تمام آبی دھاروں کی طرح تاریخ کے بھی دو کنارے ہوتے ہیں۔ سیاسی شعور جانچنے کا پیمانہ یہ ہے کہ وقت کے کس نقطے پر ہم نے تاریخ کے دریا کے کس کنارے کا انتخاب کیا۔ یہ رائے لمحہ موجود کے سیاسی، معاشی اور تمدنی تضادات کی روشنی میں قائم کی جاتی ہے لیکن اس رائے کے درست یا غلط ہونے کی ذمہ داری خود تاریخ نے اٹھا رکھی ہے۔ پچھلے پچیس برس دیکھ لیجیے۔ ہر آمریت نئے سرے سے پہیہ بنانے کا اعلان کرتی ہے۔ دمِ رخصت اس بوسیدہ کمبل میں اتنے سوراخ نمودار ہو جاتے ہیں کہ اسے اوڑھنے سے سردی سے بچائو ہوتا ہے اور نہ جلتے سورج کی تپش سے پناہ ملتی ہے چنانچہ اگلی آمریت عوام کی مایوسی پر امید کا چھینٹا دینے کے لیے نیا چولا پہنے نمودار ہوتی ہے۔ ضیا آمریت نے مذہبی نظام حکومت کے مفروضات اس بری طرح بے نقاب کیے کہ پرویز مشرف اپنی آغوش میں کتے کے دو پلے اٹھائے نمودار ہوئے۔ ضیا آمریت سے نفرت میں سلگنے والے یہ بھول گئے کہ آمریت کو پارسائی یا روشن خیالی سے غرض نہیں ہوتی۔ آمریت ہر روپ میں قوم کے خلاف بدترین جرم ہوتی ہے۔ اکتوبر 2002 ء تک مشرف آمریت کی روشن خیالی کا پانی اتر چکا تھا اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ مذہبی سیاستدان بڑی تعداد میں پارلیمنٹ میں پہنچ چکے تھے۔ مشرف نے مسلم لیگ نواز سے مسلم لیگ قاف اور پیپلز پارٹی سے پیٹریاٹ برآمد کیں۔ ان خود کاشتہ جماعتوں میں جانے والے آج بھی ہمارے اردگرد موجود ہیں اور تاریخ کا فیصلہ بھی موجود ہے۔ بظاہر نائن الیون میںپاکستان کی ریاست یا اس کا کوئی شہری براہ راست شریک نہیں تھے لیکن اہل نظر جانتے تھے کہ دہشت گردی کے نقش پا کس سمت جا رہے ہیں۔ پرویز مشرف ایک طرف دہشت گردی کی مخالفت کر رہے تھے، دوسری طرف قندوز سے تورا بورا تک وہ کھیل کھیلا جا رہا تھا جس کا بنیادی اصول یہ ہے کہ ’اگر آپ بیک وقت دو گھوڑوں پر سواری نہیں کر سکتے تو آپ کو میدان میں نہیں اترنا چاہیے‘۔ یہ پامال اصول دہرانے والے نہیں جانتے تھے کہ دو گھوڑوں پر بیک وقت سواری کے لیے گرہ میںکچھ مال بھی درکار ہوتا ہے ۔ تیس برس تک افغان لڑاکوں کو جہاد کی تربیت دینے والے خود بھی ذہنی کایا کلپ کا شکار ہو چکے تھے۔ برطانوی ہند میں سرکاری اہلکاروں کو 1925 ء میں بائیں بازو سے نفرت کا سبق سکھایا گیا تھا۔ ایک صدی بعد بھی سرکاری ذہن بائیں بازو کو تخریب کار اور قدامت پسند ذہن کو قابل اعتماد مخبر سمجھتا ہے۔ پرویز مشرف کی دوغلی پالیسی میں طالبان دوستی کو درس گاہ، ذرائع ابلاغ اور سرکاری اہلکاروں میں غالب حیثیت حاصل تھی۔
اس دوران مشرف آمریت اس موڑ تک پہنچ گئی جہاں آمر کی ذات ادارے پر بوجھ بن جایا کرتی ہے۔ یہیں سے اسلام آباد کی لال مسجد اور عدلیہ کی تحریک شروع ہوئی۔ میثاق جمہوریت کو بینظیر بھٹو کی شہادت سے سبوتاژ کیا گیا۔ عوام پر ریاست کی بالادستی کے اس کتابچے سے گرد جھاڑی گئی جس میں لکھا تھا کہ فروری 1959 ء کے موعودہ انتخابات کے نتیجے میں سیاسی قوتیں غیر جمہوری قوتوں کی دس سالہ محنت برباد کر دیں گی۔ اسی کتابچے سے 1988 ء میں جمہوری قوتوں کو کمزور کرنے کے لیے تیسری قوت کھڑی کرنے کی فال نکالی گئی تھی۔ آپ کو یاد ہو گا کہ تیسری قوت کا نعرہ طاہر القادری اور قاضی حسین احمد نے لگایا تھا۔ ننکانہ کے اعجاز شاہ تسلیم کرتے ہیں کہ 2008 ء کے تیار شدہ انتخابی نتائج میں بینظیر بھٹو کی شہادت نے کھنڈت ڈالی تھی۔ ایک بار پھر تیسری قوت کی آبیاری شروع ہوئی۔ 2008ء کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کی پنجاب حکومت تو محترمہ بینظیر اور پھر آصف زرداری کی پیش رفت کا نتیجہ تھی۔ تاہم آزاد عدلیہ کی منجنیق سے بھوربن معاہدہ منہدم ہو گیا۔ ایک حکومت کیری لوگر بل اور میموگیٹ کے گھاٹ اتاری گئی اور دوسری کو 2014 ء کے دھرنے، پانامہ گیٹ اور ڈان لیکس کے ذریعے بے دست و پا کیا گیا۔ آج کل صحافی عبدالخبیر فارم 47 کے طعنے دیتا ہے۔ یہ وہی فارم 47 ہے جس کے مشتبہ نمونے خبیر صاحب 8 فروری 2024ء کی رات گود میں رکھے ہر نیا نتیجہ آنے کے بعد ٹیپ کا مصرع دہراتے تھے ’میرے پاس لیکن خبر کچھ اور ہے‘۔ مولوی صاحب کے پاس واقعی خبر کچھ اور تھی اور خبر یہ تھی کہ 2018ء میں آر ٹی ایس کا انہدام تو پوری قوم نے دیکھا تھا۔ 2024ء میں فارم 45 اور 47 کا منتر چلے گا۔ کسی نے نہیں پوچھا 45 اور 47 میں فرق کی بنیاد پر متناسب انتخابی عذر داریاں کیوں قائم نہیں ہوئیں۔ اس لیے کہ 2014 ء میں چار حلقوں اور 35 پنکچر کا کھیل کامیاب نہیں ہو سکا تھا۔ پوچھنا چاہیے کہ خیبر پختونخوا میں فارم 47 کسی اور تقطیع پر شائع ہوئے تھے؟
اپریل 2022ء سے اب تک قوم مسلسل بحران کا شکار ہے۔ یہ جمہوریت کا بحران نہیں، جمہوریت سے کھلواڑ کا نتیجہ ہے۔ تازہ خبر یہ ہے کہ اکانومسٹ نے جمہوریت کی عالمی درجہ بندی میں پاکستان کو دوغلی جمہوریت کی بجائے سیدھے سیدھے آمریت یعنی چوتھے درجے میں ڈال دیا ہے۔ نئی امریکی حکومت کے امداد بند کرنے سے پاکستان میں درجنوں ترقیاتی منصوبے لپٹ جائیں گے۔ حسب توقع حکومت اور تحریک انصاف کے ’مذاکرات‘ اپنے منطقی انجام کو پہنچ رہے ہیں۔ تحریک انصاف میں جیسی بھی ٹوٹ پھوٹ ہو، یہ گروہ ملک میں ہموار سیاسی عمل مختل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ہمیں کیا معلوم کہ اندرون اور بیرون ملک اس کی زیر زمین حمایت کہاں کہاں پائی جاتی ہے۔ اس پر قومی اسمبلی کے بعد ایوان بالا میں بھی پیکا قانون منظور ہو گیا ہے۔ پیکا کا فضیحتہ تو 2016ء میں شروع ہوا، پاکستان میں ریاست اور صحافت کا ٹکرائو پبلک سیفٹی ایکٹ سے چلا آ رہا ہے۔ اگر ملک کا معاشی، سیاسی اور تمدنی مستقبل واقعی جمہوریت سے بندھا ہے تو جمہوریت میں ہماری درجہ بندی ہی ملکی ترقی کا درجہ بھی طے کرے گی۔ حتمی تجزیے میں یہ فیصلہ تو ہمیں ہی کرنا ہے کہ ہمیں اپنے خوابوں کو تاریخ کے دریا کے کس کنارے پر کاشت کرنا ہے۔