نیویارک (تجزیہ :عظیم ایم میاں) تنازع کشمیر پر صدر ٹرمپ کے 3خوش کن وعدے؟ ٹرمپ کی جانب سے کشمیر پر ثالثی کے ابتدائی دو وعدوں کے باوجود تنازع برقرار ، بھارت نے کشمیر کی آئینی حیثیت بھی ختم کردی ، جنگ کو دوبار یہ اعزاز حاصل ہوا کہ اس کے سوال پر ٹرمپ نے تنازع کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کی۔ ٹرمپ نے تنازع کشمیر پر اپنی ثالثی خدمات کا پہلا وعدہ نمائندہ جنگ سے گفتگو کے دوران 22جولائی 2019ء میں اُس وقت کے پاکستانی وزیراعظم کے دورے کے موقع پر کیا تھا ، پہلے وعدے کے بعد بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی،تنازع کشمیر بدستور موجود ہے، اسی سال 23؍ ستمبر 2019ء کو ان کے پہلے وعدہ کی یاد دہانی کے جواب میں کشمیر کے تنازع کے بارے میں کچھ کرنے کی یقین دہانی کے باوجود صدر ٹرمپ نے اپنے پہلے چار سالہ دور صدارت میں کوئی سفارتی یا عملی قدم نہیں اٹھایا۔امریکی صدر ٹرمپ کی مسئلہ کشمیر کو حل کرانے کی تیسری مرتبہ پیشکش پر خوشی اور شکریہ ادا کرنے میں محتاط رویہ کی ضرورت ہے کیونکہ صدر ٹرمپ اپنے پہلے دور صدارت اور بھارت میں نریندر مودی حکومت کے دور میں ہی 22؍ جولائی 2019ء کو پہلی بار تنازع کشمیر کو حل کرانے کا پہلا وعدہ بڑے الفاظ میں نہ صرف کرچکے ہیں بلکہ اسی سال 23؍ ستمبر 2019ء کو ان کے پہلے وعدہ کی یاد دہانی کے جواب میں کشمیر کے تنازع کے بارے میں کچھ کرنے کی یقین دہانی کے باوجود صدر ٹرمپ نے اپنے پہلے چار سالہ دور صدارت میں کوئی سفارتی یا عملی قدم نہیں اٹھایا بلکہ دوسری مرتبہ امریکی صدر منتخب ہونے کے بعد گزشتہ چار ماہ میں بھی کوئی زبانی، سفارتی یا عملی قدم نہیں اٹھایا، صدر ٹرمپ کے تنازع کشمیر کو حل کرانے کے ان مذکورہ اعلانیہ وعدوں کی وڈیوز امریکی وہائٹ ہاؤس کے ریکارڈ میں آج بھی محفوظ ہیں۔ اب پاک بھارت جاری غیر اعلانیہ لیکن عملی طور پر چار روز تک جاری جنگ کو رکوانے اور جنگ بندی کرانے کے بعد صدر ٹرمپ نے ایک بار پھر مسئلہ کشمیر حل کرانے میں اپنے کردار کی پیشکش کی ہے اور وزیراعظم شہباز شریف نے صدر ٹرمپ کا شکریہ ادا کیا ہے جبکہ مودی حکومت اور بھارتی میڈیا ماضی کی طرح ایک بار پھر صدر ٹرمپ کے اس بیان پر مشتعل ہو کر ماتم کناں ہیں۔ ہمارے لئے عملی اقدامات سے خالی صدر ٹرمپ کے ان زبانی اور خوش کن وعدوں پر صرف اتنی خوشی ہے کہ صدر ٹرمپ کے ان بیانات نے وقتی طور پر مسئلہ کشمیر کو عالمی میڈیا کی توجہ کا مرکز اور کشمیر پر قابض بھارت اور بھارتی میڈیا کو حیرانی اور غم و غصہ سے دوچار کیا۔ تفصیلات کے مطابق صدر ٹرمپ نے تنازع کشمیر کو حل کرنے میں اپنی ثالثی خدمات کا پہلا وعدہ ادارہ جیو/جنگ/دی نیوز سے وابستہ اس ناچیز صحافی کے سوال کے جواب میں اس وقت کیا تھا جب وہ اس وقت کے پاکستانی وزیراعظم سے وہائٹ ہاؤس کے اوول آفس میں ملاقات کے دوران میڈیا سے بھی مخاطب تھے اور صدر ٹرمپ کے اس جواب کو بنیاد بنا کر پاکستانی وزیراعظم نے پاکستان واپسی پر صدر ٹرمپ کے اس وعدہ پر یہ اعلان کر ڈالا کہ وہ ایک اور ورلڈ کپ لیکرآئے ہیں حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت کے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی سے امریکا میں پاکستانی سفیر ڈاکٹر اسد مجید اور فارن سیکریٹری سہیل خان کی موجودگی میں سوال پوچھنے والے صحافی نے انہیں بعض پس پردہ حقائق کی بنیاد پر عرض کیا تھاکہ وزیراعظم صدر ٹرمپ کے کشمیر کے بارے میں اس بیان کواپنے سیاسی فائدے کیلئے ہرگز استعمال نہ فرمائیں کہ یہ وعدہ محض زبانی ہے مگر ہمارے وزیراعظم نے اس کی پرواہ کئے بغیر اس کا سیاسی استعمال جاری رکھا۔ اسی طرح 23؍ ستمبر 2019ء کو نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنر لاسمبلی کے موقفع پر جب ٹرمپ عمران ملاقات دوبارہ ہوئی تو پھر جنگ/جیو/دی نیوز کے اسی نمائندے نے صدر ٹرمپ سے جب کشمیر کےبارے میں ان کے پہلے وعدہ کے حوالے سے پیشرفت اور ان کے اقدام کے بارے میں جاننے کیلئے سوال اٹھایا تو انہوں نے اپنے وزیرخارجہ مائیک پومپیو، دیگر مشیران اور پاکستانی وزیراعظم کی موجودگی میں جو یقین دہانی اور دیگر ریمارکس دیئے وہ بھی وہائٹ ہاؤس کے آرکائیو کا حصہ ہیں اور کشمیر کا تنازع حل کرنے میں صدر ٹرمپ کے وعدوں کی عملی حقیقت دنیا کے سامنے ہے۔ مسئلہ کشمیر نہ صرف ابھی تک اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق بدستور حل طلب ہے بلکہ صدر ٹرمپ کے 22؍ جولائی 2019ء کو پہلے وعدہ کے صرف 14؍ روز بعد اگست 2019ء کو مقبوضہ کشمیر کی حیثیت ختم کرکے بھارت میں ضم کرکے سات لاکھ بھارتی فوج کے حوالے کردیا جس کےبارے میں صدر ٹرمپ خاموش رہےلہٰذا صدر ٹرمپ نے تنازع کشمیر کو حل کرنے میں مدد کیلئے جو تیسرا اور نیا وعدہ کیا ہے وہ خوشی کا باعث ضرور ہے لیکن اس پر عمل کے بارے میں محتاط اور ٹرمپ کے ماضی کے وعدوں پرنظر رکھنے کی ضرورت ہے۔