گزشتہ صدی کے آخری برس تھے۔ سہ پہر کے وقت اتفاق ہسپتال کے بڑے دروازے پر کھڑا تھا۔ ہسپتال پہنچنے کا مطلب ہی یہ ہوتا ہے کہ خود اپنے پر یا کسی عزیزپر کوئی جسمانی افتاد آ پڑی ہے۔ دنیا میں جینے کے لیے آپ کے نیازمند نے بھی مضبوط اعصاب کا ایک مکھوٹا اوڑھ رکھا ہے۔ سچ یہ ہے کہ جذباتی دروبست کچھ ایسا مضبوط نہیں۔ پانی کی سطح عموماً خطرے کے نشان سے ایک آدھ درجہ ہی دور ہوتی ہے۔ اس شام ایک ایمبولینس ہسپتال کے بڑے دروازے تک آئی ۔ اسٹریچر پر ایک شخص رکھا تھا ۔ بظاہر وہ زندہ معلوم ہوتا تھا۔ آگے بڑھ کر ایمبولینس کے پاس کھڑے صاحب سے پوچھا۔ کیا آپ کا مریض صحت یاب ہو گیا ہے؟ کہیں بہت دور خلا سے آواز آئی۔ ’نہیں جی، پیسے ختم ہو گئے ہیں‘۔ اب اس سے مشابہ ایک اور واقعہ سنئے۔ کوئی پندرہ برس گزرے، میں ایک نجی یونیورسٹی میں ابلاغیات کی کلاس پڑھا رہا تھا۔ اچانک ادارے کا ایک ملازم اندر داخل ہوا اور ایک کاغذ تھما کر کسی قدر دھیمی آواز میں بولا۔ان طالب علموں نے فیس ادا نہیں کی۔ انہیں کمرہ جماعت سے اٹھا دیا جائے۔ درویش عام طور پر تحمل سے کام لیتا ہے لیکن یہ تحمل زندگی کے تجربات سے اکتساب کیا ہے لہٰذا کچی مٹی کا پیالہ کہیںبھی تڑخ جاتا ہے۔ میں نے وہ کاغذ مروڑ کر انتظامیہ کے فرستادہ صاحب کے ہاتھ پر رکھ دیا اور کہا۔ ’استاد کا کام طالب علموں کو کمرہ جماعت کی طرف لانا ہے۔ انہیں درس گاہ سے باہر نکالنا نہیں ۔ میری جماعت سے کوئی باہر نہیں جائے گا۔ اگلے تدریسی گھنٹے میں جو چاہے کر لینا‘۔ اب میں اسے کیا بتاتا۔ ٹھیک 35 برس پہلے مجھ پر بھی یہ پیغمبری وقت آیا تھا۔ گوجرانوالہ کے استاد محترم نصیرالدین کو اپنی مجبوری بتائی تو صرف یہ فرمایا کہ جماعت میں آتے رہو۔حالات بہتر ہوں تو فیس دینا شروع کر دینا۔ کچھ برس بعد گورنمنٹ کالج لاہور میں پرنسپل آفس سے نکلتی ہوئی ڈھلوان پر جا رہا تھا کہ پروفیسر آر اے خان صاحب نے بلا کر پوچھا۔ ٹیوشن پڑھانا چاہو گے۔ عرض کی کہ ضرور۔ فرمایا، کل فلاں جگہ پہ فلاں صاحب کے ہاں چلے جانا۔ آر اے خان نظم و ضبط کے سخت پابنداور سوائے تدریسی معاملات کے طالب علموں سے فاصلہ رکھتے تھے۔ اس شام معلوم ہوا کہ استاد کی آنکھ اس فاصلے سے بھی طالب علم کے معاملات جان سکتی ہے۔ بشرطیکہ تعلق تدریس سے ہو ، صبح و شام کے دائرے سے جوئے شیر نکالنے کی جستجو نہ ہو۔
غذا، علاج معالجہ اور تعلیم ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔ موجودہ دنیا میں ہر شام ایک ارب کے قریب انسان بھوکے پیٹ نیند کی آزمائش سے گزرتے ہیں۔ ملکی ماہرین معیشت کے مطابق پاکستان کی چالیس فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔غربت کی لکیر تو معیشت دانوں کے لیے محض ایک ہندسہ ہے۔ اس نشان سے نیچے اور اوپر جیتے جاگتے انسانوں کی محرومی، بے کسی اور رائیگانی کی ان گنت کہانیاں رکھی ہیں۔ رواں مالی سال میں 3.2 فیصد شرح نمو کا ہدف رکھا گیا تھا جسے اب 3فیصد کر دیا گیا ہے۔ تعلیم پر کل قومی پیداوار (جی ڈی پی)کا 1.56فیصد خرچ ہو رہا ہے اور صحت پر شاید اس سے بھی کم ۔ یہ محض چوبی اعداد و شمار نہیں ہیں۔ ان کا تعلق کروڑوں پاکستانیوں کے شب و روز سے ہے۔ ناانصافی، بدعنوانی، بدنظمی اور محرومی کی ان گنت شکلوں کی چبھن سے ہم آپ پوری طرح آشنا بھی نہیں ہو سکتے۔ کبھی اس نوجوان پر غور کیجئے گا جو کاغذ کے چند ٹکڑے جمع کر کے اپنے کسی عزیز کے لیے دوا لینے پہنچتا ہے اور اصلی کرنسی کے عوض جعلی ادویات اسے تھما دی جاتی ہیں۔ ان لاکھوں طالب علموں پر نظر کیجئے گا جن کے والدین باہم سرجوڑ کر اگلی سہ ماہی کے تعلیمی اخراجات کا حساب کتاب کرتے ہیں اور اس تنگ دستی کے عوض ان کے بچوں کو جو تعلیم ملتی ہے اس کا بیشتر حصہ عملی طور پر بے کار ہے۔ پانچ سے پندرہ برس کی عمر کے دو کروڑ 80لاکھ بچے اسکول سے محروم ہیں۔ 1951ء میں موجودہ پاکستان کی کل آبادی 3کروڑ 38لاکھ تھی اور شرح خواندگی 11فیصد تھی۔ گویا 72برس میں ناخواندہ آبادی کا مجموعی حجم تین کروڑ سے دس کروڑ تک جا پہنچا ہے۔
صاحبان اقتدار سے بہت مرتبہ عرض کی کہ ہمارا اجتماعی اثاثہ مفروضہ معدنیات یا جغرافیائی محل وقوع یا دفاعی صلاحیت نہیں، قوم کی معاشی حالت بہتر بنانے کے لئے تعلیم سے محروم ہجوم کو معیاری تعلیم دے کر انسانی سرمائے میں بدلنا ہو گا۔ عزیزو، عوام کی تعلیم کسی سیاسی جماعت کی ترجیح نہیں اور کیوں ہو؟ عوام کی تعلیم میں سرمایہ کاری ربع صدی پر پھیلا بندوبست ہے۔ یہاں وزیراعظم کی کرسی کو ثبات نہیں۔ جن حکومتوں کا آنا او ر جانا دستور کی بجائے حادثات کے کچے دھاگے سے بندھا ہو، سرکاری اہلکاروں کے ذاتی عزائم سے مڈ نائٹ جیکال، میمو گیٹ اور ڈان لیکس برآمد ہوتے ہوں۔ وہاں سیاسی قیادت قومی ترقی کے لئے طویل مدتی پالیسی کیسے تشکیل دے اور اگر پالیسی بن بھی جائے تو اس پر عمل درآمد کے لیے باہم اعتماد ہی موجود نہیں۔ ایک سازش سے دوسری سازش کی طرف لڑھکنے والے ہجوم میں اجتماعی بہتری کی بجائے نجی جوڑ توڑ کا رجحان راہ پا جاتا ہے۔ یہی حقیقی بدعنوانی، سیاست کی تخریب اور اجتماعی پسماندگی ہے۔ ہم ذرائع ابلاغ پر شخصی سیاست اور ادارہ جاتی کشمکش کی سچی جھوٹی خبروں سے اس ملک کی خدمت نہیں کر رہے۔ ہم نے سیاست کو ناٹک میں بدل دیا ہے۔ ایک دوسرے کی کردار کشی کو کج روی کی بجائے معمول سمجھ لیا ہے۔ 21ویں صدی کا رواںبرس دنیا کو اس طرح بدل کے رکھ دے گا کہ ہم شاید رہی سہی اہمیت بھی کھو بیٹھیں۔ قومیں ان حادثات سے سیاسی تدبر میں پناہ لیتی ہیں۔ سیاسی تدبر عوام کے لیے دال روٹی ،مناسب لباس، علاج معالجے، تعلیم اور روزگار کی فکر ہے۔ اگر ہماری سیاست ان معاملات کو قابل توجہ نہیں جانتی تو وہ سیاست نہیں، محض ذاتی عہدے اور ہائوسنگ سوسائٹی کا جھگڑا ہے۔