• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاک سرزمین قدیم تہذیبوں کی حامل ہے۔ موہنجو دڑو اور ہڑپہ سے پہلے بھی یہاں کچھ تہذیبیں تھیں اور اس کے بعد بھی کئی تہذیبیں اٹھیں اور فنا ہو گئیں۔ مسلمانوں کی برصغیر میں آمد کے ساتھ ایک نئی تہذیب وجود میں آئی جسکے ہم پاکستانی وارث ہیں۔ لیکن گزرے ہوئے موسموں کے بچے کھچے تاریخ کےخدوخال کو محفوظ کرنے کیلئے ہم کبھی زیادہ سنجیدہ نہیں ہوئے ۔ہم نے میوزیم بنائے مگر ہمارازیادہ قومی ورثہ ملک سے باہر چلا گیا ۔اور تو اور ہم نے اپنی اسلامی تاریخ کو بھی محفوظ نہیں کیا۔ وہ عظیم آسمانی کتاب جسےقرآن ِ حکیم کہتے ہیں ۔آج تھوڑی سی باتیں اس کے قدیم نسخوں کے بارے میں کرتے ہیں ۔برصغیر میںجب مسلمان آئے تو وہ اپنے ساتھ قرآن حکیم کے نسخے لائے اور یہاں ہزاروں نسخے اور تیار ہوئے ۔ایسے ایسے آرٹ کے شاہکار نسخے جو دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں ۔ان کی بدولت پاکستان میں کئی قرآن میوزیم بنائے گئے مگر ہماری یہ حالت ہے کہ کوئٹہ میں جبل نورکے مقام پر غارمیں بنائے گئے قرآن میوزیم کو بھی نہیں چھوڑا۔ ایک سو بیس قران حکیم کے قدیم نسخے چرا لئے گئے ۔یہ ایک سو سال سے لے کر نو سو سال تک کے قدیم قرانی مخطوطات تھے۔ یقیناً یہ نسخے اب ملک سے باہر فروخت ہونگے۔ پاکستان میں اس سے پہلے بھی اس طرح کی کئی وارداتیں ہو چکی ہیں۔ سب سے بڑی واردات تو برطانوی دور میں ہوئی۔ انگریز یہاں سے اہم مخطوطات اور نوادرات اٹھا کر انگلینڈ لے گئے۔ برٹش لائبریری اور برٹش میوزیم اس کے گواہ ہیں۔ ابھی پچھلے دنوں نوادرات اور تاریخی دستاویزات کی فروخت کیلئے مشہور نیلام گھر 'سوتھ بیز کے تحت ہونے والی نیلامی میں ایک کشمیری خطاط کے ہاتھ سے لکھا گیا قرآن کا نسخہ ایک لاکھ 37 ہزار پانچ سو برطانوی پاؤنڈ میں فروخت ہو ا۔

قرآن حکیم کے اس وقت دنیا میں کئی میوزیم موجود ہیں۔ سب سے خوبصورت قرآن میوزیم سعودی عرب میں ہے۔ مکہ مکرمہ کے قلب میں جبل حیرہ کے قریب واقع مقدس قرآن میوزیم، جہاں قرآن کی پہلی آیات نازل کی گئی تھیں، یہ قرآن کی عظمت کو ظاہر کرنے کے لیے جدید ترین ٹیکنالوجیز سے لیس انٹر ایکٹو ہالز کے ذریعے ایک منفرد تجربہ پیش کرتا ہے۔ میوزیم میں نادر نمونے رکھے گئے ہیں۔تہران میں قرآن حکیم کا قومی میوزیم بنایا گیا جس میں قرآن کے قدیم نسخوں کو بڑی تعداد میں جمع کیا گیا ہے۔ لاہور میوزیم میں قرآنی مخطوطات کی خاصی تعداد موجود ہے نیشنل میوزیم کراچی میں موجود مختلف ادوار کے 300نادر قرآنی نسخے موجود ہیں۔ سکھر کے قرآن میوزیم میں ساٹھ سے زائد زبانوں کے نسخے رکھے گئے ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی اور فقیر خانہ میوزیم لاہور میں سونے کے پانی سے لکھے ہوئے قرآنی نسخے موجود ہیں۔ اسلامی انٹرنیشنل یونیورسٹی اسلام آباد میں قرآن حکیم کے قیمتی نسخوں کی ایک گیلری موجود ہے۔ گوجرانوالہ میں بھی قرآن کریم گیلری ہے جہاں قرآن کریم کے قدیم نسخہ جات موجود ہیں۔ محکمہ اوقاف پنجاب کے سیکریٹری طاہر رضا بخاری بھی لاہور میں ایک عظیم الشان قرآن میوزیم بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اللہ انہیں کامیاب کرے۔

برمنگھم یونیورسٹی کے مطابق لائبریری سے ملنے وا لےقرآنی نسخے کا شمار اب تک ملنے والی قدیم ترین قرآنی تحریروں میں ہوتا ہے۔ ریڈیو کاربن ٹیسٹ سے معلوم ہوا ہے کہ یہ قرآنی نسخہ کم از کم 1370 برس پرانا ہے، یہی وجہ ہے کہ اس نسخے کو قدیم ترین قرآنی نسخہ قرار دیا جا رہا ہے۔ سائنسدانوں کے مطابق یہ قرآن بھیڑ یا بکری کی کھال پر لکھا گیا ہے اور اس پر قرآن کے اٹھارہ سے بیسویں پارے کی صورتوں کے حصے لکھے ہوئے ہیں۔ یہ قرآنی نسخہ سیاہی کے ساتھ عربی زبان کے حجازی رسم الخط میں لکھا ہوا ہے۔ ریڈیو کاربن ٹیسٹ کے مطابق یہ بات پچانوے فیصد درستی کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ جس کھال پر قرآن لکھا گیا ہے، وہ سن 568ء سے645ء کے درمیان حاصل کی گئی اور پیغمبر اسلام بھی سن 570ء سے 632ء تک حیات رہے۔ اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ یہ قرآنی نسخہ پیغمبر اسلام کے اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد بھی زیادہ سے زیادہ تیرہ سے چودہ برس کے درمیان لکھا گیا۔ یعنی یہ صفحات ایک ہی نسخے کے ہیں ۔انیسویں صدی ہی میں فسطاط کی مسجد سے یہ نسخہ قاہرہ کی نیشنل لائبریری میں منتقل کر دیا گیا تھا۔ اسی دوران کچھ حصے نکال لیے گئے اور جو بعد میں فروخت کر دیے گئے۔ قیاس یہی ہے کہ متعدد بار فروخت ہونے کے بعد یہ صفحات ایلفاس منگانا کے ہاتھ آئے اور وہ انھیں برمنگھم لے آئے۔ منگانا کا تعلق اشوریہ سےتھا جو جدید دور کا عراق ہے اور مشرق وسطیٰ میں وہ نوادرات اکٹھا کرنے کیلئے مشرق وسطیٰ جایا کرتے تھے جن کا خرچہ برطانیہ کا کیڈبری خاندان اٹھاتا تھا۔ ازبکستان میں مصحفِ عثمانی یعنی حضرت عثمان کے دستِ مبارک سے لکھا ہوا نسخہ بھی موجود ہے۔

قرآن کا ایک مخطوطہ سال 1972میں ثناء کی عظیم مسجد کی بحالی کے دوران یمن میں پایا گیا تھا۔ اس میں متن کی دو پرتیں شامل ہیں، یہ دونوں حجازی اسکرپٹ میں ہیں۔ شاید، یہ مخطوطہ 646 اور 671 عیسوی کے درمیان کسی زمانے کا ہے۔ ثمرقند قرآن مجید مخطوطہ دوسری صدی ہجری کا ہے، جو آٹھویں صدی عیسوی ہے۔ مخطوطہ بہت نازک ہے اور مزید نقصان کو روکنے کیلئے اسے شیشے کی ایک بڑی الماری میں رکھا گیا ہے۔ یہ کوفی اسکرپٹ میں تیار کیا گیا ہے۔ یہ ساری باتیں اپنی جگہ مگر کوئٹہ میں قرآن حکیم کے میوزیم میں اتنی بڑی چوری کی واردات اپنی جگہ پر۔

تازہ ترین