بدھ کی شب، اندرون و بیرونِ ملک کروڑوں آنکھیں اور کان جی ایچ کیو کی طرف لگے ہوئے تھے۔ یومِ شہدا پر ملک بھر میں خصوصی تقریبات ، ان ہی میں ایک تقریب جی ایچ کیو میںتھی اور اس سے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا خطاب۔ گزشتہ پانچ، چھ سال میں اپنے ہاں ایک بیانیہ (Narrative) ہزاروں بار دہرایا گیا، ’’نظریۂ ضرورت بہت گہرا دفن ہوچکا، اب یہاں آزاد عدلیہ ہے، وائیبرنٹ میڈیا ہے، متحرک سول سوسائٹی ہے۔ سیاسی جماعتوں نے ماضی سے سبق سیکھ لیا ہے، ان کے ہاں بھی مینڈیٹ کااحترام اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا کلچر جنم لے چکا ۔ جنرل کیانی کی زیرقیادت فوج میں بھی یہ احساس بہت گہرا اتر چکا ہے کہ وقار اور احترام اپنی حدود میں رہنے میں ہے۔ سول ملٹری ریلیشن شپ میں معاملہ کسی کی بالادستی کا نہیں، بالاتر اور بالادست آئین ہے اور اس میں جس کی جو حدود طے کر دی گئیں، جس کے جو اختیارات ، حقوق اور فرائض متعین کر دیئے گئے، ان پر عملدرآمد ہی میں سلامتی ہے۔ 11مئی 2013ء کے انتخابات کے بعد وفاق اور صوبوں میں انتقالِ اقتدار کا عمل مکمل ہوا۔ جو جہاں ہارا، اس نے وہاں دھاندلی کی شکایت کی، اس کے ازالے کے لئے الیکشن کمیشن جیسے آئینی ادارے موجود تھے۔ وفاق میں مسلم لیگ (ن) اپنے حریفوں سے بہت آگے تھی، سادہ اکثریت سے بھی بڑھ کر ۔ پنجاب میں مسلم لیگ (ن ) اور سندھ میں پیپلز پارٹی اپنی اپنی پارلیمانی طاقت کی بنا پر حکومت بنانے کی پوزیشن میں تھیں۔ خیبرپختونخوا میں مولانا فضل الرحمٰن کے فارمولے پر عمل کر کے تحریک انصاف کو ایوانِ اقتدار سے باہر رکھا جاسکتا تھا لیکن نواز شریف اس پر رضا مند نہ ہوئے۔ ان کا مؤقف تھا ، سنگل لارجسٹ پارٹی کی حیثیت سے حکومت سازی کا پہلا حق تحریک انصاف کا ہے۔ بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) پہلے، پختون قوم پرست محمود اچکزئی کی پختون خواملی عوامی پارٹی دوسرے اور بلوچ قوم پرست ڈاکٹر مالک کی نیشنل پارٹی تیسرے نمبر پر تھی۔ بلوچستان کے مخصوص حالات کے باعث میاں صاحب نے اپنی مسلم لیگ کو پچھلی نشستوں پر بیٹھنے کو کہا اور محمود خاں اچکزئی کی رضامندی سے ڈاکٹر مالک کو ڈرائیونگ سیٹ دیدی۔
سیاسی عمل ہموار سڑک پر آگے بڑھنے لگا۔آئینی مدت کی تکمیل پر صدر زرداری کو وزیراعظم نے ایوان صدر سے غیر معمولی عزت و توقیر کے ساتھ رخصت کیا۔ اپنے اپنے وقت پر آرمی چیف اور چیف جسٹس بھی رخصت ہوگئے۔
دہشت گردی کے خاتمے کے لئے قومی اتفاق رائے کے ساتھ (جس میں آرمی اور آئی ایس آئی کا اتفاق بھی شامل تھا) مذاکرات کی حکمت عملی اپنائی گئی۔ ادھر معیشت کی نبضیں بحال ہونے لگیں۔ چین، ترکی اور عرب ممالک جیسے روایتی دوستوں کے علاوہ مغرب بھی پاکستان کی طرف متوجہ ہوا، پڑوسی ملکوں سے خوشگوار تعلقات کا ڈول ڈالا گیا۔ تباہ حال قومی اداروں میں بحالی کا عمل شروع ہوگیا۔ عالمی ادارے پاکستان پر اعتماد کرنے لگے تھے اور خود اہلِ پاکستان کا اپنے وطن پر اعتماد اور خوشگوار مستقبل کا یقین اُبھر آیا۔
سول آرمی ریلیشن شپ پاکستان میں ہمیشہ بہت نازک معاملہ رہا ہے۔ اس میں کچھ مسئلہ بالا دستی کی خواہش کا بھی تھا اور بہت زیادہ حصہ لگائی بجھائی کرنے والوں کا ۔ وزیراعظم نے تقریباً 4ماہ جنرل کیانی کے ساتھ گزارے ، اس کے بعد جنرل راحیل شریف آئے ۔ موجودہ حکومت کے ان گیارہ ماہ میں وزیراعظم اور آرمی چیف کی جتنی ملاقاتیں ہوئیں، اس کی کوئی مثال ماضی کے سول ادوار میں نہیں ملتی۔ لیکن ان چند ہفتوں میں ایسا کیا ہوگیا کہ بے چاری جمہوریت کے مستقبل کے سامنے بعض لوگ سوالیہ نشان لگانے لگے۔ افواہوں اور سازش تھیوریوں کے طوفان میں ، وزیراعظم 19اپریل کو آرمی چیف کی خصوصی دعوت پر کاکول اکیڈمی کی سالانہ پاسنگ آؤٹ پریڈمیں مہمانِ خصوصی تھے۔ اس میں وزیراعظم کم کم ہی شریک ہوتے ہیں۔( اس سے پہلے 2006ء میں وزیراعظم شوکت عزیز کو یہ ’’اعزاز‘‘ حاصل ہوا تھا)۔ بدقسمتی سے اسی روز کراچی میں حامد میر کا واقعہ ہوگیااور معاملات ایک نیا رُخ اختیار کرگئے۔ سازش تھیوریوں کے تخلیق کاروں کو اپنی صلاحیتوں کے اظہار کے نئے مواقع مل گئے تھے۔
اسی دوران وزیراعظم گوادر گئے تو آرمی چیف ایئر پورٹ پر ان کے استقبال کے لئے موجود تھے۔ میڈیا سے گفتگو میں بھی وہ وزیراعظم کے بائیں جانب موجود تھے۔ اگلے روز پرائم منسٹر ہاؤس میں نیشنل سکیورٹی کے حوالے سے خصوصی اجلاس میں بھی آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی موجود تھے۔ لیکن افواہ سازی کی فیکٹری چلتی رہی۔
اسی عالم میں یومِ شہداء آگیا اور آنکھیں اور کان آرمی چیف کی طرف لگ گئے۔ اپنے خطاب میں آرمی چیف نے شہداء کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے علاوہ بعض ’’پالیسی امور‘‘ پر بھی اظہار خیال کیا۔ اُنہوں نے کشمیرکو عالمی تنازعہ قرار دیتے ہوئے اسے کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق حل کرنے پر زور دیا۔ دور کی کوڑی لانے والے اس میں بھی سول حکومت سے اختلاف کی کوڑی نکال لائے۔ حالانکہ یہی بات تقریباً انہی الفاظ میں وزیراعظم نوازشریف بھی یو این جنرل اسمبلی کے اجلاس (ستمبر 2013)میں اپنے خطاب میں کہہ چکے تھے جس پر من موہن سنگھ صدر اوباما سے شکایت کئے بغیر نہ رہ سکے۔ طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے بھی آرمی چیف نے اسی مؤقف کا اظہار کیا جو نیشنل سکیورٹی کے حوالے سے پرائم منسٹر کی زیرصدارت حالیہ اجلاس میں طے پایا تھا۔ آرمی چیف نے قائداعظم کے فرمودات کے مطابق، جمہوریت سے یک جہتی اور آئین کی بالادستی تسلیم کرنے کا غیرمبہم اعلان بھی کیا۔ میڈیا کے حوالے سے بھی آرمی چیف کا مؤقف اصولی تھا۔ آزادی کے ساتھ ذمہ داری کے تصور سے کسے اختلاف ہوگا۔ یومِ شہدا پر (جنگ، جیو سمیت) ساری قوم نے اپنے شہداء کو خراجِ تحسین پیش کیا۔ وزیراطلاعات و نشریات نے تو ملک میں جمہوریت، آزاد عدلیہ اور آزاد میڈیا کے حوالے سے بھی سارا کریڈٹ مسلح افواج کی جھولی میں ڈال دیا۔
پرویز بھائی! اس میں کچھ عاجزانہ سا کردار دیگر ’’اسٹیک ہولڈرز ‘‘ کا بھی تو تھا۔ !!