(گزشتہ سے پیوستہ)
کالم کےاس سلسلے کا بنیادی مقصد ان عوامل کی طرف توجہ دلانا ہے جن کو بدقسمتی سے یہاں کی یعنی سندھ کی سیاسی قوتیں سمجھ ہی نہ سکیں اور ’’شطرنج‘ ‘کے مہروں کی طرح استعمال ہوتی رہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا خاتمہ ایک مارشل لا کی صورت میں ہوا اور پھر دو سال میں ہی انکی پھانسی کے سیاسی اثرات صوبے میں بہت گہرے ہوئے مگر ان کی بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے بڑی دلیری اور بہادری سے اس کا مقابلہ کیا۔ بی بی کو اندازہ تھا کہ پچھلے چند سال میں لسانی سیاست نے روشن خیالی اور ترقی پسند سیاست کو کمزور کر دیا ہے۔ ایک طرف نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی کے بعد قوم پرست سیاست پروان چڑھی تو دوسری طرف جنرل ضیاء کی پالیسیوں اور ایران اور افغانستان کے بدلتے حالات نے پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔ اگر ہم محترمہ کی سیاست اور سائیں جی ایم سید اور الطاف حسین کے درمیان مختلف مواقع پر ہونے والی سیاسی حکمت عملی کا جائزہ لیں تو اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ یہاں پچھلے پچاس برسوں میں ہوا کیا۔
5 جولائی 1977کے مارشل لا کے بعد جماعت اسلامی کی طلبہ تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ کے ہی کچھ نوجوانوں نے جن میں سے بیشتر نے اسکول اور کالج کے دنوں میں جمعیت کیلئے کام کیا تھا اور بھٹو مخالف تحریک کا حصہ بھی رہے تھے ایک نئی طلبہ تنظیم کی بنیاد رکھی۔ آل پاکستان مہاجر اسٹوڈٹنس آرگنائزیشن (اے پی ایم ایس او) اس کا قیام مارشل لا کے صرف ایک سال بعد 1978میں جامعہ کراچی میں ہوا، اس وقت کے پمفلٹ دیکھیں اے پی ایم ایس او کے تو اندازہ ہوتا ہے کہ اس کا محور بھٹو صاحب کے دور میں بننے والی تعلیمی و داخلہ پالیسی تھی ۔دیکھتے ہی دیکھتے یہ تنظیم تعلیمی اداروں میں مقبول ہونا شروع ہو گئی اور اس کا سب سے زیادہ نقصان اسلامی جمعیت طلبہ کو ہوا کیونکہ جو سیاست جماعت اسلامی نے پی پی پی کے چار سال میں کی تھی یہ اس پس منظر میں ہوا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ایک طرف شہری سندھ میں پی پی پی مخالف سوچ نے مہاجر سیاست کو ایک نیا رخ دیا تو دوسری طرف سائیں جی ایم سید بھی بھٹو مخالف اس حد تک چلے گئے کہ 80ءکی دہائی میں جئے سندھ اور ایم کیو ایم میں ’پنجاب‘ مخالف اتحاد بن گیا۔ آخر جی ایم سید بھٹو مخالف کیوں ہوئے۔ اس کی ایک بڑی وجہ تو یہ نظر آتی ہے کہ بھٹو کی سیاست میں ایک طرف سندھی مڈل کلاس کو داخلہ اور نوکریوں کا راستہ کھول کر بنیادی مسئلہ حل کر دیا گیاتھا جس کے بعد بظاہر ’’سندھو دیش‘‘ کا نعرہ کمزور پڑ گیا تھا تو دوسری طرف انتخابی سیاست سے دور رہ کر جئے سندھ نے وہی غلطی کی جو بائیں بازو کےاردو بولنے والے سیاستدانوں نے کی۔ جب جی ایم سید اور الطاف حسین کے درمیان ’’اشتراک عمل‘‘ ہوا اور اصل ہدف پنجاب کی ’سیاسی اشرافیہ‘‘ بنی تو ایک ’’سازش‘‘ کے تحت اس اتحاد کو توڑا گیا اور ایک ایسے وقت میں جب ایم کیو ایم کا وفد جی ایم سید کی سالگرہ میں شرکت کرتا تھا اور جئے سندھ کے لوگ الطاف حسین کی سالگرہ میں شریک ہوتے تھے۔ حیدر بخش جتوئی چوک اور پھر 30ستمبر 1988میں حیدر آباد میں قتل عام اور ردعمل میں کراچی میں لاشیں گریں تو فاصلے بڑھ گئے۔ سائیں اور الطاف دونوں نے صورتحال کو سنبھالنے کی کوشش کی مگر وہ قوتیں حاوی ہو گئیں جو اس اتحاد کو توڑنا چاہتی تھیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ دونوں طرف بہت سے دانشوروں، ادیبوں اور صحافیوں نے کوشش کی کہ اس سازش کو بے نقاب کریں مگر منفی سیاست کے نتیجے میں کئی سو لاشیں گرنے سے معاملات خراب ہوتے چلے گئے اور پھر بے نظیر بھٹو کی عملی سیاست کا آغاز ہوا۔ اس بات کو ذہن میں رکھیے گا کہ 1986میں بے نظیر کی پاکستان آمد اور سہراب گوٹھ، حیدر بخش جتوئی چوک کا تنازع اور حیدر آباد میں دو سو افرادکے سر عام قتل اور ردعمل میں کراچی میں لسانی بنیادوں پر قتل نے بی بی کی سیاست اور صوبےکو عملی طور پر تقسیم کرنے میں کتنا اہم کردار ادا کیا، آنے والے واقعات سے سمجھنے میں آسانی ہو گی کہ سندھ کی نظریاتی سیاست کو ختم کرنے کیلئے کیا کھیل کھیلا گیا ایک طرف میرٹ کا قتل جس نے پوری سیاست اور سیاسی اشرافیہ کو کرپشن کی لعنت کی بھینٹ چڑھا دیا اور دوسری طرف صوبہ خاص طور پر کراچی میں لسانی، فرقہ پرستی نے شہر کا وہ تشخص کہ یہ اپوزیشن کا شہر ہے ختم کر دیا۔
بے نظیر بھٹو نے جلا وطنی ختم کر کے واپسی کا فیصلہ کیا تو 1986میں پی پی پی کی کراچی کی قیادت کو ایم کیو ایم کے قائدین سے رابطوں کا کہا، یہاں تک کہ استاد مسرور احسن جو اس وقت کراچی سینٹرل جیل میں قید تھے کو یہ پیغام دیا کہ ’’الطاف اور ان کے ساتھیوں کا خیال رکھا جائے‘‘۔ بقول مسرور یہ وہ وقت تھا جب الطاف ان سے کہا کرتے تھے کہ ایم کیو ایم میں ڈاکٹر عمران فاروق ہمارے رسول بخش پلیجو یعنی دانشور ہیں۔ 1987میں بلدیاتی الیکشن کا اعلان ہوا تو ایم کیو ایم نے پی پی پی کو جماعت کیخلاف انتخابی اتحاد کی پیشکش کی اس وقت ایم کیو ایم کی 90فیصد قیادت طلبہ پر مشتمل تھی۔ الطاف حسین نے 70کلفٹن ملاقات کیلئے پیغام بھیجا مگر درمیان میں پی پی پی کے بعض اردو بولنے والے کراچی کےاقربا نے ملاقات کو ٹال دیا جس کا نتیجہ خود پی پی پی کے خلاف گیا کیونکہ بلدیاتی الیکشن میں ایم کیو ایم کو ناقابل یقین کامیابی حاصل ہوئی کراچی، حیدرآباد، سکھر اور میر پور خاص میں۔ بے نظیر نے 70کلفٹن میں پارٹی کے ایک اجلاس میں کراچی کی پی پی پی کی قیادت پر مایوسی کا اظہا ر کیا اور یہاں تک کہا کہ آپ لوگوں نے ایم کیو ایم کی سیاسی قوت کا غلط اندازہ لگایا۔ اگست 1988ءمیں ایم کیو ایم کے ایک وفد نے چیئرمین عظیم احمد طارق کی قیادت میں بی بی سے 70کلفٹن میں ملاقات کی اور طے ہوا کہ دونوں جماعتیں اپنے اپنے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑیں گی اور بعد میں سیاسی اتحاد پر گفتگو جاری رہے گی۔ غور کریںتو شہری اور دیہی سندھ کے درمیان مسلسل اتحاد کی باتیں ہو رہی تھیں اور ایسے میں آخر وہ کونسی قوتیں تھیں جنہوں نے کبھی سہراب گوٹھ پر ، کبھی پکا قلعہ میں، کبھی علی گڑھ میں ،کبھی 30ستمبر1988ءمیں لاشیں گرا کر سندھ کو انتخابی میدان میں بھی ’’لسانی‘‘ طور پر تقسیم کر دیا۔
بات یہیں ختم ہو جاتی تو غنیمت تھا مگر ایسا نہیں ہوا۔ الیکشن ہوئے تو ایک طرف مرکز میں بی بی کو وفاق میں مشروط حکومت دی گئی، پنجاب میں شریفوں کو حکومت میں لایا گیا اور سندھ میں شہر ایم کیو ایم کے ہاتھ میں تھے مگر پی پی پی کے پاس دو تہائی اکثریت تھی۔ اس کےباوجود بی بی نے نہ صرف ایم کیو ایم کے قائد کو مبارک باد دی بلکہ مشترکہ حکمت عملی اور حکومت میں شمولیت کی دعوت دی۔کوئی ایک ہفتہ طویل مذاکرات دن رات ہوئے۔ ہم صحافی دوست رات رات بھر انتظار کر رہے ہوتے تھے۔ کئی بار بات چیت صبح 6بجے تک چلتی پھر دوپہر کو دوسرا اور شام کو تیسرا رائونڈ۔ دونوں طرف کے انتہا پسندوں نے غیر ضروری تاخیر کی۔ بی بی دوبارنائن زیروعزیز آباد گئیں جہاں ان کا شاندار استقبال ہوا۔ آخر میں ایک معاہدہ ہوگیا جس پر وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ اور چیئرمین ایم اکیو ایم عظیم احمد طارق نے دستخط کیے۔ (جاری ہے)