• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قنوطیت بہت ہوگئی فکر مند ہو کے بھی دیکھ لیا، کڑھنے کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا، تنقید بھی کرلی، تعریف کا سہارا بھی لے لیا، طعنے بھی دیئے، غصے میں بات کی، پیار سے ہاتھ جوڑے کوئی فرق نہیں پڑا، نہ یہ مانتے ہیں نہ وہ مانتا ہے۔ آج خیال آیا کہ ارد گرد کو عمر خیام کی نظروں سے بھی دیکھنا چاہئے۔ ہمارے عمر خیام ثانی جناب ایاز امیر صاحب ہمیں رومانس، شاعری اور خوبصورت موسموں ، پھولوں اور رقص و خوبصورتی کے تحریری تصورات سے بہلا دیا کرتے تھے مگر وہ بھی سیاست کی عینک لگا کر حسن و عشق اور سرور و مستی سے نکل چکے ہیں۔ عمر خیام کی عینک لگائیں تو ایک نئی دنیا نظر آتی ہے ان دنوں لاہور میں اودے اودے، نیلے نیلے اور پیلے پھولوں کی بہار ہے چند دن پہلے صوفی فیسٹیول تھا آج کل THINKFESTہو رہا ہے رات کو نہر کنارے سے لے کر بڑی سڑک پر رنگ برنگے قمقمےجلتے ہیں سردی اور بارش نے خوشگوار ماحول ترتیب دے رکھا ہے مگر ان رنگا رنگیوںمیں ایک شخص خاموشی سے ہر روز کوئی نہ کوئی ایک نیا اضافہ کر رہا ہے کبھی تو وہ دھندلکوں میں چھپی کسی تاریخی عمارت کو سامنے لے آتا ہے کبھی شاہی قلعے کی گنی چنی دو چار چیزوں کے علاوہ ایک نیا جہان معنی آباد کردیتا ہے، قلعے کے اندر معدوم اور ڈوبی ہوئی عمارتیں ایسے ابھر رہی ہیں جیسے وہی پرانا زمانہ لوٹ آیا ہے چوبدار اور محافظ ہٹو بچو کی آوازیں لگا رہے ہیں وہی قلعہ جو اداسی کا منظر پیش کرتا تھا آج کل وہاں ٹھٹھ کےٹھٹھ لگے ہیں۔ شالیمار باغ بھی نئی انگڑائی لے رہا ہے حالانکہ وہ جدید لاہور کی فہرست سے فارغ ہو رہا تھا۔ مادھولال حسین کا میلہ بھی اس سال اسی شخص نے اپنے ذمے لے لیا ہے جو لاہور اور پنجاب کے ہر تاریخی ہیرے کو تراش رہا ہے۔ پنجاب کے ہیرو بھگت سنگھ کی گیلری بھی قائم ہوچکی۔ کوئی ماہ ایسا نہیں گزرتا کہ گرد میں اٹی مٹی میں دبی ہوئی کوئی نہ کوئی تاریخی حویلی یا عمارت دوبارہ سے زندہ نہ ہوتی ہو، پرانے لاہور کی کوئی حویلی کوئی گلی ایسی نہیں جو اس کی نظرمیں نہ ہو۔ کچھ حویلیاں نئی زندگی پا چکیںکچھ انتظار میں ہیں کہ کب کوئی ان کی زلفیں سنوارے گا۔

پہلے اس نے شاہی قلعہ کی دیواروں پر کندہ مٹتی تصویروں کو بحال کیا دنیا کی سب سے بڑی یہ پکچر وال جو صدیوں پہلے تعمیر کی گئی اب دوبارہ سے دیکھی جاسکتی ہے۔ رنگیلے رکشے اور کارٹس کے ذریعے قلعے کے ہر کونے کھدرے میں جایا جاسکتا ہےپھر اس نے مطبغ کو ڈھونڈ نکالا جو منہدم ہو چکا تھا کبھی یہاں سے کھانوں کی مہک اور لکڑیوں کا دھواں اٹھتا ہوگا اب امتداد زمانہ نے وہاں کی راکھ کو بھی خاک بنا دیا تھا۔ پھر قلعے کے ہر کونے کھدرے سے نئے نئے آثار برآمد ہونے لگے۔ حویلی کھڑک سنگھ سے لیکر تہہ خانوں اور بالاخانوں کی ازسر نو بحالی اور تزئین ہو چکی ہے۔ اگر پرانے لاہور کی حویلیاں دیکھنی ہیں تو اس کا الگ انتظام ہے پہلے تو سرائے سلطان کے علاوہ کوئی حویلی بحال نہیں ہوئی تھی اب نونہال سنگھ کی حویلی، نوری حویلی اور کئی ایک حویلیاں دوبارہ سے زندہ ہو چکی ہیں اگر آپ لاہور کے ہندو آثار اور مندر دیکھنا چاہتے ہیں تو یاترا کا انتظام ہے، دو قدیم مندر یاد دلاتے ہیں کہ کبھی لاہور میں ہندو، سکھ،پارسی اور مسلمان سب اکٹھے مل جل کر رہا کرتے تھے۔

لاہور کے دو تہوار صدیوں سے مشہور تھے بسنت اور میلہ چراغاں۔ بسنت میں دھاتی ڈور اور کیمیکل تاروں نے اتنی اموات کو جنم دیا ہے کہ حکومت بسنت کی بحالی کے خواب ہی کو ترک کر چکی ہے حالانکہ اندرون شہر ایک دن موٹر سائیکلوں پرپابندی لگا کر بسنت کو باآسانی کیا جاسکتا ہے اگر حکومت چاہے تو صرف اندرون لاہور کے علاقے میں ایک دن کے لئے حفاظًتی اقدامات کرکے بسنت کا اہتمام کرسکتی ہے۔ مغل اور سکھ دونوں اپنے ادوار میں بڑے اہتمام سے بسنت منایا کرتے تھے۔ تاریخی کتابوں میں اس تہوار کو منانے کا احوال پڑھ کر ہی دل نہال ہو جاتا ہے ۔ مشرف دور میں جب لاہور میں بسنت منائی جارہی تھی تو بیرونی دنیا سے اس قدر مہمان آیا کرتے تھے کہ ہوٹلوں میں کمروں کا کرایہ لاکھوں تک پہنچ جاتا تھا۔ اب تو یہ سب خواب لگتا ہے، کاش پرامن بسنت کا کوئی حل نکالا جائے وہ شخص جو لاہور کو زندہ اور بحال کر رہا ہے اسے ہی یہ کام بھی کرنا چاہیے۔ دوسرا تہوار میلہ چراغاں کا ہوتا تھا یہ میلہ تو اب بھی ہوتا ہے لیکن اس کے پرانے رنگ ڈھنگ بدلے جا چکے ہیں ضرورت ہے کہ تاریخ میںجس طرح چراغاں کرکے اس میلے کو منایا جاتا تھا اس کے وہی پرانے رنگ و آہنگ بحال کئے جائیں۔ ملامتی صوفی شاعر شاہ حسین کے لاہور میں آثار بکھرے پڑے ہیں ان کو محفوظ کیا جائے اور اس کی شاعری اور فن پر میلےکے دوران سیمینار کروائے جائیں کلام پڑھنے کا بندوبست ہو اور اس کلام کی عوامی تشریح کی جائے۔ث شاہ کے ذکر کےبغیر مکمل نہیں، جنڈیالہ شیر خان شیخوپورہ میں دفن وارث شاہ کے دربار کو پنجابی شاعری اور پنجابی کلچر کا مرکز بننا چاہیے، شاہ حسین اور وارث شاہ کے درباروں کا طرز تعمیر بھی ان کے شان شایان نہیں نہ ہی ان درباروں کا ماحول پنجاب کی تہذیب کی عکاسی کرتا ہے، سکھ دور کی کئی یاد گاریں تو محفوظ ہیں مگر بہت سی چیزیں محفوظ کرنے کی ضرورت ہے۔ کٹاس راج میں ہندو مندر کو تو بحال کیا گیا ہے ساتھ ہی واقع بدھ آثار پر بھی توجہ کی ضرورت ہے۔

ہڑپہ کو وادیٔ سندھ کی تہذیب میں مرکزی حیثیت حاصل ہے ہڑپہ کی نیل دنیا بھر میں برآمد کی جاتی تھی ہڑپہ کی نیل پری اور تین پتی کی ڈھاک بوٹی دنیا بھر کے آثار قدیمہ کے ماہرین میں آج بھی زیر بحث ہیں۔ موہنجو دڑو کے Priest King جس کا ترجمہ میں نے ’’سائیں سندھو‘‘ کر رکھا ہے اور Dancing Girl’’سمبارا‘‘ عالمی شہرت یافتہ اہمیت کے حامل شاہکار ہیں۔ ہڑپہ سے ایسی کوئی شبیہ دریافت نہیں ہوئی لیکن ہڑپہ کی تہذیب پر آنے والے دنوں میں بہت کچھ سامنے آنے والا ہے۔ بھارت میں مقیم سکاٹش محقق اور مصنف ولیم ڈارمپل کی نئی کتاب ’’دی گولڈن روڈ‘‘ میں تصدیق کی گئی ہے کہ ہڑپہ سے لے کر ملتان تک کے علاقے کو ’’ملوہہ‘‘ کہا جاتا تھا اور ملوہہ کی مصنوعات میسی پوٹومیا یعنی عراق تک پہنچتی تھیں اس علاقے سے ایک نیا شہر بھی دریافت ہوا ہے جہاں ملوہہ سے گئے ہوئے لوگ رہتے تھے اور وہیں سے نیل رنگا کپڑا بھی ملا ہے۔ پاکستان کے اس قدیمی خزانے پر بھی توجہ کی ضرورت ہے۔

لاہور اور پنجاب کے قدیمی آثار کی بحالی، تاریخی عمارتوں کی تزئین و آرائش اور نت نئے آئیڈیاز کے ذریعے جس ایک شخص نے سب کچھ بدلا ہے وہ کامران لاشاری ہے اسلئے آج کا لہور، لاہور نہیں بلکہ کامران کا لاہور، کامران لاہور ہے اور اگر اس شخص کو موقع ملا تو یہ پنج آب کو بھی کامران پنجاب بنا دے گا۔ ایک فقیر بے نوا، اپنے پسندیدہ شخص کو نہ تو ہیرے جواہر دے سکتا ہے اور نہ کوئی اعزاز البتہ لفظوں کا خراج تحسین ہی پیش کرسکتا ہے سو آج وہی قرض ہے جو یہ فقیر اتارنے کی ناکام کوشش کر رہا ہے۔ کامران لاشاری کا جذبہ سلامت رہے، لاہور اور پنجاب کامران ہوتا رہے۔

تازہ ترین