• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جعلی پولیس مقابلے بعض حکمرانوں کی مرغوب ڈش رہی ہے۔ اس ڈش کا نام انہوں نے فوری انصاف رکھا ہوا تھا۔اس دور میں ہر روز پولیس مقابلوں کی فہرست بنتی تھی اور رات کے سناٹوں میں عوام کو’’ فوری انصاف‘‘ فراہم کردیا جاتا تھا۔حکمرانوں کا تصور یہ تھاکہ عدالتوں سے مجرموں کو سزا دلوانے میں طویل عرصہ لگتاہے پھر کمزور پراسیکیوشن کی وجہ سے مجرم بری کر دیئے جاتے ہیں اس لئے خس کم جہاں پاک کا اصول اپناتے ہوئے عوام کو مجرموں سے خود ہی نجات دلا دی جائے۔
حکمران اپنے پولیس سسٹم کو ٹھیک کرنے، پراسیکیوشن کے نظام کو درست کرنے، عدالتی نظام میں اصلاحات کرنے، زیادہ عدالتیں قائم کر کے انصاف کو تاخیر سے بچانے، مجرموں کے پشت پناہ سیاستدانوں اور جاگیرداروں کو لگام دینے کے بجائے دوربادشاہت کی طرح کے اختیارات حاصل کرنے کیلئے بے تاب ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ قدیم بادشاہوں کی طرح وہ بھی جس کو چاہیں قتل کرنے کا حکم دیں اور انہیں کوئی پوچھنے والا نہ ہو ۔
ظاہر ہے کہ دہشت گردی، لاقانونیت، ٹارگٹ کلنگ، نوگوایریاز، بھتہ خوری، اسٹریٹ کرائم، اغوا برائے تاوان وغیرہ ہمارے بڑے مسائل ہیں جس سے پورا معاشرہ انتہائی پریشان ہے اور بے گناہوں کی ہلاکت پر ہر دردمند شہری مضطرب و بے چین ہے لیکن حکمران اپنی نااہلی اور ناکامی کا ملبہ اختیارات کی کمی پر ڈال کر اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دیناچاہتے ہیں۔
پاکستان سرزمین بے آئین نہیں، یہاں آئین بھی موجود ہے اور اس میں انسانی حقوق سے متعلق آرٹیکلز بھی۔ قرارداد مقاصد بھی موجود ہے اور قرآن وسنت کی بالادستی سے متعلق دفعات بھی۔ اس لئے یہاں قانون سازی کے سلسلے میں پارلیمنٹ کے اختیارات لامحدود نہیں اور قانون سازی اللہ کی حاکمیت، اعلیٰ تعلیمات، قرآن و سنت کی پاسداری اور بنیادی حقوق سے ہم آہنگی کی شرائط کے تابع ہے ۔ جماعت اسلامی کے ممبران نے دونوں آرڈی نینسز میں 16ترامیم جمع کرائی تھیں لیکن ان میں سے صرف 2 کو ایجنڈے میں شامل کیا گیا
خصوصی عدالتیں :۔
خصوصی عدالتیں ہمیشہ فوجی آمریتوں کی ضرورت ہوتی ہیں انہیں اپنے فیصلے ہر قیمت پر صادر کرانے ہوتے ہیں جبکہ عام عدلیہ قانون اور انصاف کے ہر پہلو کو مدنظر رکھتی ہے۔ وہ حکمرانوں کی مرضی کے فیصلے نہیں دے سکتی اس لئے آمرانہ طرز سیاست میں خصوصی عدالتیں جنم لیتی ہیں۔ ان عدالتوں کے قیام میں بھی من مانے مرضی کے ججوں کی تقرری کو آسان بنادیا گیاہے ایسی 21 خصوصی عدالتیں قائم کی جائیں گی۔
مشتبہ افراد کو گولی مارنے کا حق:۔
کسی عدالتی اتھارٹی کے بغیر قانون نافذ کرنے والے افراد کو گولی مارنے اور کسی کی جان لینے کا پورا حق اور اختیار دے دیا گیاہے۔ یہ ماورائے عدالت قتل کرنے اور پولیس مقابلوں کے ذریعے کسی کو بھی مارنے کا کھلا لائسنس ہے۔ کراچی میں پولیس اور رینجرز کے ایسے واقعات سامنے آچکے ہیں۔ ماورائے عدالت انسانی جان لینے کا کام طالبان کریں یا حکمران ہر صورت یہ غیر قانونی، غیر انسانی اور غیر اسلامی فعل ہے۔
زیرحراست رکھنے کا قانونی حق:۔
لاپتہ افراد کے سلسلے میں عدلیہ کو فیل کرنے کے لئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو 90دن تک کسی کو بھی حراست میں رکھنے کا اختیار دے دیا گیاہے تاکہ اب ان تمام افراد کو جنہیں اٹھایا گیا، غائب کیا گیا، وحشیانہ تشدد کے ذریعے مردہ یا نیم مردہ کر دیا گیا، ان کی حراست قانونی بن جائے اور سپریم کورٹ کو اس سلسلے میں پوچھ گچھ کرنے، طاقتور ایجنسیوں کو طلب کرنے اور لاقانونیت کو عدالتی کٹہرے میں لانے سے روکا جاسکے۔ غیر قانونی حراست ایک دن کی ہو یا پندرہ یا 90دنوں کی وہ بنیادی طور پر اغوا ہے۔
زیر حراست فرد کو کہیں بھی رکھنے کا حق:۔
حراستی مراکز اور سیف ہائوسز کہ جہاں مدت دراز کے لئے انسانوں کو اٹھا کر پھینک دیا جاتا ہے اور جن کے خلاف رائے عامہ میں انتہائی تشویش پائی ہے اب اس کو بھی قانونی شکل دینے کے لئے تحفظ پاکستان آرڈی نینس میں یہ شق رکھی گئی ہے کہ زیر حراست فرد کو پاکستان بھر میں کہیں بھی رکھا جاسکتاہے ۔ غیر قانونی جیلوں کا سلسلہ جن کے لئے جاگیردار اور وڈیرے بدنام ہیں ان کو ہی پی پی او کے تحت قانونی حراستی مراکز بنایا جارہاہے
شہریت ختم کرنے کا اختیار:۔
کسی بھی پاکستانی کی شہریت کو ختم کرنے یا کسی بھی غیر پاکستانی کو بغیر کسی عدالتی کارروائی کے دشمن قرار دینے کا اختیار دیا گیا ہے۔ ہمارے ملک میں کتنے ہی محصور پاکستانی یعنی بہاری اور مسلم کش فسادات کی وجہ سے نقل مکانی کرنے والے برمی موجود ہیں ممکن ہے ان کے پاس ضروری دستاویزات نہ ہوں لیکن صفائی کا موقع دیئے اور کسی بھی عدالت میں پیش کئے بغیر ان کو دشمن قرار دینا کس طرح قرین انصاف ہے۔
ہم حکومت کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ اس قانون کو محض قومی اسمبلی میں اپنی اکثریت کے زور پر منظور کرانے اور سینیٹ میں مخالفین کی اکثریت سے خائف ہو کر مشترکہ اجلاس بلانے کی روش کو ترک کرے۔ کھلے دل سے تمام دینی و سیاسی جماعتوں اور قانونی ماہرین سے مشاورت کرے۔ ماضی گواہ ہے کہ ایسا قانون جو بنیادی انسانی حقوق کے منافی ہو، وہ بسااوقات قانون سازوں کے ہی گلے کا پھندا بنتاہے اور دوسروں کے لئے کھودے جانے والے کنویں سے انسان خود بھی محفوظ نہیں رہتا۔
تازہ ترین