گزشتہ دنوں قومی اسمبلی کے پارلیمنٹری فورم برائے توانائی اور معیشت نے پاکستان انسٹیٹیوٹ آف پارلیمنٹری سروسز (PIPS) اسلام آباد میں آئی پی پیز مذاکرات پر ایک اہم سیمینار منعقد کیا جسکی کنوینر قومی اسمبلی کی رکن ڈاکٹر نفیسہ شاہ اور پارلیمانی سیکریٹری برائے خارجہ امور شزرا منصب علی تھیں جبکہ اسپیکرز میں میرے علاوہ اسٹیٹ بینک کے سابق گورنر شاہد کاردار، وزیراعظم کے معاون خصوصی اور انرجی ٹاسک فورس کے کنوینر محمد علی، حبکو کے سابق CEO خالد منصور اور چائنا تھری گارجز کے سینئر ایڈوائزر این اے زبیری شامل تھے۔ تقریب کی میزبانی کے فرائض رکن قومی اسمبلی شرمیلا فاروقی نے انجام دیئے۔ میں نے اپنی تقریر میں بتایا کہ پاکستان میں بجلی کے نرخ ناقابل برداشت حد تک بڑھائے جاچکے ہیں جس سے بجلی کی کھپت میں بے پناہ کمی ہوئی اور حکومت نے صرف 2023-24ء میں 33آئی پی پیز کو بغیر بجلی خریدے 979ارب روپے کیپسٹی چارجز کی مد میں ادا کئے جس کی وجہ سے پاور سیکٹر کے گردشی قرضے 2655ارب روپے تک پہنچ گئے اور صنعتوں کا ٹیرف 17سینٹ فی یونٹ تک پہنچ گیا جبکہ ہمارے مسابقتی حریفوں کا صنعتی ٹیرف ہم سے آدھا یعنی 8سینٹ فی یونٹ ہے۔ صنعتیں غیر مسابقتی ہونے کی وجہ سے بند ہونا شروع ہوگئی ہیں جس سے ملک میں بیروزگاری میں اضافہ ہورہا ہے۔ اس صورتحال کے پیش نظر میں نے گزشتہ سال آئی پی پیز میں بے ضابطگیوں پر 9 کالمز لکھے، سابق وفاقی وزیر گوہر اعجاز، یو بی جی کے پیٹرن انچیف ایس ایم تنویر کیساتھ فیڈریشن ہائوس کراچی اور اسلام آباد میں پریس کانفرنسز کیں، ملک بھر کے چیمبرز اور ایسوسی ایشنز کے صدور کیساتھ صدر مملکت اور وزیراعظم پاکستان سے ملاقاتیں کیں جسکے نتیجے میں وزیراعظم نے وفاقی وزیر توانائی سردار اویس لغاری اور معاون خصوصی محمد علی کی سربراہی میں آئی پی پیز پر ایک ٹاسک فورس تشکیل دی۔ میں قومی اسمبلی کے اجلاس میں مسلسل آئی پی پیز کے مسائل اٹھاتا رہا اور مجھے خوشی ہے کہ ٹاسک فورس کے آئی پی پیز کے ساتھ مذاکرات حتمی مراحل میں ہیں۔ اطلاعات کے مطابق آئی پی پیز سے 35 ارب روپے جو ناجائز طور پراضافی وصول کئے گئے تھے، واپس لے لئے گئے ہیں جبکہ لیٹ پیمنٹ (LPIS) کی مد میں IPPs کو اب 80 ارب روپے ادا نہیں کئے جائیں گے، 5 بند آئی پی پیز نے رضاکارانہ طور پر معاہدے منسوخ کردیئے ہیں جس سے معاہدے کی بقایا مدت میں حکومت کو 411 ارب روپے کی بچت ہوگی مگر حکومت کو ان کے 71ارب روپے کے کیپسٹی بغیر سود ادا کرنے ہیں۔ قومی اسمبلی میں میرے سوال پر وزیر توانائی اویس لغاری نے بتایا کہ 15آئی پی پیز کے ساتھ مذاکرات کے بعد انہیں کیپسٹی چارجز کے بجائے ٹیک اینڈ پے ماڈل پر منتقل کردیا گیا ہے جبکہ 2 آئی پی پیز نے ٹیک اینڈ پے پر منتقل ہونے کے بجائے فرانزک آڈٹ پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ اسکے علاوہ وفاقی اور پنجاب حکومت کے کوئلے سے چلنے والے بڑے پاور پلانٹس کو 3 سے 5 سال میں مقامی تھر کوئلے پر منتقل کیا جائیگا جبکہ بوگاس سے چلنے والے آئی پی پیز کے پاور ٹیرف بھی کم کئے گئے ہیں۔ ہماری بجلی کی مجموعی پیداوار 43000 میگاواٹ ہے جبکہ کھپت آدھے سے بھی کم 22000میگاواٹ ہے لیکن آئی پی پیز سے کامیاب مذاکرات کے نتیجے میں حکومت کو آئی پی پیز کو کیپسٹی چارجز ادائیگی کی مد میں 1100 ارب روپے کی بچت ہوچکی ہے۔ حکومت 14 آئی پی پیز سے ٹیک اینڈ پے پر معاہدے کابینہ لیکر جارہی ہے جس سے حکومت کو کیپسٹی چارجز کی مد میں 1400 ارب روپے کی بچت ہوگی جسکا فائدہ گھریلو اور صنعتی صارفین کو پہنچایا جاسکتا ہے۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے بھی کراچی میں ممتاز بزنس مینوں اور صنعتکاروں سے 9سینٹ یعنی 26روپے فی یونٹ بجلی کی فراہمی کا وعدہ کیا تھا لیکن وزیر توانائی اویس لغاری نے اعلان کیا ہے کہ حکومت صنعتی صارفین کیلئے بجلی کے نرخوں میں 12روپے اور گھریلو صارفین کیلئے 4روپے فی یونٹ کم کرسکتی ہے حالانکہ انکی خواہش ہے کہ بجلی کے نرخ 50 روپے فی یونٹ کم ہوں۔ انکے مطابق حکومت نے جون 2024ء سے اب تک بجلی کے نرخوں میں 11سے 12روپے فی یونٹ کمی کی ہے۔ کے الیکٹرک آئندہ 5 سے 7سال کیلئے اپنے بجلی کے نرخوں میں 10روپے فی یونٹ اضافے کیلئے حکومت سے معاہدہ کرنا چاہتی تھی جس سے بجلی صارفین کو 550ارب روپے اضافی ادا کرنا پڑتے لیکن حکومت نے کے الیکٹرک کے اس ناجائز مطالبے کو مسترد کردیا ہے۔ بجلی سپلائی کرنیوالی 8 ڈسکوز کمپنیوں کے بورڈ آف ڈائریکٹرز تبدیل کئے جاچکے ہیں اور آئندہ 5مہینے میں بجلی کے ترسیلی نظام کے نقصانات میں خاطر خواہ کمی متوقع ہے۔
3 گھنٹے سے زائد جاری رہنے والے سیمینار کے اختتام پر حکومت کو تجاویز پیش کی گئیں کہ حکومت بجلی بلوں پر عائد ٹیکسز میں کمی کیلئے آئی ایم ایف سے بات کرے اورمسابقتی پیشکش کے ذریعے آئی پی پیز سے بجلی خریدے۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے مشترکہ اجلاس میں، میں نے وزیر توانائی اویس لغاری سے کہا کہ حکومت کے آئی پی پیز سے مذاکرات کے بعد بچائے گئے اربوں روپے سے اگر ہم ملک میں گھریلو اور صنعتی صارفین کو خطے کے دیگر ممالک کی طرح 9 سینٹ یعنی 26روپے فی یونٹ بجلی فراہم نہیں کرسکتے تو میرے نزدیک آئی پی پیز مذاکرات کا اصل مقصد حاصل نہیں ہوسکے گا۔