• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صنعتوں کو سستی بجلی اور گیس دستیاب ہو تو کم لاگت کی وجہ سے ان کی مصنوعات کی قیمت فروخت بھی کم رہتی ہے اور عالمی منڈی میں انہیں خریدار آسانی سے مل جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک بھر کے صنعت کاروں نے کیپٹو پاور پلانٹس کیلئے اقتصادی رابطہ کمیٹی کی جانب سے گیس کی قیمت تین ہزار روپے فی ایم ایم بی ٹی یو سے بڑھا کرساڑھے تین ہزار روپے فی ایم ایم بی ٹی یو کرنے کے حالیہ فیصلے کو صنعتوں کیلئے تباہ کن قرار دیا ہے۔شمالی اور جنوبی پاکستان کے صنعت کاروں نے گزشتہ روزوزیر پیٹرولیم ڈاکٹر مصدق ملک سے ملاقات میں مطالبہ کیا ہے کہ حکومت ایل این جی سیکٹر کو آزاد کرے اور صنعتوں کو اپنے کیپٹو پاور پلانٹس کے لیے ایل این جی خود درآمد کرنے کی اجازت دے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ گیس کی فراہمی ترمیم شدہ ای اینڈ پی پالیسی 2012 کے تحت حاصل کرنا چاہتے ہیں جو نجی شعبے کو 35 فیصد گیس براہ راست خریدنے کی اجازت دیتی ہے۔ صنعتوں کی طرف سے اس مطالبے کا سبب یہ ہے کہ پاکستان میں گرڈ سے ملنے والی بجلی کی قیمت 13سے16 سینٹ کلو واٹ فی گھنٹہ ہے جو کہ چین، بھارت، ویتنام، بنگلہ دیش، اور ازبکستان جیسے مسابقتی ممالک میں 5سے9 کلوواٹ فی گھنٹہ میں دستیاب بجلی سے کہیں زیادہ ہے۔آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کے مطابق گیس کی قیمت میں اضافے کا یہ فیصلہ ملکی برآمدات میں 60 فیصد حصہ رکھنے والی ایکسپورٹ پر مبنی ٹیکسٹائل انڈسٹری سمیت تمام برآمدی صنعتوں کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگا جو پہلے ہی ملکی اور عالمی مارکیٹ میں متعدد چیلنجوں کا سامنا کررہی ہیں۔ ملکی صنعتوں کا یہ مؤقف بلاشبہ حقائق پر مبنی ہے ۔ معاشی بحالی کے عمل کو جاری رکھنے کیلئے اس مسئلے کا حل کیا جانا ضروری ہے۔ ایسے فیصلوں سے پہلے حکومت کی جانب سے ہمیشہ متعلقہ شعبے سے مشاورت کرکے اسے اعتماد میں لینے کااہتمام کیا جانا چاہیے تاکہ کوئی مشکل اور ناخوش گوار صورت حال پیدا ہی نہ ہو۔

تازہ ترین