ملکوں کے نظام ٹیکسوں کی آمدن سے چلتے ہیں۔ دفاع کی ضروریات ہوں یا اسٹرکچر کی تعمیر، خوشحالی کی اسکیمیں ہوں یا عوامی بہبود کے اقدامات، سب کیلئے رقم کی ضرورت ہوتی ہے۔ تعلیم، صحت، ریسرچ سمیت زندگی کے ہر شعبے کیلئے سرمایہ درکار ہوتا ہے۔ اس سرمائے کے حصول کیلئے ٹیکسوں کی وصولی، انکی مختلف مدوں پرخرچ کی منصوبہ بندی سمیت متعدد ایسے امور ہیں جن پر توجہ دے کر لوگوں کو امن، روزگار، ضروری سہولتیں فراہم کی جاتی اور ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے وطن عزیز معیشت کےایسے گرداب میں گھرا ہوا ہے جس سے نکلنے کیلئے موجودہ حکومت ہر شعبے میں اصلاح احوال کیلئے دن رات کوشاں ہے۔اس وقت ، کہ نئے مالی سال 2025-26ء کے میزانیے کی تیاری شروع ہوچکی ہے منصوبہ سازوں کیلئے ہر شعبے سے متعلق درست اعدادوشمار خاص اہمیت رکھتے ہیں۔جبکہ ٹیکسوں کے گوشوارے اس آمدنی کی تصویر کشی کرتے ہیں جو لوگوں کے اثاثوں اور آمدن کے حوالے سے حکومت کو ملتے اور بعدازاں خرچ ہوتے ہیں۔ رواں مالی سال میں مجموعی طور پر ایف بی آر کو جو 5.9ملین گوشوارے موصول ہوئے ان میں 43.3فیصد (2.6ملین) افراد کا کہنا ہے کہ ان کی قابل ٹیکس آمدنی صفر (یعنی NIL) ہے جبکہ صرف 3,651افراد نے اپنی قابل ٹیکس آمدن 10کروڑ روپے سے متجاوز ظاہر کی ہے۔ ’’دی نیوز‘‘ نے سرکاری اعدادو شمار کے حوالے سے انکشاف کیا کہ زیادہ مالیت والے افراد کی تعداد زیادہ نہیں تھی کیونکہ صرف چند ہزار افراد ایسے تھے جن کی قابل ٹیکس آمدنی موجودہ مالی سال کے دوران جمع کرائے گئے تازہ ترین انکم ٹیکس گوشواروں میں 100ملین روپے سے زیادہ تھی۔ چیئرمین ایف بی آر راشد محمود لنگڑیال کے حال ہی میں قومی اسمبلی کی ذیلی کمیٹی کے سامنے دیئے گئے بیان کے بموجب صرف 12افراد ایسے ہیں جنہوں نے اپنے جمع کرائے گئے ٹیکس گوشواروں میں 10ارب روپے کی دولت ظاہر کی ہے۔ ان اعدادو شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ یا تو بڑے پیمانے پر ٹیکس چوری ہو رہی ہے یا ملک میں زیادہ دولت رکھنے والے افراد کی تعداد بہت کم ہے۔ رواں مالی سال 2024-25ء کے دوران ٹیکس فائلرز کی کل تعداد 5.9ملین ہے، جس میں 5.8ملین انفرادی ٹیکس فائلرز 104,269ایسوسی ایشن آف پرسنز (اے او پیز) اور 87,900کمپنیاں شامل ہیں۔ ٹیکس سال 2023ء میں فائلرز کی تعداد 6.8ملین تھی، جبکہ سال 2022ء میں یہ تعداد 6.3ملین رہی، جوکہ ممکنہ فائلرز کی تخمینی تعداد 15ملین کے مقابلے میں کافی کم ہے۔ ملک بھر میں کم از کم 300,000صنعتی بجلی کے کنکشن موجود ہیں، لیکن ایف بی آر کو صرف 87,000کمپنیوں کی جانب سے انکم ٹیکس ریٹرنز موصول ہوئے ہیں۔ ایف بی ار نے صورت حال کے تجزیے سے جو نتیجہ اخذ کیا، اس کے تحت نان فائلرز کی کیٹیگری ختم کرکے ایک نئی کیٹیگری متعارف کرائی جارہی ہے جو ’’اہل‘‘ یا ’’نااہل‘‘ کے طور پر طے کرے گی کہ کون ٹرانزیکشن مثلاً 10ملین روپے مالیت کی جائداد خریدنے یا نئی گاڑیاں خریدنے کا حق رکھتا ہے۔ اس نتیجے کی منطق واضح ہے۔ جو شخص امیر ترین افراد کی طرح مہنگی جائدادیں خریدنے، مہنگی گاڑیاں رکھنے، بیرون ملک املاک رکھنے اور متمول ترین افراد کا معیار زندگی برقرار رکھنے پر قادر ہے اس کی آمدنی اتنی ضرور ہوگی کہ وہ ٹیکس بھی ادا کرسکے۔ دنیا بھر میں ٹیکس چوری سنگین جرم سمجھی جاتی ہے، وطن عزیز میں بھی ضرورت اس بات کی ہے کہ ٹیکس چوری کے تمام راستے بند کئے جائیں اور جو لوگ ٹیکس گریزی کیلئے غلط معلومات فراہم کرتے ہیں انکو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔ پاکستان کو استحکام و خوشحالی کے راستے پر لیجانے کیلئے ترقی یافتہ ملکوں کے تجربات، قوانین اور طور طریقوں سے استفادہ کیا جانا چاہئے۔