• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دریائے سندھ کے پانی کی سندھ کیخلاف غیر منصفانہ تقسیم انگریز کے دور سے جاری ہے۔ اس وقت سے اب تک سندھ احتجاج کرتا آیا ہے مگر آج تک اس کی شکایت کا ازالہ نہیں ہوا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ برطانوی حکومت نے پھر بھی کسی حد تک سندھ کیساتھ منصفانہ سلوک کرنے کی کوشش کی۔ اس سلسلے میں برطانوی حکومت کی طرف سے کچھ ابتدائی اقدامات بھی کئے گئے مگر ان کی بھی نہیں سنی گئی، سندھ کو شکایت ہے کہ کم سے کم پانی کے حوالے سے سندھ اُس وقت بھی لُٹ رہا تھا اور اِس وقت بھی لٹ رہا ہے۔ سندھ کا شروع سے یہ موقف رہا ہے کہ سندھ کی معیشت کا 70فیصد انحصار دریائے سندھ سے کے پانی پر ہے کیونکہ سندھ کی بیشترزمین کی نیچےکا پانی نمکین ہے۔ یہ موقف کافی عرصے پہلے سندھ سے قومی اسمبلی کے ممبران نے ایک مشترکہ موشن Motion کے ذریعے قومی اسمبلی میں بھی پیش کیا تھا اور شکایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ایک انتہائی اہم عوامی مسئلے کی طرف پانی اور بجلی کے وفاقی وزیر کی توجہ مبذول کرنا چاہتے ہیں کہ 1991ء میں پانی کے معاہدے پر عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے سندھ میں خاص طور پر خریف کے موسم کے دوران آبپاشی کیلئے پانی کی شدید قلت ہو جاتی ہے جسکی وجہ سے سندھ کے عوام کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لہٰذا سندھ کے قومی اسمبلی کے ان ممبران نے حکومت اور اسمبلی کے سیکریٹری کو لکھے گئے ایک خط میں واضح طور پر کہا کہ ایوان کی کارروائی ملتوی کی جائے تاکہ 1991ءکے پانی کی تقسیم کے معاہدے پر عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے سندھ میں آبپاشی کیلئے پانی کی شدید قلت جیسے ایک انتہائی اہم معاملے پر اسمبلی میں غور کیا جائے کیونکہ اس کی وجہ سے کسانوں اور عام آدمی کو مشکلات کا سامنا ہے۔ اس مرحلے پر ان ممبران کی طرف سے ایک ”مختصر بیان“ جاری کیا گیا جس میں کہا گیا کہ ”برطانوی دور سے پانی کی تقسیم کے ایشو کو کافی شہرت حاصل ہے‘ 1932ء میں برطانوی حکومت نے اینڈرسن کمیٹی بنائی جس نے ایک رپورٹ بنائی اور اس پر عمل بھی کیا گیا‘ اسکے بعد 1945ء میں راؤ کمیشن بنا جس نے رپورٹ دی مگر پنجاب حکومت نے اس رپورٹ سے اتفاق نہ کیا‘ 1948ءمیں انڈس بیسن ٹریٹی (Indus Basin Treaty) پر دستخط کئے گئے‘ اسکے بعد 1983ء میں جسٹس حلیم کمیشن قائم کیا گیا مگر ان سارے کمیشنوں کے باوجود یہ ایشو متنازع ہی رہا۔یہ فیصلہ کیا گیا کہ کے پی کے اور بلوچستان پانی کی قلت میں حصہ دار نہیں ہوں گے جب پانی کی قلت ہوگی تو اس میں سندھ اور پنجاب برابر کے حصہ دار ہوں گے مگر عملی طور پر یہ ہوا کہ پانی کی کمی میں فقط سندھ اکیلا حصہ دار ہوا۔ اس شارٹ اسٹیٹمنٹ میں مزید کہا گیا کہ 1991 ءکے پانی کے معاہدے کی مزید خلاف ورزی یہ کی گئی کہ ٹین ڈیلیز (Ten Dailies) کے تحت پانی کی تقسیم روک دی گئی۔ دوسری طرف سندھ میں پانی کی کمی کے باوجود پنجاب جہلم لنک کینال اور تونسہ‘ پنجند کینال کے ذریعے دریا سے پانی نکال رہا ہے۔ علاوہ ازیں اس عرصے میں منگلا ڈیم کو بھی اس پانی سے بھر دیا جاتا ہے حالانکہ معاہدے کے تحت ڈیم فقط دریا کے پانی سےبھرے جائینگے جب پانی اضافی (Surplus) ہو گا۔ قومی اسمبلی ممبران کے اس مختصر بیان میں اس بات پر افسوس ظاہر کیا گیا کہ کے پی کے اور بلوچستان کو پانی کی کمی کو پورا کرنے میں حصہ داری سے آزاد کئے جانے کے بعد ارسا کے اجلاس میں اب کے پی کے اور بلوچستان سندھ کی بجائے پنجاب کو ووٹ دیتے ہیں۔ اس طرح اس ایشو پر بھی سندھ کو (Isolate) اکیلا کر دیا گیا۔ اس بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ارسا کے کلاز (8)2کے تحت ارسا کے کسی فیصلے پر تنازع پیدا ہونے کی صورت میں یہ ایشو سی سی آئی کے اجلاس میں اٹھایا جائے گا‘ مگر کیا کبھی اس پر عمل کیا گیا؟ اس بیان کے ذریعے پنجاب سے گزارش کی گئی کہ پنجاب بڑے بھائی کی حیثیت سے اس ضرورت کے وقت منگلا ڈیم سے سندھ کیلئے پانی جاری کرے کیونکہ پنجاب میں خریف کا موسم سندھ سے ڈیڑھ ماہ بعد شروع ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں کیونکہ پنجاب میں زیر زمین میٹھا پانی بڑی مقدار میں موجود ہے لہٰذا پنجاب کو پانی کے ذخیرہ کرنےکے حوالے سے سندھ پر برتری حاصل ہے۔ اس بیان کے آخر میں تجویز دی گئی کہ ان حالات کی روشنی میں 1991ء کے پانی کے معاہدے پر نظر ثانی کی جائے۔ مگر آج تک سندھ کے قومی اسمبلی کے ممبران کے اس بیان کی روشنی میں نہ اس صورتحال کاجائزہ لیا گیا نہ صوبوں کا مشترکہ اجلاس بلا کر اس ایشو پر نئے سرے سے غور کیا گیا اور نہ ہی آج تک قومی اسمبلی میں مرکزی یا پنجاب حکومت کی طرف سے سندھ کی ان پریشانیوں کے بارے میں کوئی واضح موقف اختیار کر کے اسمبلی کو اعتماد میں لیا گیا۔ سندھ کی زمین اور فصل سوکھ رہی ہیں انہیں بنجر ہونے سے بچایا جائے۔

تازہ ترین