• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’امریکا کا سنہرا دَور اب شروع ہوچُکا۔آج کے بعد سے ہمارا مُلک ترقّی کرے گا اور اس کا احترام کیا جائے گا۔‘‘یہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حلف اُٹھانے کے بعد کیے گئے خطاب کے الفاظ ہیں۔ اُنھوں نے اعلان کیا کہ’’مَیں امریکا کو ہمیشہ سب سے پہلے رکھوں گا۔‘‘ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا کے47ویں صدر کا حلف اُٹھانے کے بعد اپنی تقریر میں اُن خدّوخال کی عملی شکل واضح کی، جن کے وہ گزشتہ آٹھ سال سے وعدے کرتے آئے ہیں۔

یہ جہاں اُن کے ووٹرز سے کیے گئے وعدوں کی تجدید تھی، وہیں دنیا کو بھی ایک واضح پیغام دیا گیا کہ آئندہ چار سال وہ امریکا سے کس قسم کی اُمیدیں رکھ سکتی ہے۔ تقریب میں امریکا کے سابق صدور جوبائیڈن، اوباما اور بُش بھی شریک تھے، جن کا تعلق حریف جماعتوں سے ہے، لیکن پھر بھی اہم موقعے پر اکٹھے نظر آئے۔

یہ شرکت امریکی رہنمائوں کے سیاسی تدبّر کی بے مثال عملی شکل تھی، جس نے دنیا کو پیغام دیا کہ امریکی قوم متحد ہے اور اُن میں وہ قومی احساس موجود ہے کہ اختلافات کے باوجود جمہوری سیاست کیسے آگے بڑھائی جاسکتی ہے۔ اُن کے نزدیک امریکا اور اُس کے عوام سب سے مقدّم ہیں۔ صدر ٹرمپ نے اپنی تقریر میں بہت سے اعلانات کیے، جن پر بعدازاں صدارتی احکامات بھی جاری کیے گئے تاکہ فوری عمل کا سلسلہ شروع ہوجائے۔اُنھوں نے غیر قانونی تارکینِ وطن کی بے دخلی کو اپنی پالیسی کا کارنر اسٹون بنایا، اِسی لیے اپنے پہلے حُکم نامے میں لاکھوں غیر قانونی تارکینِ وطن کو نکالنے کے آرڈر پر دست خط کیے۔

اِس فیصلے کے اثرات سب سے پہلے میکسیکو سے آنے والوں پر مرتّب ہوں گے۔صدر ٹرمپ نے پیرس کلائیمیٹ چینج معاہدے سے نکلنے کا اعلان کیا۔ یعنی امریکا میں اب تیل نکالنے کی کُھلی اجازت ہوگی۔ امریکی شہریت کا پیدائشی حق ختم کردیا گیا۔ تجارتی ٹیرف یا ٹیکس بڑھانے کا اعلان کیا اور کہا کہ امریکا ایک مینوفیکچرنگ مُلک بنے گا۔

اُنہوں نے’’خلیج میکسیکو‘‘ کا نام بدل کر’’خلیج امریکا‘‘ رکھ دیا۔ پاناما کینال پر دوبارہ امریکی تسلّط بحال کرنے کا بھی اعلان کیا، جب کہ ٹِک ٹاک کو مزید نوّے دن کی رعایت دے دی، جس پر ایک روز قبل ہی امریکی سپریم کورٹ نے حکومتی پابندی برقرار رکھنے کا فیصلہ دیا تھا۔ اپنے 1600حامیوں کو، جنہیں کیپیٹل ہل حملے پر سزائیں ہوئی تھیں، معافی دے دی۔ صدر ٹرمپ کا اپنی تقریر میں تمام تر فوکس امریکی عوام اور مُلکی معاملات رہا۔ اُنھوں نے عوامی وسائل کو عوام کی فلاح و بہبود کے لیے بروئے کار لانے کی بات کی، جس میں توانائی اوّلیت رکھتی ہے۔

اُنھوں نے ٹیکسز کی کمی، نظامِ صحت میں بہتری، منہگائی میں کمی، روزگار، امریکی دولت اور طاقت میں اضافے اور امن وامان میں بہتری جیسے معاملات پر کُھل کر بات کی۔ صدر ٹرمپ کے مطابق، اِن اقدامات سے عوام خود پر فخر کریں گے اور مُلک ترقّی کرے گا۔ ٹرمپ اب امریکا کے صدر ہیں اور پوری دنیا کے سامنے یہی سوال ہے کہ اُن کا یہ نیا دَور کیسا ہوگا۔

اِس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ اِن میں سے بہت سے اقدامات جیسے شہریت کے پیدائشی حق کے خاتمے اور غیر قانونی تارکینِ وطن کی بے دخلی وغیرہ پر فوری عمل نہیں ہوسکے گا، کیوں کہ اِن پر مقدمے بازی ہوگی۔ اِسی طرح ٹِک ٹاک پر پابندی کے معاملے میں بھی اُنھیں قانونی پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑے گا، لیکن ٹرمپ نے یہ واضح کردیا کہ وہ کوئی لمحہ ضائع کیے بغیر اپنے وعدوں پر عمل کا ارادہ رکھتے ہیں۔

ایک لحاظ سے تو یہ اچھی بات ہے اور کسی پاپولسٹ اور قوم پرست لیڈر سے اسی کی توقّع کی جانی چاہیے، کیوں کہ اُن کی مقبولیت کا دارومدار وعدوں کی تکمیل ہی پر ہے۔ ہاں، لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ یہ صرف بیانات نہ ہوں، بلکہ ان اعلانات پر عمل بھی ہو اور اِس کے لیے ٹیم تیار ہو۔یہ نہ ہو کہ کل صدر یا اُس کی ٹیم چِلّا چِلّا کر عوام سے فریاد کر رہی ہو کہ’’ابھی ہمیں آئے دن ہی کتنے ہوئے ہیں۔‘‘ جیسے ہم جیسے ممالک میں ہوتا ہے کہ الیکشن تو جیسے تیسے جیت لیتے ہیں، لیکن حکومت چَلانے کی کوئی تیاری نہیں ہوتی۔

کبھی ایک کو وزیر بناتے ہیں، کبھی دوسرے کو مشیر۔ امریکا میں نومبر سے جنوری تک نومنتخب صدر کو ہر قسم کی بریفنگز دی جاتی ہیں، اِس لیے وہ معاملات سے لاعلم نہیں ہوتا۔ اُسے اچھی ٹیم بنانے کا بھی موقع مل جاتا ہے۔مین اسٹریم میڈیا روایتی طور پر ٹرمپ مخالف رہا۔ قدم قدم پر اُنہیں تنقید کا سامنا رہا اور رہے گا، لیکن اُنہوں نے ثابت کردیا کہ عوامی اور انتخابی طاقت اُن کے پاس ہے، اِس لیے میڈیا تنقید سے زیادہ کچھ نہیں کرسکے گا۔صدر ٹرمپ پاپولسٹ لیڈرز کے ضمن میں دنیا بَھر کے لیے مثال ہیں۔

وہی پہلی مرتبہ حکومتی پریس ریلیز کی جگہ ٹوئٹر استعمال کرکے اس تیز رفتار ٹیکنالوجی کو سرکاری معاملات میں بروئے کارلائے۔ تاہم، انھیں فالو کرنے سے پہلے یہ ذہن میں ہونا چاہیے کہ امریکا کا صدر دنیا کی سب سے طاقت وَر شخصیت ہوتا ہے۔

اُس کے الفاظ وزن رکھتے ہیں۔ وہ روز بیان بھی نہیں بدلتا۔ نیز، اعلانات پر عمل کے تمام ذرائع بھی اُس کے پاس موجود ہوتے ہیں۔ ٹرمپ نے پہلے ہی دن سے اپنی صدارتی طاقت کے استعمال سے واضح کردیا کہ اب وہ غیر روایتی سیاست دن اور صرف تاجر ہی نہیں، بلکہ منجھے ہوئے حُکم ران اور منتظم بھی ہیں۔

اُن کی پہلی تقریر میں تمام اہم سرکاری شعبوں پر تنقید اور اُن میں اصلاحات کے اشارے موجودتھے، جنہیں اُن کے سب سے قریبی دوست اور دستِ راست، دنیا کے امیر ترین شخص، ایلون مسک’’ایفی شینسی ڈیپارٹمنٹ‘‘ کے نام سے چلائیں گے، جس کا کام حکومتی بیوروکریسی کی نگرانی ہے۔ دوسرے الفاظ میں، ٹرمپ اپنے دَور میں ہر صُورت تبدیلی لانا چاہتے ہیں۔ یہ تبدیلی اندرونِ مُلک ہوگی، تاہم اس کے اثرات بین الاقوامی طور پر بھی نظر آئیں گے۔

اِس صدی میں شاید ہی کسی صدر کے حلف اُٹھانے کا دنیا بَھر میں اِتنی بے چینی سے انتظار کیا گیا ہو، جتنا ٹرمپ کے دوسرے دَور کے آغاز کا کیا گیا، لیکن شاید ہی کوئی امریکی صدر ہو، جس نے اپنی پالیسی تقریرمیں دنیا کا اِتنا کم ذکر کیا ہو، جتنا ٹرمپ نے کیا۔ یقیناً دنیا کو اِس پر مایوسی بھی ہوئی ہوگی، جس میں امریکا کے اتحادی اور مخالفین دونوں ہی شامل ہیں کہ اُنہوں نے سوائے تجارت کے بیرونی ممالک سے تعلقات کا ذکر تک نہیں کیا۔

ویسے تو امریکی صدور کے منشور اور فوکس کا جائزہ لیں، تو وہ عموماً اندرونی معاملات ہی پر توجّہ دیتے ہیں، لیکن دنیا کی امریکا کے سُپر پاور ہونے کی وجہ سے اِس کے سیاسی معاملات میں غیر معمولی دل چسپی ہوتی ہے، کیوں کہ بہرحال ہر عالمی معاملے میں امریکا سامنے نظر آتا ہے۔تنازعات ہوں یا جنگیں، عالمی وبا ہو یا ٹیکنالوجی کے اثرات یا پھر خلائی دوڑ، امریکا ہر جگہ موجود ہے، بلکہ اکثر جگہ فیصلہ کُن اثرات کا حامل ہے۔

مثال کے طور پر غزہ کی جنگ بندی امریکی ثالثی یا دبائو ہی کی وجہ سے ممکن ہوسکی۔ صدر ٹرمپ کہتے رہے ہیں کہ وہ یوکرین اور غزہ کی جنگ اقتدار سنبھالنے کے24 گھنٹوں میں ختم کروا دیں گے۔غزہ میں تو سیز فائر ہوچُکا اور اب معاہدے کی جزئیات پر عمل ہورہا ہے، بجا طور ٹرمپ اِس کا کریڈٹ لے سکتے ہیں۔ 

یوکرین کی جنگ میں اُن کے اتحادی یورپی اور مخالف روس دونوں ہی شامل ہیں۔وہ کہاں تک پیوٹن پر اثر انداز ہوسکتے ہیں، یہ بہرحال دیکھنا ہوگا۔اِس ضمن میں ٹرمپ کے ایک اہم مشیر نے کہا ہے کہ’’وہ پیوٹن کو جنگ بند کرنے کے لیے ٹیلی فون کریں گے، اگر وہ نہ مانے، تو پھر امریکی تیل اور گیس کا سیلاب یورپ کے لیے کھول دیں گے، جس سے روس دیوالیہ ہوجائے گا اور جنگ بند کرنے پر مجبور۔‘‘ یاد رہے، یورپ کی کم زوری روس کی گیس ہی ہے۔

ویسے روسی زبان بولنے والے زیادہ تر علاقوں پر ماسکو کا قبضہ ہے اور دوم، دونوں طرف کی فوجیں بھی اب تھک چُکی ہیں۔اگر ٹرمپ تیزی سے دبائو ڈالتے ہیں، تو اس کے مثبت نتائج نکل سکتے ہیں، لیکن یہ اُن کی ترجیح نہیں۔ 

یہ تو ہم جیسے ممالک کے اہلِ دانش، خاص طور پر پریشر گروپس نے عوام کو یقین دلا رکھا ہے کہ امریکی عوام کو سوائے دوسرے ممالک کے معاملات میں ٹانگ اَڑانے کے اور کوئی کام نہیں، حالاں کہ جن تجزیہ کاروں نے امریکا کا مطالعہ کیا ہے، اُنہیں اندازہ ہے کہ امریکی شاید ہی دنیا سے زیادہ غرض رکھتے ہوں۔ 

ایک تو فاصلہ اس میں حائل ہے، پھر اُنھیں اپنے معیارِ زندگی اور سہولتوں کے علاوہ شاید ہی کسی اور چیز سے دل چسپی ہو۔ اُنھوں نے جنگوں، تنازعات اور دوسرے معاملات اپنے حُکم رانوں اور سیاسی رہنمائوں کے لیے چھوڑ رکھے ہیں، جو صرف اپنے مفادات سامنے رکھ کر فیصلے کرتے ہیں۔ 

پاکستان جیسے ممالک کے عوام، خاص طور پر جو لوگ امریکا کے ہر بیان کو زندگی و موت کا مسئلہ سمجھتے ہیں، اُنھیں یاد رکھنا چاہیے کہ امریکی صدارتی مہم میں کسی امیدوار نے اُن کے کسی رہنما کا ذکر تک کرنے کی زحمت نہیں کی۔ ٹرمپ نے صدر بننے کے بعد جس ایک شخص کا ذکر کیا، وہ پہلے دَور میں اُن کا سب سے بڑا دشمن تھا، یعنی شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ اور وہ بھی بہت ہلکے پُھلکے انداز میں۔لیکن اگر اس کے باوجود بھی کوئی اپنی اہمیت کے سہانے خواب دیکھ رہا ہے، تو اُسے اِس امر سے کون باز رکھ سکتا ہے۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حلف برداری کی تقریب ہو یا کابینہ کی تشکیل، ان معاملات میں جنہیں اہمیت حاصل رہی، وہ امریکا کے کاروباری شخصیات یا ٹیکنالوجی لیڈرز تھے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایلون مسک اُن کی انتظامیہ میں غیر معمولی اختیارات کے حامل ہیں۔ اُن کے ذمّے بیورو کریسی کی نگرانی بھی ہے اور اس کی اصلاحات بھی۔ اب تک کے اعلانات اور اقدامات زیادہ تر اقتصادی معاملات ہی کے اردگرد گھومتے ہیں، تو ظاہر ہے، اِسی شعبے کو زیادہ فعال کیا جائے گا۔

صدر ٹرمپ غیر روایتی ہی نہیں، غیر سرکاری بھی ہیں۔ اُن کے بیانات اور تبصروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ سرکاری نظام کی سُست رفتاری سے سخت شاکی ہیں۔اُنہوں نے بیورو کریسی اور عدلیہ سے متعلق جن خیالات کا اظہار کیا، اُن سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اِن شعبوں کی کارکردگی کو ترقّی کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہیں۔

ٹرمپ سَر تا پاؤں، تاجرانہ سوچ کے مالک ہیں۔ وہ اُن سیاست دانوں میں سے ہیں، جو تجارت اور بزنس کو ترقّی کی بنیاد مانتے ہیں اور یہ کچھ ایسی حیرت کی بات بھی نہیں، کیوں کہ جاپان، چین اور جنوب مشرقی ایشیا کے اکثر چھوٹے ممالک نے یہی سوچ اپنا کر غیر معمولی ترقّی حاصل کی اور اپنے عوام کا معیارِ زندگی بہتر کیا، لیکن ٹرمپ کے ناقدین کا کہنا ہے کہ امریکا سُپر پاور ہے، اسے سیاست، اقتصادیات اور فوجی طاقت کے درمیان ایک خاص توازن رکھنا پڑتا ہے۔

امریکا سُپر پاور ہونے کے سبب دنیا کے ہر معاملے میں ملوّث ہوتا ہے۔سو،محض یہ کہنے سے کام نہیں چل سکتا کہ یہ ہمارا معاملہ نہیں۔اس حوالے سے ایک مثال سامنے رکھیں۔ دنیا جتنا تیل مل کر استعمال کرتی ہے، اُتنا صرف اکیلا امریکا استعمال کرتا ہے۔ اِسی طرح اس کا فوجی بجٹ بھی اُسی تناسب سے زیادہ ہے۔

وہ ٹیکنالوجی کا لیڈر ہے۔ جمہوری نظام پر نہ صرف اُسے فخر ہے، بلکہ وہ اُسے دنیا میں پھیلانا چاہتا ہے، پھر سب سے بڑھ کر وہ مغربی دنیا کا قائد ہے۔ یہ سارے معاملات ایک خاص نظم کے تحت اُس وقت سے چلے آرہے ہیں، جب سے امریکا نے سُپر پاور کا منصب سنبھالا ہے۔ اب یہ کیسے ممکن ہے کہ اِن سب کرداروں کو خیرباد کہہ کر خالص قوم پرستی کو اپنا لیا جائے۔

ٹرمپ اگر اِس راہ پر چلتے ہیں، تو اس کے غیر معمولی نتائج برآمد ہوں گے۔ایک تاجر تو شاید یہ کرسکے، لیکن سُپر پاور کے صدر کے لیے ایسا کرنا ممکن نہ ہوگا۔گزشتہ دَور میں بھی وہ اِسی طرح کی باتیں کرتے تھے، لیکن جب صدارت کی کرسی پر بیٹھے، تو اُنہیں شمالی کوریا سے لے کر مشرقِ وسطیٰ تک کے معاملات میں الجھنا پڑا۔

یہی اِس بات کا جواب ہے کہ آخر دنیا ٹرمپ کے امریکا کے صدر بننے کا اِس قدر شدّت سے انتظار کیوں کرتی رہی۔ دنیا یہ دیکھنا چاہتی ہے کہ ٹرمپ اپنے بیانات اور اب تک کے احکامات سے پہلے امریکا میں کیا تبدیلی لاتے ہیں۔اور پھر عالمی لیڈر ہونے کی وجہ سے اُس کے باقی دنیا پر کیا اثرات مرتّب ہو سکتے ہیں اور ان میں امریکا کے اتحادی، مخالف اور دشمن، سب ہی شامل ہیں۔

گزشتہ دَور میں بھی ٹرمپ نے افغانستان، مشرقِ وسطیٰ اور شمالی کوریا کے معاملات دیکھے، اب بھی اُنہیں ایسا ہی کرنا پڑے گا۔ ہاں، یہ ضرور ہے کہ ٹرمپ پہلے امریکا کو اپنی پالیسی کے تحت چلانا چاہتے ہیں، لیکن بہرکیف، اُنہیں ہر صُورت ایک’’سُپر پاور‘‘ کے صدر کی حیثیت سے دنیا اور عالمی امور میں بھی اپنا اہم کردار ادا کرنا پڑے گا۔