• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اربوں انسان مذاہب سے روحانی و دنیاوی راہ نمائی حاصل کرتے ہیں، مذہبی احکامات کی روشنی میں اچھا انسان بننے کی کوشش کرتے ہیں، اور اپنی دنیا و عقبیٰ سنوارنے کی سعی کرتے ہیں۔ دوسری طرف یہ بھی درست ہے کہ ہر طاقت ور نظریے کی طرح مذہب کا غلط استعمال بھی ہوتا ہے۔ ہزاروں سال سے بالا دست طبقات اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے مذہب کی چھتری تلے پناہ لیتے رہے ہیں، بادشاہوں کاالوہی حقِ حکمرانی اور کاہنوں اور پروہتوں کا دیوتائوں کی نمائندگی کا دعویٰ، اسی سلسلے کی کڑیاں رہی ہیں۔ یہ مذہب کارڈ آج بھی مستعمل ہے۔ بچپن میں ہمارے محلے کے سب مکان ’تقسیم‘ سے پہلے کی تعمیر تھے، صرف ایک کوٹھی نئی بنی تھی، محلے میں سب سے اونچی اور شان دار عمارت جس کے ماتھے پر سنگِ مرمر کی ایک بڑی سی سِل پر ’’ہذا من فضل ربی‘‘ کندہ تھا۔ یہ علاقے کا واحد گھر تھا جسکے بچوں کے ساتھ کھیلنے کودنے کی ہمیں اجازت نہیں تھی۔ مالک مکان کوئی چودھری صاحب تھے، محکمہ پولیس میں ملازم تھے۔ مذہب کے ’’مس یوز‘‘ سے یہ ہمارا ابتدائی تعارف تھا۔ مذہب کی آڑ میں کیاکیا خرافات ممکن ہیں، اس کا تجربہ و مشاہدہ بعد ازاں زندگی بھر جاری رہا۔ اپنی دنیاوی خواہشات کو مذہبی روحانیات کا لبادہ پہنا کر حرص و ہوس بھی پوری ہو جاتی ہے اور آدمی معزز کا معزز بھی رہتا ہے۔ مختصراً یہ کہ اپنے اعمال کی غایت چھپانے میں مذہب کی دھند بہترین آڑ ہوا کرتی ہے۔ اگر کسی پوتوں پوتیوں والی خاتون کے دل میں اپنے خاوند سے طلاق لے کر دوبارہ بیاہ کی خواہش بیدار ہو اور اس خاتون میں اس عمل کی سیدھی سادی وجہ بتانے کا حوصلہ بھی نہ ہو تو وہ بے چاری کیا کرے؟ وہ یہ کہہ کر مذہب کی سموک سکرین کے پیچھے چھپ جاتی ہے کہ ’’مجھے ایک مقدس ہستی نے خواب میں پھر سے دلہن بننے کا حکم دیا ہے۔‘‘ ہمارے یہاں صحافیوں کو بشارتیں ہوتی رہی ہیں کہ فلاں افسر یونہی چیف نہیں لگ گیا، اس کا فیصلہ ’’مْقدس دربار‘‘ میں ہوا ہے۔ پچھلے دنوں ایک مزار پر ایک ’’مجذوب‘‘ نے سات آدمیوں کو قتل کر دیا، اس نے بتایا کہ اسے خواب میں خود صاحبِ قبر نے یہ حکم دیا تھا۔ پولیس تحقیقات میں یہ مزار کے گلّے پر تصرف کا جھگڑا نکلا۔دو دن پہلے امریکا کے نو منتخب صدر نے حلف اٹھانے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں فرمایا کہ خدا نے انہیں ایک قاتلانہ حملے سے اس لیے بچا لیا تاکہ وہ امریکا کو دوبارہ عظیم بنا سکیں، اس حلف برداری کی تقریب میں عیسائیوں کے بنیادی فرقوں کے پادری اور ایک یہودی راہب نے بھی ٹرمپ کے حق میں گڑگڑا کر مناجات کیں۔ دھیان پاکستان میں منعقد ہونے والی اس نوع کی تقریبات کی طرف چلا گیا جہاں اگر مارشل لا لگ رہا ہو تو کچھ آیات منتخب کی جاتی ہیں اور اگر جمہوریت لوٹ رہی ہو تو کچھ اور۔مذہب کی دھند دنیا بھرکے سیاست دان حسبِ ضرورت استعمال کرتے ہی رہتے ہیں مگر اس سلسلے میں پاکستانی سیاست دانوں کا حق فائق ہے۔ پاکستان کی تخلیق میں مذہب کارڈ ببانگِ دُہل استعمال ہوا تھا، اور پھر جب قائدِ اعظم نے گیارہ اگست کی تقریر میں مذہب کو فرد کا ذاتی مسئلہ قرار دیا تو ایک ایسا فکری پیچاک پیدا ہوا جسکی پرچھائیاں آج تک ہمارے آئین اورمعاشرے پر پڑ رہی ہیں۔ قراردادِ مقاصد سے چھبیسویں آئینی ترمیم تک، مذہبی سموگ پھیلی ہوئی ہے جو ناظرین کو دھوکا دینے کیلئے استعمال کی گئی ہے۔ ایک آدھ مثال دیکھیے، ہمیں بتایا گیا تھا کہ آئین میں باسٹھ تریسٹھ کی شقیں ’’اچھے مسلمان‘‘ چننے کیلئے رکھی گئیں تھیں۔ وقت نے ثابت کیا کہ یہ جھوٹ تھا، یہ شقیں سرکش سیاست دانوں کو کیفر ِکردار تک پہنچانے کیلئے آئین میں شامل کی گئیں تھیں۔ محترمہ فاطمہ جناح اور بے نظیر بھٹو کی مخالفت کیلئے اسلام کی روشنی میں ’’عورت کی حکم رانی‘‘ کی بحث چھیڑنے والے کیا واقعی شمع اسلام کے پروانے تھے، یا مذہب کی دھند پھیلا کر سیاسی واردات ڈالنا چاہتے تھے؟اب لمحہء موجود میں آ جائیے، جس طرح عمران خان نے ابلاغ کے ہر شعبے میں اپنے سیاسی حریفوں کو چِت کیا ہے، اسی طرح ’’اسلامی ٹچ‘‘ دینے میں بھی ان کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ اس ضمن میں مسز عمران خان کے ذکرِ خیر سے اجتناب برتنا ہو گا کہ وہ اس حوالے سے ایک مستقل بالذات موضوع ہیں۔ بشریٰ صاحبہ نے ۲۵ نومبر کے احتجاج کو کامیاب بنانے کیلئے ’قوم‘ سے اپنے پہلے خطاب میں کیا ہی خوب اسلامی ٹچ دیا جب انہوں نے بتایا کہ سعودی عرب والوں نے عمران خان کی آمد پر قمر باجوہ صاحب سے شکوہ کیا کہ یہ کیا چیز اٹھا لائے ہو، جو ننگے پائوں مدینہ کی سرزمین پر پھرتا ہے اور اپنے ملک میں شریعت کا نظام نافذ کرنا چاہتا ہے۔ پچھلے ہفتے القادر ٹرسٹ کے ۱۹۰ ملین پائونڈ کیس کا فیصلہ آیا تو عمران خان نے فرمایا کہ میرا فقط یہ قصور ہے کہ میں نے سیرت النبیﷺ کی ترویج کیلئے ایک ادارہ بنایا تھا۔ خان صاحب آپ پر الزام تھا کہ آپ نے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا، ہماری لوٹی ہوئی دولت کا ایک ذرہ اگر برطانوی حکومت نے ہمارے حوالے کر ہی دیا تھا تو آپ نے وہ مجرم کو ہی کیوں واپس کر دیا، اور ایک بند لفافے کی منظوری کابینہ سے کس قانون کے تحت لی، اور پھر میاں بیوی کا ٹرسٹ بنا کر اسی مجرم سے ۴۵۰ کنال زمین کیوں وصول کی؟ آپ ان الزامات کے جواب میں فرما رہے ہیں کہ میں تو سیرت کی تعلیم دینا چاہتا تھامگر دشمنانِ اسلام نے میرے خلاف سازش کر دی۔

مذہبی دھند پھلانے والوں کا ایک ہی ہدف ہوتا ہے، اصل چہرے کو چھپانا، دیکھنے والے کو کچھ سمجھ نہ آئے کہ پسِ غبار کون ہے، کوئی سادھو یا کوئی فراڈیا۔

تازہ ترین