وائے بدنصیبی، پاکستان کا دائروں کا سفر ختم نہیں ہوا۔ نظام بد کے جس دائرے میں پاکستان کی گاڑی کو 1973ءمیں ملک کے حامل آئین ہونے کے بعد بھی سول فسطائیت، غیر آئینی و لاقانونیت، سول آمیزش کے مارشل لائی رجیم اور عوام و خواص کے لئے دو قانونیت کے جس ایندھن سے چلایا جا رہا ہے اس کا شاخسانہ ’’آج کا پاکستان‘‘ ہے۔جسے کچھ نہ کچھ جمہوری بقا عوام کے دال دلیے کو جاری رکھنے اور عوام کو پہلے دکھی حالات والی ہی پوزیشن پر لانے کے لئے بیرونی حکومتوں اور سرمایہ کاروں پر ہی انحصار اور توقعات بڑھ رہی ہیں۔ ہم اپنے وسائل، اپنے اداروں، اپنی جماعتوں اور سب سے بڑھ کر اپنے رہبروں و رہنمائوں پر بھی انحصار نہیں کر پا رہے کہ وہ ہمیں حامل آئین ہوتے بھی اس دائرے کے سفر سے نکالنے کی کوئی راہ نکالیں، جس کی راہیں، شاہرائیں اب گڑھوں، رکاوٹوں اور پتھروں و ٹھوکروں سے اٹی پڑی ہیں۔ جو کوئی لٹ پٹ کر بھاری بھر مقروض ہو کر جان جوکھوں میں ڈال کر ’’انٹرسٹنگ ٹائم‘‘ کے وطن سے باہر نکلنے میں تو کامیاب ہو جاتے ہیں وہ یورپ میں آباد کاری کی حسرتیں دبائے بحیرہ روم کے ساحل پر اترتے ہی سمندروں میں گم ہو جاتے ہیں۔
کوئی حکومت انہیں سمندروں میں گم کرنے والوں پر ہاتھ نہیں ڈال سکی۔ اتنے ہی ناکام جتنے پاکستانی نظام بد کے علمبرداروں کا اپنے ووٹ سے کچھ نہ بگاڑ سکے۔ ملکی پاسپورٹ کے ساتھ جو سلوک اب برادر ملکوں میں بھی ہونے لگا ہے اس پر بڑے بڑے تعلیم یافتہ پاکستانی پروفیشنلز بھی پریشان ہوگئے ہیں۔ بنگلہ دیش نے اپنے آسان ویزوں سے حوصلہ دیا ہے اس کا شکریہ۔ پاکستان کا سب سے بڑا عوامی لیڈر سینکڑوں درج مقدمات میں بے چین، مفلوک مقہور عوام سے کٹا ڈیڑھ سال سے اسیر اڈیالہ تو دوسرا بڑا رہبرو رہنما، دائرے کے سفر سے گھبرا کر پھر لندنی ہوگیا ۔ تیسرے پاکستان کی دوسری سربراہی میں بھی پاکستان کے سفر کی سمت درست کرنے میں کوئی کردار ادا کرنے کی بجائے، صاحبزادے کے وزارت عظمیٰ میں نصف شرکت بمطابق سیاسی و عدے وعید پورا ہونے کے منتظر اور کوشاں ہیں کہ ان پر عمل ہو۔ پنجاب سے خادم پاکستان ہوئے، وزیر اعظم پھر ترقی و روشن مستقبل کے خواب بن رہے اور دکھا رہے ہیں۔ جیسے کبھی انہوں نے کمال احتسابی جذبے سے لٹے مال کو واپس لا کر عوام پر نچھاور کرنے کے خواب دکھائے تھے، اور طائر لاہوتی کی بلند و بانگ پرواز کے بیانیے کو بھول بھال کر ’’پروموشن‘‘ سے خادم اعلیٰ سے خادم اعظم ہوئے تو بیانیہ پاکستان کے بے بس بھکاری ہونے کا گھڑ لیا اور بزرگ ساتھی وینٹی لیٹر کی باتیں کرتے فارم 47پر پھر اقتدار میں آئے۔ الیکشن (بحران کے واحد حل) کے بعد بھی بڑے دھڑلے سے حکومت میں ہی رہے۔ گویا کشکول و وینٹی لیٹر کے ساتھ ہی انہوںنے بڑی ہمت و جرأت سے سربازار مانگ تانگ کر گزارہ کیا اور کر رہے ہیں، ایک بار پھر پاکستانی منجمد خزانوں کی آشکاری کے لئے بیرونی معاہدوں کی پریشان کن شرائط سرمایہ کاری کی گفت و شنید محافل میں عام ہو رہی ہیں تو آئی پی پیز کی تباہ کاریاں وسوسوں سے گھیرا ڈال رہی ہیں۔
اور یہ جو عوامی مینڈیٹ کی بجائے کسی آئی پی پیز معاہدے کی طرز کے سیاسی مفاہمتی معاہدے کے نتیجے میں ڈھائی ڈھائی سال کی وزارت عظمیٰ بذریعہ روٹیشن سسٹم باتیں خبروں میں آ رہی ہیں اور پی پی اور چیئرمین بلاول کے بیان و تیور بھی تصدیق کر رہے ہیں یہ تو ملک میں سیاسی و آئینی عمل کو محبوس کرکے آئینی طریق کے مقابل تباہ کن جگاڑ نہیں۔ کہاں وزارت عظمیٰ کیلئے دو جماعتی منافقانہ مفاہمت سے اس مکمل انتظامی سربراہ تو باہمی متفقہ روٹیشن سسٹم سے چلانے کا کھلواڑ۔
کتنے تجربات کرنے ہیں پاکستان کو اپنے ڈھب پر چلانے کے لئے۔ نہ بھولا جائے کہ آئین کے علانیہ اطلاق کو 51سال بیت گئے لیکن جس بھٹو سول دور میں نافذ ہوااس کی پوری آئینی مدت میں ملک میں ایمرجنسی ہی نافذ رہی اور اپوزیشن کو انصاف کی رہنمائی کے لئے ریٹائرڈ سیشن ججز کےا سپیشل ٹربیونل ہی کام کرتے رہے اور عوام اپنے بنیادی حقوق سے محروم رہے یا اس کے خلاف، بحالی جمہوریت کے لئے مزاحمت میں مصرو ف عمل۔ الیکشن ہوا تو ملک گیر سطح پر دھاندلی زدہ۔ پھر جس طرح مرضی کے نتائج سے حکومتیں بنائی گئیں، وہ عوام کو ہضم نہ ہوئیں اور اپوزیشن تحریک کے بے قابو ہونے پر پیشکش ہوئی نشستوں کوقبول کرنے پر آمادہ نہ ہوئی تو اقتدار میں رہنے کی ضد نے مذاکرات کا ڈول پڑنے پر بھی مارشل لا کی ہی راہ ہموار کردی تھی۔
اب مذاکرات کا ڈول بڑے جتن سے ڈالا گیا ہے۔ سانحہ اسلام آباد نے اس ان ہونی کو ہونی بنا ہی دیا ہے کہ اب ایک پورا ہی فنی سیاسی بریگیڈ روٹیشن سسٹم بمقابلہ آئینی طریق میں ، آخر الذکر سے ’’وطن کی خاطر‘‘ دستبردار ہونے کا درس دینے میں لگ گیا ہے۔ اس میں وہ سیاسی وکلا و صحافی شامل ہیں جنہوں نے بگڑے آئین کا حلیہ درست کرانے میں مرضی کی درستی کرانے کا مشن مکمل کیا اور ایسے کیا کہ اب ان ہی حلقوںسے دبی دبی گفتگو باہر آ رہی ہے کہ یہ تو صوبوں کو زیادہ ہی خودسر کردیا، جوملک گیر ترقیاتی پروگراموں میں بھی رکاوٹ ہیں، حتیٰ کہ تقسیم آب کے نئے منصوبوں میں بھی۔ خدا را کسی ایک مکمل دور میں تو آئین کا پورا نفاذ اور حکومتی ٹرم مکمل ہونے کا تجربہ بھی مکمل ہونے دیں۔ اور یہ جو عوام کو عملی سیاست سے یکسر کاٹ کر رکھ دیا ہے کیا اس کے بغیر بحران کے خاتمے کے اولین اہداف مطلوب سیاسی و معاشی استحکام کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے گا یہ عملی سیاست کے آئینی فریم سے باہر کی بات ہے۔
وہی سیاسی جماعتوں کا اپنا گھڑا اور ریاستی اداروں کی سہولت کاری سے تراشا فریم اور اس کےمطابق تشکیل حکومت کی مہم جوئی۔ یہ سب کچھ کامیاب گورننس اور حکمرانی کے جدید علوم کے بنیادی تقاضوں سے متصادم ہے اور یہ تصادم پہلے ہی عوام و حکام میں اتنی بڑی خلیج پیدا کر چکا ہے کہ اس بدنظمی و انتشار و ہیجان کے سمندر کاگمان واضح ہے۔فقط ایک راہ ہے کہ علم کی مدد سے بحران پر قابو پانے کی راہ اختیار کی جائےاس کی عملی شکل کیا ہو؟ ۔ باقی آئندہ اشاعت میں۔(جاری ہے)