• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’تمہارے دشمن کا دشمن تمہارا دوست ہے، اور تمہارے دوست کا دشمن تمہارا دشمن ہے‘‘۔ اس مفہوم کے درجنوں اقوال سننے میں آتے ہیں، ارتھ شاستر سے میکاولی کی ’’پرنس‘‘ تک میں یہ جملہ کچھ ردوبدل سے موجود ہے۔ تاریخ پر نظر دوڑائیں تو اس اصول کا اطلاق جا بہ جا نظر آتا ہے۔ دوسری جنگِ عظیم سے صرف ایک مثال دیکھیے، یہ جو سٹالن سے امریکا اور برطانیہ کی دوستی تھی اس کی واحد وجہ ہٹلر سے سٹالن کی دشمنی تھی، اس حوالے سے برطانوی وزیرِ اعظم ونسٹن چرچل کا ایک فقرہ بہت معروف ہے، جس دن ہٹلر نے روس پر چڑھائی کی تو چرچل نے اپنے سیکرٹری سے مبینہ طور پر کہا تھا کہ’’ اگر ہٹلر جہنم پر بھی حملہ آور ہو گا تو میں شیطان کے حق میں کم از کم ایک بیان ضرور دوں گا۔‘‘

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اس اصول کی کارفرمائی ہر موڑ پر دیکھی جا سکتی ہے، سیاست دانوں کی ایک طویل فہرست ہے جو اسٹیبلشمنٹ سے گہری دوستی رکھتے تھے اور اسٹیبلشمنٹ بھی ان پر ریجھی ہوئی تھی، دوسری طرف ان سیاست دانوںکے نام بھی ہم اچھی طرح جانتے ہیں جن کی مقتدرہ سے دو طرفہ دشمنی رہی۔ ان سب دوستیوں دشمنیوں کی بِنا ’’عشق‘‘ نہیں تھا، ایسا نہیں تھا کہ مقتدرہ کسی سیاست دان کے نین نقش و سراپا پر فریفتہ ہو گئی تھی یا کسی نظریاتی قربت کے باعث کسی سیاست دان کو گلے لگا لیا گیا تھا۔ان تمام دوستیوں اور دشمنیوں کی واحد وجہ مذکورہ اصول تھا یعنی ’’ آپ کے دشمن کا دشمن آپ کا دوست ہوتا ہے۔‘‘ نوے کی دہائی میں چار حکومتیں توڑی گئیں، دو مرتبہ بے نظیر بھٹو کی اور دو مرتبہ نواز شریف کی۔ یہ کھیل مقتدرہ اس وقت کی اپوزیشن کو ساتھ ملا کر حکومتِ وقت کے خلاف کھیلا کرتی تھی، یعنی ’دشمن‘ کے ’دشمن‘ کو ساتھ ملا کر۔ بے نظیر اور نواز شریف نے اس کھیل سے یہ سبق سیکھا کہ سیاست کو سیاست ہی رہنا چاہیے ’’دشمنی‘‘ نہیں بنانا چاہیے، ورنہ سیاست دانوں کی باہمی دشمنی سے فائدہ اٹھانے والے فضا میں منڈلانا شروع کر دیں گے۔ میثاقِ جمہوریت میںبنیادی نکتہ یہی طے کیا گیا تھا کہ ہم سیاسی ’’مخالفین‘‘ ہیں ’’دشمن‘‘ نہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی حکومتوں نے پانچ پانچ سال پورے کیے۔سیاست دانوں کے درمیان ’’دشمنی‘‘ ختم ہونے کے بعد ہی عمران خان کی سیاسی ولادتِ با ارادت کو ضروری سمجھا گیا تھا۔بے شک عمران خان کے طرزِ سیاست و حکم رانی نے سیاست میں ’’دشمنی‘‘ کا احیا کیا، اور سیاست دانوں کے درمیان دوبارہ دشمنی کا رشتہ قائم ہوا تو اس کے ساتھ ہی وہ اصول بھی لوٹ آیا کہ ’’آپ کے دشمن کا دشمن آپ کا دوست ہوتا ہے۔‘‘ اور یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ محبت اور جنگ کی طرح دشمنی میں بھی سب جائز ہو جایا کرتا ہے۔ موجودہ سیاسی منظر نامے کو سمجھنے کے لیے یہ پس منظر معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ یاد رکھیے، دشمنی کی سیاست میں جمہوریت کے اصول بالائے طاق رکھ دیے جاتے ہیں، کیوں کہ اصول کھیل کے فریقین پر یک ساں لاگو ہوتے ہیں، یہ ممکن نہیں ہوتا کہ قوائد و ضوابط فقط ایک فریق کے لیے ہوں۔ یا تو جمہوریت کے تمام سٹیک ہولڈرز ’’ووٹ کو عزت‘‘ دینے پر متفق ہوتے ہیں، یا تمام کو یہ اصول ترک کرنا پڑتا ہے۔

یہ درست ہے کہ سیاسی دشمنی کے اس کھیل کو حیاتِ نو عمران خان نے عطا کی ہے مگر باعثِ حیرت یہ ہے کہ انھیں یہ کھیل بھی کھیلنا نہیں آیا، وہ تاریخ کے اچھے طالبِ علم نہ بھی ہوں لیکن یہ تو ان کی ہڈ بیتی ہے کہ مقتدرہ اپنے سیاسی حلیفوں کے معاملے میں متلون مزاج واقع ہوئی ہے، حکومتوں کے ضمن میں اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگتا، اور سیاست دانوں کی ’’دشمنی‘‘ کی فضا میں نئے حلیف ڈھوندنا اتنا دشوار نہیں ہوا کرتا، لیکن اگر طاقت وروں کو نیا حلیف ہی میسر نہیں آئے گا تو انھیں موجودہ ’عقد‘ ہی صبر شکر کے ساتھ نبھانا پڑے گا۔ اتنی سادہ سی بات بھی عمران خان کو اب تک سمجھ نہیں آ سکی، بلکہ وہ روز بہ روز اپنے ہدف سے مزید دور ہوتے چلے جا رہے ہیں۔

ان کی حالیہ ٹوئیٹس ان کی سیاسی ’بصیرت‘ کی غماز ہیں جن میں ہر کوئی ان کا دشمن دکھائی دیتا ہے، وہ ہر کسی کو للکار رہے ہیں اور ہر کسی سے بہ یک وقت کشتی لڑنا چاہتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ سے رعایتوں کے طالب ہیں، طویل عرصہ تو یہ ضد کرتے رہے کہ بات کریں گے تو صرف فوج سے، لیکن دوسری طرف فوج کی اہانت کا کوئی موقع بھی ضائع نہیں کرتے، بلکہ فوج کو چڑانے کیلئے مسلسل سقوطِ ڈھاکا ، یحییٰ خان اور مجیب الرحمٰن کا ذکرِ خیر کرتے رہتے ہیں۔ دوسری طرف سیاست دانوں کے خلاف بھی محاذ ہر دم گرم رکھتے ہیں، اپنی حالیہ ٹوئٹ میں ایک دفعہ پھر انھوں نے مناسب سمجھا کہ نواز شریف کو کرپٹ قرار دیا جائے۔ یعنی بہ یک وقت فوج کو بھی گالی دیتے ہیں اور سیاست دانوں کو بھی۔ اپنی ٹوئٹ میں حکومت اور پی ٹی آئی کے مذاکرات ختم کرنے کا فیصلہ بھی سنا چکے ہیں۔ یہ ناقابلِ فہم سیاست ہے۔ عمران خان ہر ممکنہ دروازہ بند کر رہے ہیں جس سے ان کی جیل طویل تر ہوتی نظر آ رہی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ملک کے اندر اُن کی رہائی کے اسباب وجود میں آتے دکھائی نہیں دے رہے۔

اگر عمران خان اپنے سب دشمنوں پر ایک ہی وقت میں حملہ آور ہو ں گے تو ان کے سب کے سب دشمن متحد رہیں گے اور ایک دوسرے کا ہاتھ مضبوطی سے تھامے رکھیں گے۔ یہ بات سمجھنا آخر کتنا مشکل ہے؟

تازہ ترین