہیں خراج تحسین پیش کررہی ہے تو ہمیں اس پر خوشی ہے یہ تو عامتہ الناس کی سر عبدالستار ایدھی کے ساتھ محبت و عقیدت ہے کہ پوری قوم انہیں’’ بابائے خدمت‘‘ اور خادمِ اعظم ‘‘ کے القابات سے یاد کر رہی ہے یہ مطالبات بھی کئے جا رہے ہیں کہ 8 جولائی کو ’’ یومِ انسانیت‘‘ یا’’ یومِ ایدھی‘‘ کے طور پر منایا جائے حکومت نوبل پرائز کی طرح سالانہ ’’ایدھی پرائز‘‘ یا ’’تمغہ انسانیت‘‘ کا اعلان کرے جو دنیا بھر میں بڑھ چڑھ کر انسانی خدمت کرنے والی شخصیت یا ادارے کو پیش کیا جاسکے۔
تازہ ترین