• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلام آباد میں اپنی نوعیت کی پہلی دوروزہ تاریخی مسلم ورلڈ کانفرنس کے 17نکاتی اعلامیہ میں لڑکیوں کی تعلیم کو ان کا بنیادی شرعی حق تسلیم کرتے ہوئے اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کو امت مسلمہ کے دائرہ فکر سے خارج قرار دیا گیا ہےاور اسلامی ممالک کی حکومتوں سے کہا گیا ہے کہ وہ تعلیم نسواں کو قومی ترجیحات میں شامل کریںاور ان کی تعلیم اورتربیت کیلئے اپنے بجٹ میں اضافہ کریں۔اعلامیہ میں لڑکیوں کی تعلیم کے فروغ اور تحفظ کے مواقع کی حمایت کرتے ہوئےاس سلسلے میں حائل اجتماعی رکاوٹوں کا موثر حل تلاش کرنے اور وسائل بروئے کار لانے پر زور دیا گیااور کہا گیا کہ لڑکیوں کی تعلیم مذہبی فریضہ ہی نہیں ،اہم معاشرتی ضرورت اور لازمی حق ہے،جسے قانونی، آئینی اور شرعی تحفظ حاصل ہے۔لڑکیوں کی تعلیم کے اسلامی تہذیب کے مطابق فروغ اور غلط فہمیوں کے ازالےکے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے یہ بھی کہا گیا کہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں تعلیمی عمل کو منظم کیا جائےتاکہ مسلم شناخت اور اقدار کو تحفظ حاصل ہواور قومی اور علمی سطح پر تعلیم اور تربیت کے معیار کو بلند کرنے میں مدد دینے والے تجربات سے استفادہ کیا جاسکے۔غربت،تنازعات اور سماجی چیلنجز سے متاثرہ لڑکیوں کیلئے تعلیمی مواقع فراہم کرنے کی غرض سے مفت تعلیم اور اسکالر شپس دینے کے علاوہ اسلامی فقہی اداروں کے فیصلوں اورعلما کے فتاویٰ پر توجہ دینے کی سفارش کی گئی جو خواتین کی تعلیم کے شرعی حق کو تسلیم کرتے ہیں ۔کانفرنس کے تفصیلی اور جامع اعلامیہ نے لڑکیوں کی تعلیم کے مخالفین کے نظریات کو رد کردیا ہے،جس سے کسی بھی ملک کی نصف یا بعض صورتوں میں نصف سے بھی زائد آبادی کو عضو معطل بنادیا جاتا ہے۔کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے لڑکیوں کی تعلیم کی علمبردار نوبل انعام یافتہ پاکستانی لڑکی ملالہ یوسف زئی نے اپنی فکرانگیز تقریر میں بتایا کہ دنیا بھر میں 12کروڑ جبکہ پاکستان میں سوا کروڑ لڑکیاں اسکول نہیں جارہیں۔اس لحاظ سے پاکستان لڑکیوں کو تعلیم سے محروم رکھنے والا سب سے بڑا ملک ہے،جو انتہائی افسوسناک ہے۔انہوں نے افغانستان میں لڑکیوں کے تعلیم حاصل کرنے پر پابندی کی مذمت کی اور کہا کہ طالبان خواتین کو انسان ہی نہیں سمجھتے ،انہوں نے ایک دہائی سے خواتین کو تعلیم سے محروم کررکھا ہے۔ان کی یہ پالیسی سراسر اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔دنیا کو چاہئے کہ طالبان حکومت کو قانونی حیثیت نہ دی جائے۔ملالہ نے اسرائیل کو بھی ہدف تنقید بنایا اور کہا کہ اس نے فلسطین میں پورا نظام تعلیم تباہ کرکے رکھ دیا ہےاور 90فیصد یونیورسٹیوں کا وجود صفحہ ہستی سے مٹادیا ہے۔طالبان بھی خواتین کے حقوق پامال کررہے ہیں۔اس مقصد کیلئے انہوں نے سو سے زائد قوانین نافذ کیے ہیں ۔سیکھنا ہماری اسلامی تعلیمات کا جزو ہے اور معیشت کی بہتری میں بھی خواتین کا اتنا ہی کردار ہے ،جتنا مردوں کا۔مسلم ورلڈ لیگ کے سیکرٹری جنرل شیخ محمد بن عبدالکریم نے کہا کہ یہ کانفرنس محض رسمی نوعیت کی نہیں ،اس کے اثرات دنیا بھر میں نظرآنے چاہئیں۔چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی کا کہنا تھا کہ تعلیم استحقاق ہی نہیں ،لڑکیوں کا بنیادی حق ہے۔وفاقی وزیر خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا کہ پڑھی لکھی خواتین خاندان کی بہتر انداز میں پرورش کرسکتی ہیں۔تعلیم نسواں پر عالم اسلام کی نمائندہ کانفرنس وقت کا ناگزیر تقاضا تھی ،جسے پورا کیا گیا۔یہ بات خوش آئند ہے کہ پاکستان میں تعلیم نسواں کا شعور فروغ پارہا ہے ۔اس عمل کو تیز اور پائیدار بنانے کی ضرورت ہے ،اسی سے عالمی کانفرنس کا مقصد حاصل ہوسکتا ہے۔کروڑوں کی تعداد میں خواتین کو گھروں تک محدود رکھنا اور قومی زندگی میں ان کے کردار سے فائدہ نہ اٹھانا معاشی یا معاشرتی کسی بھی لحاظ سے ملک کے مفاد میں نہیں۔

تازہ ترین