• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

حفیظ جالندری پبلک ریلیشن کے ایک قومی ادارے کے سربراہ بھی رہے۔ ان کے ماتحت صفِ اول کے ادیب تھے اور کہا جاتا ہے کہ حفیظ صاحب کا رویہ ان کے ساتھ ایک سخت گیر افسر کاتھا۔ وہ اور تو کچھ کر نہیں سکتے تھے مگر انہوں نے حفیظ صاحب کے حوالے سے بہت تخلیقی اور مضحک قسم کے لطیفے گھڑے۔ مثلا یہ کہ حفیظ صاحب جوتا خریدنے ایک دکان پر گئے اور انہوں نے محسوس کیا کہ دکاندار نے انہیں پہچانا نہیں کسی بھی مشہور آدمی کیلئے یہ ایک بہت بڑا المیہ ہوتا ہے چنانچہ انہوں نے مناسب سمجھا کہ اس نابلد کو اپنی پہچان کرائی جائے بولے ’’میں حفیظ ہوں‘‘ اس کے فرشتوں کو بھی پتہ نہیں تھا کہ یہ صاحب کون ہیں،اس نے کہا بہت خوشی ہوئی آپ کے پائوں کا نمبر کیا ہے؟حفیظ صاحب کو اس کی جسارت پر دلی صدمہ ہوا چنانچہ ضروری سمجھا کہ تھوڑی سی وضاحت اور کر دی جائے چنانچہ اسے بتایا کہ میں نے شاہنامہ اسلام لکھا ہے ،یہ سن کر اس نے ایک دفعہ پھر خوشی کا اظہار کیا اور اپنا سوال دہرایا آپ کے جوتے کا نمبر کیا ہے حفیظ صاحب جب یہ بھی بتا چکے کہ وہ قومی ترانے کے خالق ہیں اور اس کے باوجود وہ جوتے کے نمبر پر ہی اڑا ہوا ہے تو دانت کچکچاتے ہوئے اس ’’جاہل مطلق‘‘ کو مخاطب کیا اور کہا ’’میں ابو الاثرحفیظ جالندھری ہوں‘‘ یہ سن کر اس نے والہانہ طور پر حفیظ صاحب کو بتایا اور کہا ’’بےحد خوشی ہوئی آپ بھی جالندھر کے ہیں‘‘

ایک دفعہ ابن انشا نے کہا حفیظ صاحب آپ کی انگریزی بہت کمزور ہے اس پر حفیظ صاحب نے کہا ’’میری انگریزی کیسے کمزور ہو سکتی ہے میں اور میری انگریز بیوی ایک پلنگ پر سوتے ہیں یہ سن کر ابن انشا نے کہا حفیظ صاحب انگریزی سونے سے نہیں جاگنےسے آتی ہے ۔جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں اکیڈمی آف لیٹر کی ایک کانفرنس کےبعد جنرل صاحب حفیظ صاحب،ضمیر جعفری صاحب اور دوسرے مندوبین کے ساتھ کھڑے گپ شپ کر رہے تھے کہ جنرل صاحب نے ضمیر صاحب سے کلام سنانے کی فرمائش کی ان کے عمدہ کلام پر جنرل صاحب نے بھرپور داد دی ۔حفیظ صاحب کو یہ سب کچھ برا لگ رہا تھا کہ ابو الاثر کی موجودگی میں کسی اور سے کلام کی فرمائش کی جائے اور جی بھر کر اسے داد بھی دی جائے۔چنانچہ انہوں نے ضمیر صاحب کو مخاطب کیا اور کہا اوئے ضمیر جب تم میرے ماتحت کام کرتے تھے اس وقت تو اتنے اچھے شعر نہیں کہے تھے اب تو ٹھیک ٹھاک شعر کہہ لیتے ہو اس پر ضمیر صاحب نے ہاتھ جوڑ کر کہا ’’حفیظ صاحب یہ سب آپ سے دوری کا فیض ہے ‘‘

خود حفیظ صاحب بھی جملے بازی میں کسی سے پیچھے نہیں تھے دلی کے ایک مشاعرے میں جب حفیظ صاحب اپنے خوبصورت ترنم سے اپنا خوبصورت کلام سنا رہےتھے فراق گورکھپوری نے دفعتاً بلند آواز میں کہا ’’واہ حفیظ صاحب کیا گلا پایا ہے آپ میرا سارا کلام لے لو مگر اپنی آواز مجھے دے دو ’’یہ سن کر حفیظ برجستہ بولے‘‘فراق صاحب میں آپ کا نیازمند ہوں میری آواز تو کیا آپ مجھے بھی لے لیجئے لیکن خدا کیلئے اپنا کلام اپنے پاس رکھیں۔

ضمیر صاحب اور فراق صاحب کے مابین ہونے و الی جملے بازی امرواقع ہے لیکن جو بات شروع میں سنائی اور اب سنانے لگا ہوں وہ حریفوں کی گھڑی ہوئی ہے حفیظ صاحب ایک دفعہ بیمار ہوئے ڈاکٹر نے میڈیسن دی او رساتھ ہدایت کی کہ اس دوران کوئی دماغی کام نہیں کرنا حفیظ صاحب نے کہا کہ میں ان دنوں شاہنامہ اسلام لکھ رہا ہوں ڈاکٹر نے جواب میں کہا وہ لکھتے رہیں میں نے دماغی کام سے منع کیا ہے ۔

اور آخر میں ایک تاریخی واقعہ جس سے حفیظ صاحب کی دلیری کا اندازہ ہوتا ہے۔میجر جنرل فاروقی کی بڑھاپے کی شادی نہایت دھوم دھام سے ہوئی راولپنڈی چھائونی کے گرد واقع سبزہ زار میں محفل آراستہ کی گئی حفیظ جالندھری کو سہرا پڑھنے کیلئے بلایا گیا حفیظ صاحب نے دولہا کی عمر کے حوالے سے طنزومزاح کا پیرا یہ اختیار کیا ، محفل میں شریک فوجی افسروں کو یہ بات ناگوار گزری کہ ایک شاعر نے میجر جنرل کی کلاس لے لی ۔انہوں نے حفیظ جالندھری کو اٹھا کر تالاب میں پھینک دیا حفیظ صاحب ڈوبتے ڈوبتے بچے پانی کی سطح پر صرف ان کی ٹوپی تیر رہی تھی۔

ایک رحم دل فوجی افسر کرنل مسعود احمد کے دل میں نیکی آ گئی اور وہ غرقاب شاعر کو تالاب سے کھینچ کر کنارے تک لے آئے حفیظ صاحب بھیگے کپڑوں میں کانپتے جسم کے ساتھ مائیکروفون کی طرف گئے اور ’’تم پر لعنت ہو‘‘ کہہ کر محفل سے رخصت ہوئے، حفیظ ہوشیارپوری نے حفیظ جالندھری کے ہی اس شعر سے ان کی غرقابی کی تاریخ نکالی ۔

جہاں قطرے کو ترسایا گیا ہوں

وہاں ڈوبا ہوا پایا گیا ہوں

یہ واقعہ 1952ء کا ہے اگر چھ سال بعد مارشل لاءکے زمانے میں یہ واقعہ پیش آتا تو کرنل مسعود صاحب حفیظ جالندھری کی ٹوپی ہی باہر لاتے اور اسےفردوسی اسلام کی یادگار کے طور پر قومی عجائب گھر میں محفوظ کر دیا جاتا۔

تازہ ترین