20 جنوری؛ عجیب منظر ہے۔ غزہ کی زمین میں گرفتار فلسطینی زخموں،پھٹے کپڑوں کے ساتھ رہا ہو رہے ہیں۔ غزہ کی تباہی دیکھتے ہیں تو دیکھ کر روتے ہوئے ساتھ والے سے پوچھتے ہیں۔ کیا اسے پہچانتے ہو۔ یہودی بھی زمین پہ سجدہ کرتے ہیں اور مسلمان بھی، اسی رب کا شکر بجا لاتے ہیں۔ ڈیڑھ سال میں سینکڑوں بستیوں، لاکھوں گھروں، ہزاروں اسپتالوں اور سر بسر ہر سڑک پر اجڑے زیتون کے درختوں کی ننگی ٹہنیوں سے لپٹ کر، مرنے والوں کو، اپنے گھروں کو اور بچوں کو یاد کرتے ہوئے کبھی روتے کبھی ہنستے ہیں۔ یہی حال یہودی قیدیوں کا ہے۔ کوئی اپنے مرنے والےرشتہ داروں بچوں اور ماں باپ کو رو رہا ہے اور کوئی کھلی بے آب و گیاہ زمین کی طرف دیکھ کر سوچ رہا ہے کیا واقعی یہاں گھر تھے۔ باغ تھے، بچے کھیلا کرتے تھے، کہیں کہیں تو دشمن بھی ایک ددوسرے کو دیکھ کر پھوٹ پھوٹ کر روتے ایک د وسرے سے لپٹے اور خود ہی افسوس کرتے ہیںکہ ہم سکون سے رہ رہے تھے۔ ہمیں کس نے بھڑکایا۔ ہم دونوں آبادیاں کتنی خوش تھیں۔ یہاں نہ کسی قبر کا نشان ہے اور نہ کوئی جانور، پرندہ، گائے بکری! زندگی کو ہم نے خود ویران کیا اور اب وہ دن آئے کہ فلسطینی اور یہودی دو قریبی ملکوں کی عزت کے ساتھ آباد رہیں۔
20 جنوری کوہی امریکہ میں ایک میزسے دوسری میز پر فائلیں، شخصیات ذمہ داری دوسروں کو دیتے ہوئے مطمئن ہیں کہیں پریشان، دل ہی دل میں ڈرتے پتہ نہیں کون کس حکم عدولی میں پکڑا جائے ابھی تو وہاں رات ہے، ابھی سے خواتین وحضرات تیار ہوکر لباس فاخرہ میں نظرآرہے ہیں۔ سب کو یقین ہے یہ بدلا ہوا شخص ٹرمپ، منہ سے جھاگ نکالتا نظر نہیں آئیگا۔ یقین ہے وہ یوکرین اور روس کی توپوں کو بھی خاموش کرائے گا۔ مگر وہ فرشتہ نہیں، اسکا ماضی سب کو یاد ہے۔ اس دفعہ اس نے بہت محتاط ہوکر اپنی ٹیم منتخب کی ہے۔ خدا کرے وہ مودی کو بھی عقل دے اور بددماغ افغانیوں کو نفرت کی بجائے، ہمسایہ ملکوں سے دوستی اور عورتوں کو آزادی دینے کی ہمت دے۔
اس وقت موسم نے عجیب رخ اختیار کیا ہے۔ لاس اینجلس کے ہزاروں ایکڑ علاقوں میں جنگل مسلسل آگ بھڑکا رہا ہے ہزاروں لوگوں کے گھر جل گئے، بال بچے اجڑگئے۔ ہر کوشش کے باوجود آگ قابو میں نہیں آ رہی ہے۔ افریقی ممالک میں بھی موسم نے بچوں کو بھوکا مارنا شروع کر دیا ہے۔ کاش یہ بدلا ہوا ٹرمپ، سزا سے بچنے کے باوجو داتنی عقل کر جائے کہ میکسیکو کے لوگوں کی آمدورفت کو قابو تو کرے مگر انکی زندگی مشکل نہ بنائے۔ کینیڈا، ہمسایہ ملک ہے، اس پر چڑھائی کا نہ سوچے۔
پاکستان کی حالت، ساری دنیا کو پتہ ہے کہ روز دس بارہ دہشت گرد مارے جاتے ہیں۔ حکومت اور فوج کی ہر حکمت عملی کے باوجود یہ منظر نامہ بدل نہیں رہا۔ اس پر طرح پارا چنار کا وہ علاقہ جہاں ہم ہنستے کھیلتے جاتے تھے، وہ لوگ نجانے کو نسی دشمنی مہینوں سے نکال رہے ہیں۔ لڑائی کے باقاعدہ مراکز بنائے ہوئے ہیں۔ بہت احتیاط کے باوجود ہر روز کوئی قتل، کوئی جھگڑا اور پھر جرگے میں معاملات پیش ہونا، دنیا خاص کر انڈیا تماشہ دیکھ رہا ہے۔ آج کل بنگلہ دیش والے محبت کا ہاتھ پاکستان کے ساتھ پھیلا رہے ہیں۔ انڈیا کو بھی سبق سیکھنا چاہئے کہ باہمی سرحدیں ایک ہونے کے باوجود، باقاعدہ تجارت، آمدورفت اور سب سے بڑھ کر انڈیا پاکستان کے مشاعرے ساری دنیا میں مشہور تھے۔ لوگ رات رات بھر بیٹھ کر شاعروں کو سنتے اور کاپیوں پر، نوجوان نوٹ کرتے، اب تو انڈیا میں بھی ریختہ نام کا ادارہ۔ دکانداری زیادہ، ادبی سرگرمیاں کم کررہا ہے۔
بہت پرانی نہیں گو تازہ بھی نہیں، ایک تصویر میں ٹرمپ، پیوٹن کم یونگ، مودی کے ساتھ روٹی کھارہے ہیں۔ ہر ایک سیکھتا جاتا ہے۔ کاش یہ تعلق ظاہری نہ رہے، کاش پیوٹن اور ٹرمپ ظاہری رشتہ نہ رکھیں۔ لوگوں کو امن کے ساتھ جینا سکھائیں، جہاں تک عمران خان کا مسئلہ ہے۔ سب سے عقلمندی کا قدم چیف آف آرمی اسٹاف نے اٹھایا۔ امید ہے زبردستی کے سیاست دان، واپس اپنے جرگوں میں آسکے تو عوام کیلئے منصوبے بنائیں گے اور ان کی شکلیں اگلے پانچ سال تک نظر نہیں آئیں گی۔ ’’سزا کے اعلان پربہنوں سے کہا ، اللہ پر بھروسہ رکھو‘‘۔ یہ مت یاد کرو کہ کیسے کیسے جرنیل ریٹائرمنٹ لیکر مع فیملی یورپ چلے گئے۔ یہ ماضی ہے اسکو فراموش کردیں۔ ہم نے کتنی ناانصافیوں کو فراموش کیا ہے۔ اب تو گنتی بھی یاد نہیں، شاید حامد میر ! تم یاد ہو۔ اس وقت جو شخص بہت باتیں بنا رہا ہے۔ اسکو سب لوگ خواجہ کہتے ہیں۔ اسکی اتنی منطق ہوتی ہے۔ یہ وہی خواجہ ہے جو ایک خاتون سے الیکشن میں ہار گیا تھا۔ خیر یہ سارے عقدے کھلتے جائینگے ابھی تو ٹرمپ کا کام دیکھئے گا۔ سب کے خواب یا وعدے ، ادھورے رہ جائینگے۔
ٹرمپ نے آتے ہی ایک زبردست قدم اٹھایا ہے۔ جو لوگ ٹرمپ کیلئے تین سال پہلے کیپٹل ہل پر حملہ آور ہوئے تھے۔ انکی کوئی شنوائی نہیں ہوئی تھی۔ پاکستان میں تو لوگ چالیس چالیس سال تک جیل میں رہتے ہیں۔ اس وقت جبکہ غزہ میں قیدی رہا ہو رہے ہیں۔ تو قع ہے کہ پاکستان کی حکومت بھی عاقبت نا اندیش لوگوں کو، جو9مئی اور26نومبر کو حملہ آور ہوئے ان سب کو سزا دیں مگر یہ لوگ جیسے یاسمین راشد،چوہدری صاحب، ڈیڑھ سال سے خاموشی سے جیل میں بند ہیں۔ انکی شنوائی ہونی چاہئے۔ آرمی چیف کو پہلا قدم اٹھانا چاہئےکہ باقی سارے لوگ چمچے ہیں۔ سزا کیلئے حد کا سوال تو غالب نے بھی اٹھایا تھاا س سے پہلے کہ ٹرمپ کی طرف سےکوئی اشارہ ہو۔ ہم خود اپنے معاملات سنجیدگی سے طے کریں۔ پاکستان میں صرف عمران خان مسئلہ نہیں، کہنے کو تو پاکستان میں سونا بھی دستیاب ہوا ہے مگر ہم وہ ہیں جو زمرد کی کانیں بے ایمانی سے خالی کرگئے ۔ ہمیں اپنی برآمدات بڑھانےکیلئے ملک کے اندر ہی نوجوانوں کو زمین سے سونا حاصل کرنا ہو گا۔ ورنہ سب کےسامنے ہےکہ سب ڈھائی کروڑ جاہل بچوں کا ڈیڑھ سال سے رونا رورہے ہیں۔ روز لیپ ٹاپ دیے جاتے ہیں۔ یہ طریقہ عملیت غلط ہے، زمین پہ ،سڑک پہ، ہر چھپر کے نیچے بچوں کو پڑھائیں۔