احسان کا بدلہ احسان سے تو کیا ملتا، افغانستان کی عبوری طالبان حکومت نے پاکستان کے خلاف باقاعدہ جارحانہ فوجی کارروائیاں شروع کر دی ہیں اور اختلافات کو ایسی صُورت دے دی ہے کہ لگتا ہے، کوئی پرانی دشمنیاں نکال رہے ہیں، حالاں کہ پاکستانی قوم نے اُنہیں جس طرح پالا پوسا، پروان چڑھایا، ایسے تو کوئی اپنے سگے بہن، بھائیوں کا بھی خیال نہیں رکھتا، مگر اُنھوں نے اِس احسان کا بدلہ یوں دیا کہ پاکستان کے دشمنوں کو اپنی پناہ میں رکھ کر کُھلے عام دہشت گردی کی اجازت دے دی۔
طالبان حکومت کبھی اسے ڈیورنڈ لائن سے جوڑتی ہے، تو کبھی واخان پٹّی سے اور کبھی اپنے وہ احسانات گنواتی ہے، جو شاید اُنہوں نے ہم پر خوابوں ہی میں کیے ہیں۔پاکستان کے وہ رہنما اور اہلِ دانش، جو پہلی اور دوسری افغان وار میں انھیں’’ ہیرو‘‘ قرار دے رہے تھے، اگر آج زندہ ہوتے، تو اُنہیں اندازہ ہوتا کہ وہ اپنی نسلوں کے لیے کیا’’آزمائش‘‘ چھوڑ گئے ہیں۔ اب تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ جو بویا تھا، وہ کا ٹ رہے ہیں۔
گزشتہ سالوں میں مغربی بارڈر پر، افغان سر زمین سے پاکستانی چوکیوں پر تسلسل سے حملے ہوتے رہے۔ واخان پٹی، جو انتہائی حسّاس اور سنجیدہ نوعیت کی گزرگاہ ہے، اُسے بھی اِن حملوں کے لیے استعمال کیا گیا۔خوارج (تحریکِ طالبان پاکستان) کی بڑھتی دہشت گردی کو اِسی’’برادر پڑوسی‘‘حکومت کی حمایت حاصل ہے کہ حملہ آور وہیں پناہ لیے ہوئے ہیں۔
طالبان حکومت نے حالیہ دنوں میں بھارت سے تعلقات بڑھانے کے لیے خاصی پیش قدمی کی تاکہ پاکستان پر دباؤ بڑھایا جاسکے اور اِس اقدام سے ایسا گمان ہو، جیسے پاکستان چاروں اطراف سے دشمنوں میں گِھرا ہوا ہے۔گزشتہ دنوں پاک فوج کے سربراہ، جنرل عاصم منیر نے واضح پیغام دیا کہ اب اس قسم کی ہر کارروائی ناکام ہوگی۔
اُنہوں نے مزید کہا کہ’’ امن خراب کرنے کی ہر کوشش کا فیصلہ کُن اور بھرپور جواب دیا جائے گا۔سرحد کے اندر اور باہر، شیطانی قوّتوں کے خلاف متحد ہیں۔سرحدوں کے اندر اور باہر دہشت گرد تنظیموں کے خلاف آپریشن کرکے اُن کی صلاحیتوں کو کام یابی سے کم کردیا ہے۔
مُلک میں سرگرم اہم دہشت گرد رہنماؤں کا خاتمہ، ان کے نیٹ ورک اور انفرا اسٹرکچر کو تباہ کرکے بتادیا کہ ہمارے مُلک میں دہشت گردی کی کوئی جگہ نہیں۔ یہ جنگ جاری رہے گی اور ہم اسے منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔‘‘ دنیا بَھر کے فوجی ماہرین متفّق ہیں کہ اِس قسم کی اسٹریٹیجی دہشت گردی کا قلع قمع کرنے میں ہمیشہ کام یاب رہی ہے۔ دہشت گرد تنظیموں کی لیڈر شپ کی ہلاکت سے اُن کا مورال ڈاؤن ہوتا ہے اور وہ بکھرنے لگتی ہیں۔
طالبان کی عبوری حکومت کو آج تک کسی مُلک نے اِسی لیے تسلیم نہیں کیا کہ وہ دوحا معاہدے میں شامل اہم شرائط پر عمل درآمد کے لیے تیار نہیں۔دوحا معاہدے میں کہا گیا تھا کہ افغان سر زمین دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دی جائے گی، مگر اپنے محسن، پاکستان پر تواتر سے حملے اور حملہ آوروں کو افغانستان میں پناہ دینا، اِس وعدے کی کُھلی خلاف ورزی ہے۔ پھر جس طرح اُنہوں نے خواتین اور لڑکیوں پر تعلیم کے دروازے بند کیے، اُس نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی۔ پاکستان، طالبان حکومت اور اُس کی پناہ میں موجود دہشت گردوں کی کارروائیوں کا منہ توڑ جواب دے رہا ہے۔
مغربی سرحد اب پوری طرح گرم ہوچُکی ہے۔ کچھ لوگوں کی طالبان کے افغانستان پر تسلّط سے بہت سی اُمیدیں وابستہ تھیں۔اُن کے حق میں دھرنے دیئے جاتے تھے، لیکن اب یقیناً اُن کی آنکھیں کُھل گئی ہوں گی۔ کیا واقعی طالبان کی جیت ہماری یا افغان عوام کی جیت تھی؟ اِس سوال کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے، کیوں کہ ایسے ہی سوالات اب خود افغان بھی کرتے نظر آتے ہیں کہ اُنھیں امریکا کی واپسی کے بعد، امن اور خوش گوار زندگی کا پیغام نہیں ملا۔
بہت سے عالمی فوجی ماہرین کی رائے ہے کہ افغانستان پِھر سے دہشت گرد تنظیموں کا گڑھ بنتا جا رہا ہے اور یہ امر نہ صرف اس کے پڑوسیوں کے لیے تشویش کا باعث ہے، بلکہ خود اُن کے لیے بھی اچھا نہیں۔ اُنھیں یہی مشورہ دیا جا رہا ہے کہ وہ دوسرے ممالک کے معاملات میں ٹانگ اَڑانے کی بجائے اپنے عوام کی زندگی بہتر بنانے کی طرف توجّہ دیں، جو گزشتہ پچاس سالوں سے خون ریزی کے عذاب میں مبتلا ہیں۔
جن اقوام نے سو، سو سال دشمنیاں اور مسلسل جنگیں کیں، وہ بھی اب اس سے توبہ تائب ہو چُکی ہیں اور اپنے عوام کو ایک پُرامن، خوش حال معاشرہ دینے میں مصروف ہیں۔ اُنہیں پتا چل چُکا ہے کہ ترقّی اور عوامی خوش حالی ہی اصل حُکم رانی اور عظمت کی نشانی ہے، جب کہ جنگ قوموں کو سو، سو سال پیچھے دھکیل دیتی ہے۔ لیکن اِس سب کچھ کے باوجود، اگر کوئی قوم پس ماندگی ہی کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لے، اس پر فخر کرے، تو اُس کا کیا علاج ہوسکتا ہے۔ چین نے ثابت کردیا کہ مارشل قوموں کا فلسفہ فرسودہ ہوچُکا ہے اور اب اقتصادی برتری کا دَور ہے۔
پاکستان کے دو صوبے،خیبر پختون خوا اور بلوچستان، افغان سرحد سے ملحق ہیں، جب کہ وسط ایشیا کے درمیان ایک کوریڈور یا پٹّی، واخان کے نام سے ہے، جو پاکستان، افغانستان، تاجکستان اور چین کو آپس میں ملاتی ہے، یہاں بھی پاک فوج کی دشمن سے جھڑپیں ہوئی ہیں۔ سوویت یونین نے جب افغانستان پر چڑھائی کی، تو واخان کا ذکر عام ہوا۔ کہا جاتا تھا کہ روس گرم پانیوں (سمندر) تک پہنچنے کے لیے اِس پٹّی پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔
افغان سرزمین سے پاکستان کے خلاف سب سے زیادہ فوجی کارروائیاں اِنہی تین مقامات سے ہو رہی ہیں۔ خیبر پختون خوا کو درّۂ خیبر افغانستان سے ملاتا ہے اور یہ سب سے بڑا تجارتی راستہ بھی ہے۔ اس کے قریب بڑا شہر، پشاور ہے، جو صوبہ کے پی کے کا دارالحکومت ہے۔ یہ صوبہ نصف صدی سے افغان شورش کے منفی اثرات کی لپیٹ میں ہے اور اِس صوبے کی پس ماندگی کی بڑی وجہ بھی یہی ہے۔ جب کہ بلوچستان میں چمن کے ذریعے افغانستان سے مال آتا، جاتا ہے، اِسی لیے جب بھی چمن اور طورخم بارڈر پر کوئی گڑبڑ ہوتی ہے، تو دونوں اطراف کی تجارت بند ہوجاتی ہے۔
یہاں یہ بھی بتاتے چلیں کہ افغانستان ایک لینڈ لاکڈ مُلک ہے، یعنی اس کے پاس سمندر سے تجارت کا کوئی راستہ نہیں اور اس کی زیادہ تر تجارت کراچی بندرگاہ سے ہوتی رہی ہے۔ پاکستان کا افغان قوم پر یہ بھی احسان ہے کہ حالات خواہ کیسے بھی رہے ہوں، اس نے افغان شہریوں کو اِس سہولت سے کبھی محروم نہیں کیا، اِسی لیے افغانستان میں کبھی مال و اسباب کی قلّت نہیں ہوئی۔
سابق افغان صدر، حامد کرزئی کے زمانے میں مودی، کرزئی اور ایرانی صدر حسن روحانی نے ایک سہہ فریقی معاہدہ کیا تھا، جس کے تحت ایرانی پورٹ، چا بہار سے کابل تک سات سو میل لمبی شاہ راہ تعمیر کی گئی تاکہ بھارت سے سامان کابل تک پہنچانے کا متبادل راستہ فراہم ہو۔ اب اس سہہ فریقی راہ داری کا استعمال شروع ہوچُکا ہے اور اطلاعات کے مطابق ایک ٹرین رُوٹ بھی زیرِ تعمیر ہے۔
جو تجزیہ کار اب بھارت، افغان تعلقات کا انکشاف کر رہے ہیں، شاید اُنہیں معلوم نہیں تھا کہ اِس کی بنیاد چابہار شاہ راہ کی صُورت پہلے ہی پڑ چُکی تھی۔ مشکل یہ ہے کہ ہمارے لوگ، ماہرین اور حکومتی نمایندے ایک تو پڑھتے نہیں اور پھر وقت گزرنے کے بعد جاگتے ہیں۔ ویسے جغرافیائی طور پر چا بہار، گوادر پورٹ کے بالکل متوازی ہے۔وہ کہتے ہیں ناں کہ’’اَب پَچھتائے کیا ہُوت، جب چِڑیاں چُگ گئیں کِھیت‘‘ اور یاد رہے، جو کھیت چڑیوں نے چُگا، وہ ایک لہلہاتا ہوا کھیت تھا۔
خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں سیکڑوں افراد شہید ہوچُکے ہیں، جن میں عام شہریوں کے ساتھ، سیکوریٹی اہل کاروں کی بھی بڑی تعداد شامل ہے۔ طالبان کی فتح اور امریکی فوجیوں کی واپسی کے بعد اُس وقت کے وزیرِ اعظم، عمران خان نے پچاس ہزار طالبان کو واپس پاکستان آنے کی اجازت دی۔ ہمارے وزیرِ اعظم نے کابل پر طالبان کے تسلّط پر یہ بھی فرمایا کہ’’طالبان نے غلامی کی زنجیریں توڑ ڈالیں۔‘‘ذرا تو صبر کر لیا ہوتا، دیکھ لیا ہوتا کہ یہ آزادی پاکستانی قوم پر کس نوعیت کے اثرات مرتّب کرے گی۔
پچاس ہزار طالبان کی آبادکاری سے متعلق تو اُس وقت کے وزیرِ اعظم اور اُن کی رہنمائی کرنے والے حکّام ہی بہتر طور پر بتا سکتے ہیں، لیکن اِتنا تو کیا جاسکتا تھا کہ کم ازکم اِس کے بدلے افغان پناہ گزیں واپس بھجوا دئیے جاتے، جو خود حکومت کے مطابق، دہشت گردی کی سہولت کاری کا حصّہ ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ افغانستان کی ہر بات برادر اور پڑوسی ہونے کا جواز بنا کر تسلیم کر لی گئی۔
انھیں سوویت یونین سے لے کر امریکا تک کے خلاف بھرپور فوجی، مالی، سیاسی اور انسانی مدد دی گئی۔70 لاکھ پناہ گزینوں کا بوجھ کسی قومی بحث مباحثے کے بغیر برداشت کر لیا گیا۔ صرف اِتنا کہا گیا کہ’’دونوں جانب پختون قبائل رہتے ہیں، ان کا خیال رکھنا ضروری ہے۔‘‘ تو کیا کسی دوسرے مُلک میں تقسیم شدہ قبائل نہیں رہتے۔ کُرد مسلمان تُرکیہ، عراق، ایران اور شام میں تقسیم ہیں۔ فلسطینی اردن، مصر، غزہ اور فلسطینی اتھارٹی کے ماتحت علاقوں میں رہتے ہیں۔ یہ تو مسلمانوں کی مثالیں ہیں، غیر مسلم ممالک کی تعداد تو بہت زیادہ ہے۔
روسی زبان بولنے والے جرمنی میں بڑی تعداد میں آباد ہیں، جب کہ یوکرین میں بھی روسی زبان بولنے والے رہتے ہیں۔ ایک تحقیق بتاتی ہے کہ پاکستان اور افغانستان میں صرف دو ایسے قبائل ہیں، جو سرحد کے دونوں اطراف رہتے ہیں۔ افغان جنگوں کے درمیان افغان پناہ گزینوں کو خیبر سے کراچی تک بلا روک ٹوک آنے جانے کی اجازت دی گئی۔ شاید اِتنی آزادی تو انھیں اُن کے اپنے مُلک میں بھی حاصل نہ تھی کہ وہ ہیروئن اور کلاشن کوف کلچر عام کرتے رہے۔ظاہر شاہ کا دورِ حکومت سامنے کی بات ہے، جو ایک مکمل بادشاہت تھی اور وہ بھی روسی ساختہ۔
وہ حکومت پہلے دن ہی سے پاکستان کے خلاف تھی۔ہمارے ہاں افغان پناہ گزینوں کو تنظیمیں تک بنانے کی اجازت تھی۔ ان افغانیوں کے رہنما، جو آج طالبان حکومت میں اہم عُہدوں پر ہیں، ہمارے ہاں معزّز مہمان ٹھہرے۔ کرزئی صاحب پاکستان میں ڈاکٹری کرتے، جب کہ موجودہ سربراہ مُلّا ہیبت اللہ بھی ہمارے مہمان رہے۔ ملّا عُمر نے اسامہ اور القاعدہ کو پناہ دی، مگر پاکستان کے چوبیس کروڑ عوام آج تک ساری دنیا میں دہشت گردی کا الزام بُھگت رہے ہیں۔
ہم نے بردار، بھائی چارے اور جیو اسٹریٹیجک ڈیپتھ کے فرضی، مَن گھرٹ قصّوں کی بنیاد پر ایسی افغان جنگوں میں حصّہ لیا، جن کا ہم سے کچھ لینا دینا نہیں تھا۔ جانے خارجہ امور کے وہ کون سے بقراط تھے، جنہوں نے بغیر سوچے سمجھے پاکستانیوں کو افغان جنگوں میں جھونک دیا اور آج تک قوم غربت اور قرضوں کی چکّی میں پِسنے پر مجبور ہے۔
پاکستانیوں کو غیر ممالک جانے کے لیے ویزے نہیں ملتے، جب کہ افغان شہری آسانی سے اسائلم حاصل کر لیتے ہیں۔ روسی آج تک یہی کہتے ہیں کہ اُن کے خلاف جنگ مجاہدین یا طالبان نے نہیں، بلکہ پاکستانیوں نے جیتی اور وہ ہر موقعے پر پاکستان کو اس کی سزا بھی دیتے ہیں۔
پُلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چُکا ہے اور ہمارے عوام بھی اچھی طرح جان چُکے ہیں کہ وہ کہاں کھڑے ہیں، ہمارا دنیا میں کیا مقام ہے اور پچاس سالہ افغان ایڈوینچر نے ہمیں کیا سے کیا بنا دیا۔ اگر ہم اب بھی اپنی آنکھیں کھول لیں، فرضی مسلم بلاکس اور بے پر کی علاقائی تنظیموں کے جھانسے سے نکل جائیں، تو یہ سب کے لیے اچھا ہوگا۔
دوسروں سے تعاون ضرور کریں، لیکن اپنے مُلک کے مفاد میں۔ چین نے بھی تو شنگھائی فورم اور برکس بینک جیسی تنظیمیں بنائی ہیں، لیکن اس کے لیے پہلے اقتصادی طاقت تو حاصل کریں، فرضی نظریات اور ماضی کے قصّوں سے تاریخی فِکشن تو لکھے جاسکتے ہیں، لیکن قوموں کی تقدیر نہیں بدلی جاسکتی۔
پاکستان کو اپنی سمت سیدھی کرنی ہوگی اور وہ سمت ترقّی اور غیر جانب داری کی ہے۔ دو تین بڑے ممالک اِس خطّے میں موجود ہیں، تو اُنھیں ہی علاقائی معاملات حل کرنے دیں کہ اُن کے پاس طاقت بھی ہے اور مالی وسائل بھی۔ کتنی عجیب بات ہے کہ تین سال سے افغان عبوری حکومت کے پاس سرمایہ ہے اور نہ ہی کوئی نظامِ حکومت۔ وہاں کے عوام سردی میں ٹھٹھر ٹھٹھر کر مر جاتے ہیں، لیکن کوئی عالمی تو کیا، علاقائی مُلک بھی اس عبوری حکومت اور افغان شہریوں کی مدد کو تیار نہیں۔
آج افغانستان کا شمار دنیا کے تین سب سے غریب اور پس ماندہ ممالک میں ہوتا ہے، لیکن بعض پاکستانی ماہرِ مالیات اُس کی کرنسی کی مضبوطی کی جھوٹی کہانیوں سے یہاں کے لوگوں کو فریب دیتے ہیں۔ سب سے زیادہ لوگ افغانستان میں غربت کی لکیر سے نیچے ہیں، لیکن ہمیں پڑھایا اور بتایا جاتا ہے کہ یہ کبھی شکست نہ کھانے والی قوم ہے۔
ہماری غریب الوطنی اور احساسِ کم تری کی حالت تو یہ ہے کہ اُن کے ہر بادشاہ کو اپنا ہیرو بنایا ہوا ہے۔ کیا ہمارے رہبر صرف مطلق العنان بادشاہ ہیں اوراِس ضمن میں اہلِ دانش، فلسفیوں، سائنس دانوں، شعراء، ادیبوں اور مؤرخین وغیرہ کی کوئی گنجائش نہیں؟ ہمیں اب خواب سے بے دار ہو ہی جانا چاہیے۔ اپنی قومی شناخت خود بنائیں تاکہ اقوامِ عالم میں کوئی مقام ملے۔