وقت وقت کی بات ہے۔ وہ علی امین گنڈا پور کہ کل جس کی ہر الٹی سیدھی بات کو بانی پی ٹی آئی اون کیا کرتے تھےاور یہ بھی کہتے تھے کہ وزیر اعلیٰ کے پی علی امین گنڈا پور جوبھی بات کرتے ہیں یا جو بھی قدم اٹھاتے ہیں اس کو ان کی تائید وحمایت حاصل ہے اور ان کے اقدامات وبیانات بانی کی ہدایت کے مطابق ہیں۔ لیکن آج وہی بانی پی ٹی آئی اسی علی امین کے مخالفین کوسامنے لے آئے ہیں، ان کو پی ٹی آئی کی صوبائی صدارت سے اچانک اور ہتک آمیز طریقہ سے محروم کردیاگیا اور جنیداکبر خان کو پی ٹی آئی کی صوبائی صدارت سونپ دی گئی۔ ضلع مالا کنڈ کے قصبہ تھانہ سے تعلق رکھنے والے جنید اکبراگرچہ پی ٹی آئی کے پرانے کارکن اور دوبار رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے اس وقت بھی وہ پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی ہیں۔ ابھی ایک ہفتہ قبل بانی پی ٹی آئی کی ہدایت پر شیخ وقاص کا نام فہرست سے نکال کر جنید اکبر کانام پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیئرمین کے لئے شامل کیا گیا اور وہ متفقہ طور پر بلا مقابلہ اس کمیٹی کے چیئرمین منتخب ہوگئے۔ صرف یہی نہیں بلکہ ابھی دودن قبل ان کو پی ٹی آئی کے پی کا صوبائی صدر بھی بنادیا گیا۔
اس تبدیلی کے کیا محرکات ہیں اور آگے علی امین گنڈا پور کے مستقبل کے بارے میںکیا فیصلے کئے گئے ہیں، پنجاب میں پی ٹی آئی میں کیا تبدیلیاں ہونےوالی ہیں یہ جاننے کے لئے پی ٹی آئی کا ہرکارکن بیتاب ہے۔ پارٹی عہدیداران اور کارکنان پی ٹی آئی کے مستقبل اور انجام بارے شدید بے چینی اور بے یقینی کا شکار ہیں۔ ذرائع کے مطابق علی امین گنڈا پور اب وزیر اعلیٰ بھی نہیں رہیں گے۔ وزارت اعلیٰ اب ڈی آئی خان سے کسی بھی وقت مردان شفٹ ہونیوالی ہے اور اس کے بعد علی امین کے لئے بہت مشکلات ہونگی۔ سیاسی طور پر بے عہدہ ہونے کےبعد سیاستدانوں کو بے کار پرزہ سمجھا جاتا ہے۔ اب آتے ہیں ان محرکات کی طرف جو علی امین گنڈا پور کے زوال کے سبب بنے۔ کہتے ہیں کہ انسان کو اپنی اوقات میں رہنا چاہئے خاص طور پر سیاستدان کوتو بہت محتاط طریقہ سے چلنے اور حالات کو بھانپنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ پارٹی کی ہدایات اور فیصلے اگرچہ بہت اہم ہوتے ہیں لیکن کچھ فیصلے قدرت کے بھی ہوتے ہیں اور وہی اصل اور پکے فیصلے ہوتے ہیں لیکن شواہد سے نظر آیا کہ علی امین نہ صرف ان صلاحیتوں سے محروم تھے بلکہ وہ بانی پی ٹی آئی پر اتنا یقین واعتماد کیا کرتے تھے کہ ان کی ہر بات کو درست سمجھتے تھے۔
علی امین گنڈا پور نہایت جذباتی انسان ہیں۔ وہ اس خوش فہمی میں بھی مبتلا رہے کہ بانی ہمیشہ ان کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔ یہی ان کی بنیادی غلطی تھی کیونکہ بانی پی ٹی آئی کا مزاج ہے کہ وہ زیادہ عرصہ کسی کو برداشت نہیں کرتے بہ الفاظ دیگر وہ منزل تک ساتھ دینے والوں میں شامل نہیں ہیں۔ بانی کے مزاج میںیہ بطور اہم عنصر شامل ہے کہ ذرا سی بھی کوئی بات یا امکان ان کے مفادات کے یا مرضی کے خلاف ہو وہ انتہائی قریبی ساتھی کی بھی قربانی دینے میں دریغ بالکل نہیں کرتے، اس کی کئی مثالیں سب کے سامنے ہیں۔ علی امین کو یہ بات بھی بالکل سمجھ نہیں آئی کہ بانی کے علاوہ پی ٹی آئی میں طاقت کا محور کوئی اور ہے۔ سوچ اور مشورے کسی اور کے ہوتے ہیں ۔بانی پی ٹی آئی بہ لحاظ عہدہ ان مشوروں کو عملی جامہ پہناتے ہیں۔ بانی کو یہ اختیار ہے کہ وہ کسی مشورے کو چاہیں تو رد کرسکتے ہیں لیکن وہ ایسا کر نہیں سکتے ،چاہے نتیجہ کچھ بھی نکلے یعنی ایک گروپ ایسا ہے کہ پارٹی میں صرف اسی کا طوطی بولتا ہے۔
مبینہ طور پر پی ٹی آئی کی طاقتور ترین شخصیت کے ساتھ علی امین نے بگاڑ کررکھی، یہی ان کی واحد غلطی تھی جس کا مخالفین نے فائدہ اٹھایا اور اس شخصیت کے قریب ہوئے۔ ذرائع کے مطابق دوتین دن قبل ان لوگوں نے بانی سے جیل میں ’’خصوصی‘‘ ملاقات کی جس کا پارٹی کی موجودہ بے چاری قیادت کو بھی بعد میں معلوم ہوا۔ علی امین کے مخالفین پر مشتمل اس وفد کو مبینہ طور پر’’ کسی‘‘ کے مشورے پربانی نے خود بلایا تھا۔ ذرائع کے مطابق اس وفد نے بانی کو دیگر باتوں کے علاوہ یہ بھی بتایا کہ بشریٰ بی بی کی حالیہ گرفتاری پر سی ایم ہاؤس میں باقاعدہ خوشی منائی گئی۔ یہ تو خدا بہتر جانتا ہے کہ اس میں کتنی حقیقت ہے لیکن ذرائع اس پر مصر ضرور ہیں۔ بہرحال اس ملاقات میں بہت سارے معاملات طے ہوچکے ہیں۔ صوبائی صدارت کا فیصلہ توسامنے آگیا ہے اب نہ صرف صوبائی جنرل سیکرٹری بلکہ کئی عہدیدار تبدیل ہونے والے ہیں ساتھ ہی وزیر اعلیٰ کی تبدیلی بھی یقینی او ر جلد ہونا بتایا گیا ہے اور اس عہدے کیلئےمردان سے انتخاب بھی ہوچکا ہے۔
پنجاب میں بھی تمام صوبائی قیادت کو تبدیل کیا جارہا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ علیمہ خان وہ اہمیت حاصل کرنے میں مکمل ناکام ہوگئی ہیں جس کا چند دن پہلے تک نہ صرف خود ان کو بلکہ ان کے گروپ کو خوش فہمی تھی۔ جس طرح کے پی میں ان کو اور ان کے گروپ کو ناکامی ہوئی اسی طرح پنجاب میں ان کو اور ان کے گروپ کو بری طرح ناکامی کاسامنا ہونےوالا ہے۔ بس ایک ہی شخصیت ہے وہی پارٹی میں طاقت کا سرچشمہ ہے جس کے کہنے کو رد نہیں کیا جاتا باقی کسی کو غلط فہمی اور کسی کو خوش فہمی تواس کی مرضی۔