• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمیں کُتّوں کے ساتھ زیادہ وقت گزارنے کا موقع نہیں ملا، زندگی بھربس یونہی گاہے گاہے دُور دُور سے ہم کُتّوں کی اور کُتّے ہماری زیارت کرتے رہے، اس سے زیادہ تعلق کی خواہش فریقین کے دل میں کبھی بیدار نہ ہو سکی۔بات یہ تھی کہ بچپن سے ہمارے گھر میں کُتوں کا داخلہ ممنوع تھا، عقیدہ یہ تھا کہ اس سے گھر میں فرشتوں کی آمد و رفت کا نظام متاثر ہوتا ہے۔ کُتّوں سے لاتعلقی کے اس تعلق کا نتیجہ یہ نکلا کہ جب جب ہمارے بچوں نے گھر میں کُتّا پال مہم چلانے کا ارادہ ظاہر کیا ہم نے صاف معذرت کر لی، اور اگر بہت اصرار کیا گیا تو وعدہ فردا پر ٹال دیا گیا۔ ’’او لیول میں اتنے اے سٹار آئیں گے تو لے دیں گے، میڈیکل میں داخلہ ہوگیا تو فوراً لے دیں گے‘‘۔ بچوں کے نمبر آتے گئے، داخلے ہوتے گئے مگر وعدہء سگ خانگی نہ پوراہو سکا۔لیکن پھر تقریباً دو سال قبل بہ وجوہ ہم نے کُتے کے محاذ پر بچوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔

کُتوں کی یہ نسل Tibetan Terrier کہلاتی ہے، چھوٹا سا قد، بڑے بڑے بال، کیوٹ سی شکل۔ موصوف کا نام ’’بِنگو‘‘ رکھا گیا۔ بِنگو نے ابتدامیں ہی ہماری طرف دوستی کا پنجہ بڑھایا جسے ہم نے جھٹک دیا، بہت دن ایک ہچکچاہٹ سی رہی، ایک گریز کی کیفیت۔ لیکن پھر آہستہ آہستہ پتا ہی نہیں چلا جانے کب ہماری سرد مہری ہار گئی اور بنگو کی گرم جوشیاں اور شوخیاں جیت گئیں۔ بِنگو کا مجھ پر یہ احسان ہے کہ اس نے مجھے انسانوں سے وراء حیات کے دوسرے مظاہر سے رشتہ استوار کرنے، انس کرنے اور راحت پانے کی راہ دکھائی ہے۔ اس موضوع پر کبھی تفصیل سے بات ہو گی۔ فی الحال اُس کھیل کا تذکرہ سُن لیجیے جو ہم اور بِنگو تقریباً روز ہی کھیلتے ہیں۔ بِنگو ہمیں دیکھتے ہی منہ میں اپنا گینددبا کر ہمارے پاس آ جاتا ہے، ہم وہ گیند اس سے لے کر دور پھینک دیتے ہیں، بِنگو پوری رفتار سے دوڑ کر جاتا ہے اور وہ گیند لا کر پھر سے ہمارے حوالے کر دیتا ہے۔ یہ کُل کھیل ہے، بس یہی کھیل ہے۔ بِنگو یہ کھیل اُسی ذوق و شوق سے روز کھیلتا ہے، اُسی جوش سے، اُسی لگن سے۔ آج پچھلے سال کے اہم واقعات کا احاطہ کرنے کا ارادہ باندھا تو بِنگو کے اس کھیل کی یک سانیت کا خیال آ گیا۔

ایک طریقہ ہے کہ صحافی ہر سال کے اختتام پر سال بھر ہونے والے اہم واقعات کا احاطہ کرتے ہیں، ہم بھی سال ہا سال یہ فریضہ سرانجام دیتے رہے، پھر ایک سال خیال آیا کہ اگر پچھلے سال والا کالم دوبارہ بھی چھپ جائے تو کام چل سکتا ہے، لہٰذا چھپوا دیا گیا اور بہ خوبی کام چل گیا۔ آج بھی وہی صورتِ احوال ہے۔ ایک گیند ہے، ایک بِنگو ہے، نہ کھیل بدلا ہے، نہ بِنگو کا جوش و خروش ماند پڑا ہے۔ کسی بھی شعبے پر نظر ڈالیں، منظر منجمد دکھائی دے گا، اپنی تمام تر ظاہری ہلچل کے باوجود منظر ٹس سے مس نہیں ہو پاتا۔ آئی ایم ایف وہی گیند زور سے پھینکتا ہے، ہم پوری تن دہی سے پھر اس گیند کے پیچھے بھاگتے ہیں، شرائط پوری کرتے ہیں، سینہ پھلا کراپنی کام یابی کا اعلان کرتے ہیں، آئی ایم ایف پھر گیند اچھالتا ہے، ہم پھر گیند کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ اس کھیل میں کیا نیا ہے، ہم سمجھ نہیں پائے۔ ساٹھ کی دہائی میں جس’ٹرکل ڈائون افیکٹ‘ کا لارا ہمیں ڈاکٹر محبوب الحق نے دیا تھا اس کی تو ایک بوند بھی عوام تک نہیں پہنچی تھی، اب کیسے پہنچے گی؟ پچھلے سال کی معیشت، سیاست، معاشرت، جس طرف نگاہ ڈالیں بِنگو اور اُس کی گیند نظر آتی ہے، چکّی میں باریک پستے ہوئے عوام نظر آتے ہیں اور تمتماتے ہوئے سرخ گالوں والی اشرافیہ نظر آتی ہے۔یہ تذکرہ تو سال ہا سال سے جاری ہے، لہٰذا بوریت کے ڈر سے پچھلے سال پر تبصرے کا ارادہ فوری طور پر منسوخ کیا جاتا ہے۔ آئیں، فاسٹ فارورڈ کرکے رواں برس کے اختتام پرپہنچتے ہیں اور 2025ء کا تصوراتی جائزہ لیتے ہیں۔

’’اس سال پاکستان نے کالا باغ ڈیم کی بنیاد رکھی اور اپنی پانی کی ضروریات کو کم از کم نصف صدی کے لیے پورا کر لیا۔ اس حوالے سے سب سے اچھی خبر یہ رہی کہ ڈیم ڈیزائن میں کچھ ردوبدل کے بعد سب صوبوں نے بہ خوشی اس منصوبے کی منظوری دی۔ اس سال آخرِ کار شرحِ افزائشِ آبادی کی مشکیں کس لی گئیں، ملک میں آبادی بڑھنے کی رفتار کم ہو کر ایک فی صد کے قریب آ گئی۔ 2025ء میں ملک میں تعلیمی ایمرجنسی لگا دی گئی، جی ڈی پی کا 15 فی صد تعلیم پر خرچنے کا ابتدائی نتیجہ یہ نکلا کہ اسکولوں سے باہر دو کروڑ ساٹھ لاکھ بچوں میں سے آدھے بچے اسکولوں میں داخل ہو گئے، اور توقع یہ ہے کہ 2026ء میں باقی آدھے بچے بھی اسکولوں کی رونق بن جائیں گے۔سارے ملک میں ٹیچرز ہائوسنگ اتھارٹیز (THA)کا قیام عمل میں لایا گیا، ایک درجن اساتذہ کو مختلف ممالک میں سفیر تعینات کیا گیا۔ اس سال دو حاضر سروس اساتذہ کو واپڈا اور نادرا کا سربراہ بھی مقرر کیا گیا۔گزشتہ سال دو کروڑ لوگوں کو غربت کی لکیر سے اوپر کھینچ لیا گیا۔گزشتہ سال بیش تر جبری گمشدہ افراد خراماں خراماں اپنے گھروں کو لوٹ آئے، علی وزیر اور جنید حفیظ کو بھی باعزت بری کر دیاگیا۔ عمران خان اور ان کے ساتھیوں کی رہائی بھی 2025ء کی اہم خبرقرار پائی۔‘‘

کچھ اس نوع کی خبریں آئیں تو پچھلے سال کے اہم واقعات کا احاطہ بھی کیا جائے، منجمد منظر کی آخر کتنی تصویریں اتاری جا سکتی ہیں، وہی گیند، وہی بِنگو، وہی کھیل...آخر کب تک؟

تازہ ترین