پاکستان کے سعودی عرب اور امارات کے ساتھ تعلقات ہمیشہ سے بہت اہم اور قریبی رہے ہیں ،گزشتہ روز امارتی صدر اور پاکستانی وزیر اعظم کے درمیان بے تکلفی کے لمحات پوری دنیا نے دیکھے ،یہ تعلق صرف 2افراد تک محدود نہیں بلکہ 2قوموں کے درمیان ہے اور ماضی سے لمحہ موجود تک دونوں ملک ہمیشہ ایک دوسرے کے شانہ بشانہ رہے ہیں ۔پاکستان ان دوست ممالک کے تعاون سے ہی ایک بڑے معاشی بحران سے گزرنے کے بعد اب سنبھلنے کے مراحل میں ہے ۔اس وقت بھی ہماری امیدوں کا مرکز خطہ عرب ہے ،جس میں امارات کی اہمیت نمایاں ہے ۔پاکستان نے ایس آئی ایف کے ذریعے خلیجی ممالک بالخصوص متحدہ عرب امارات پر سرمایہ کاری کے دروازے کھول دئیے ہیں اور انہیں زراعت ،کان کنی،توانائی اور انفراسٹرکچر جیسے اہم شعبوں میں آنے کی پیشکش کی جا رہی ہے ،جس میں امارتی صدر نے بھی دلچسپی ظاہر کی ہے ۔خوش آئندامر یہ ہے کہ عرب دوستوں کی جانب سے پاکستان کو ہمیشہ مثبت جواب دیا گیا ہے ، وزیر اعظم شہباز شریف کے پہلے دورہ امارات کے دوران 10ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا وعدہ کیا گیا اور اب ایک بار پھر اس کا اعادہ کیا گیا ہے ۔المیہ البتہ یہ ہے کہ پاکستان اپنے دوستوں کو دعوت دے رہا ہے ،لیکن سرمایہ کاری کیلئے درکار ماحول میں عالمی معیار کی نمایاں بہتری لانے میں ناکام ہے ۔مئی 2024میں ایک سعودی وفد نے مجوزہ سرمایہ کاری کا جائزہ لینے کیلئے پاکستان کا دورہ کیا لیکن بات اس سے آگے نہ بڑھ سکی،اکتوبر میں بھی ایک غیر معمولی بڑا وفد پاکستان آیا لیکن سرمایہ نہیں آسکا ،وجہ صرف یہ ہے کہ ہمارا ہوم ورک مکمل نہیں تھا۔سعودی اور اماراتی دونوں ہی اچھی ساخت اور اعلیٰ پیداوار والی سرمایہ کاری کی تلاش میں ہیں ۔انہیں یہ پوٹینشل پاکستان میں دکھائی بھی دے رہا ہے،لیکن بدقسمتی سے ہم مطلوبہ اصلاحات کے بجائے صرف تاریخی تعلقات کے سہارے منصوبے چلانے کی کوشش میں ہیں جو قابل قبول نہیں ۔عالمی برادری میں سفارتی مجبوریوں کی وجہ سے ممالک ایک دوسرے کو کمی کوتاہی سے آگاہ نہیں کیا کرتے صرف اشارہ دینے پر اکتفاکیا جاتا ہے،لیکن سعودی حکومت ہمیں چندماہ قبل پوری وضاحت کے ساتھ کہہ چکی کہ ہم اپنے لوگوں پر ٹیکس لگارہے ہیں ،دوسروں سے بھی توقع کر رہے ہیں کہ وہ اپنی کوششیں کریں۔ہم مدد کرنا چاہتے ہیں لیکن چاہتے ہیں کہ آپ بھی اپنا کردار ادا کریں ۔ یہ صرف سعودی عرب نہیں بلکہ امارات سمیت تمام عرب اور دوست ممالک کے سرمایہ کاروں کی خواہش ہے ،انہوں نے پاکستان کے مالیاتی نظام میں ساختی مسائل اور عدم اعتماد کی نشاندہی کی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ امارات بھی ہمیشہ سرمایہ کاری کا عندیہ دیتا ہے ، عمل درآمد ممکن نہیں ہو پارہا تو اس کی واحد وجہ ہمارا رویہ اور سرمایہ کاری اور مالیاتی بندوبست میں اصلاحات سے گریز ہے ۔ پاکستان اپنے جاری مالی بحران کو کم کرنے کیلئے عرب سرمایہ کاری کا خواہاں ہے ،لیکن صرف زبانی جمع خرچ اور تعریفوں سے یہ کام ممکن نہیں ہوسکتا ،اس کیلئے پاکستان کی سرمایہ کاری کے ماحول میں انقلابی تبدیلیاں لاناہوں گی،کم از کم وہ جن پر گزشتہ سال نومبر میں خلیج تعاون کونسل کے پلیٹ فارم پر پاکستان اتفاق کرچکا ہے ۔پاکستان کو بین الاقوامی معیارات پر پورا اترنے کیلئے سرمایہ کاری کے موقع کی پیشکش کو بہتر بنانا چاہئے۔ اگر ہم اصلاحات کا ایجنڈا نافذ کرنے میں کامیاب رہتے ہیں تو امارات اور دیگر عرب ممالک کے ساتھ ہمارے تاریخی تعلقات روشن مستقبل کی نوید بن سکتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ متحدہ عرب امارات نے مشکل حالات میں کئی بار پاکستان کی مدد کی ہے ۔پاکستان اور امارات کے باہمی تعلقات اتنے مضبوط اور مستحکم ہیں کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ معاملات طے کرتے ہوئے بھی ہم جن ممالک کا سہارا لیتے ہیں متحدہ عرب امارات ان میں سے ایک ہے۔ اماراتی قیادت کی جانب سے اس سے پہلے بھی پاکستان میں سرمایہ کاری کے حوالے سے رضامندی کا اظہار کیا جاچکا ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ ہم نے اپنے ہاں موجود ان مسائل پر قابو پالیا ہے یا کہ نہیں جو بیرونی سرمایہ کاری کے راستے میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک اہم مسئلہ تو سکیورٹی کا ہے جس کی وجہ سے بیرونی سرمایہ کار پاکستان کا رخ نہیں کرتے کیونکہ انہیں ایسا لگتا ہے کہ پاکستان غیر محفوظ ہے۔ یہ درست ہے کہ اس مسئلے پر قابو پانے کیلئے ہماری سکیورٹی فورسز دن رات کوشش کررہی ہیں اور قربانیاں بھی دے رہی ہیں ۔دوسری جانب متحدہ عرب امارات نے محنت کشوں کو ویزے دینے بند کر دئیے ہیں ۔میری گورنمنٹ سے در خواست ہے کہ وہ یو اے ای حکومت سے فوری بات کرے اور اس مسئلے کو حل کرے تاکہ محنت کشوں کو روزگار مل سکے۔
دوسری جانب چھوٹی صنعتوں کی ترقی کیلئے بین الاقوامی ماہرین کی خدمات حاصل کرنے کے عمل کا آغاز کردیا گیا ہے ،سمیڈا بورڈ کی تشکیل ،بورڈ آف ڈائریکٹرز کے اجلاس کا باقاعدگی سے انعقاد اور اسٹیئرنگ کمیٹی میں گلگت بلتستان اور کشمیر کے چیف سیکر ٹریز شامل کر دئیے گئے ہیں ۔چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباروں کے فروغ اور اسمال اینڈ میڈیم انٹر پرائزز ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سمیڈا)کے اجلاس میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے بینکوں کو ہدایات دی گئی ہیں کہ ایس ایم ایز کو قرض کی فراہمی کے حوالے سے بینک فارمز کو مزید آسان اور سہل بنایا جائے ۔وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستانی صنعتوں کو گلوبل سپلائی چین کا حصہ بنانے کے حوالے سے بھر پور اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے ،چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں ،حکومت انہیں سہولیات فراہم کرنے کے حوالے سے ہر ممکن اقدامات اٹھارہی ہے ،ایس ایم ایز کی ترقی کے حوالے سے وفاق اور تمام صوبوں کو مل کر کام کرنا ہوگا۔