آپ گھبرائیے نہیں۔ میری کیا مجال کہ پیکا جیسے آنے پائی سے لیس ، نکتہ رس قانون کو یوں سربازار للکاروں۔ درویش بہادر صحافی بھی نہیں اور وفاقی وزیر احسن اقبال تک رسائی بھی نہیں کہ سرکار دربار کے کان میں ٹھنڈی اور گرم پھونکیں مار ا کروں ۔ یہ کم نصیب تو ادب اور تاریخ کا طالب علم تھا۔ دو وقت کی دال روٹی کے لیے صحافت میں چلا آیا۔ ٹیڑھی میڑھی گلیوں کا وہ سفر بھی اب تمام ہوا چاہتا ہے ۔ ’اپنی بلا سے باد صبا اب کبھی چلے‘۔ یہ عنوان تو یوں سمجھئے کہ اردو کے دو افسانوں سے پھوٹ نکلا ہے۔ سعادت حسن منٹو نے بٹوارے کے بعد ایک افسانہ لکھا تھا ’پڑھئے کلمہ‘۔ کسی قدر تیکھا موضوع تھا۔ دوسرا افسانہ انتظار حسین کے پہلے مجموعے ’گلی کوچے‘ میں شامل تھا۔ عنوان تھا ’خریدو حلوہ بیسن کا‘۔ اتفاق سے یہ کہانی بھی تقسیم کی اتھل پتھل سے تعلق رکھتی ہے اور ادب محکمہ اطلاعات کے اہلکاروں ازقسم مسعود نبی نور ، انور محمود ، روئیداد خان وغیرہ سے پوچھ کر نہیں لکھا جاتا۔ سو انتظار حسین پر بھی داخلی سنسرشپ عائد ہو گی۔ 2فروری کو انتظار صاحب کی نویں برسی آ رہی ہے۔ علم و ادب کا اس ملک میں یہ عالم ہے کہ پاکستان میں ادب کے سہ جہتی اظہار کا ارفع ترین نشان انتظار حسین کسے یاد آئے گا۔
مجید امجد نے کہا تھا۔’ میں کل ادھر سے نہ گزروں گا ، کون دیکھے گا‘۔ منٹو کا کردار تھانیدار کو اعترافی بیان میں بار بار کہتا ہے ’پڑھیے کلمہ‘۔ انتظار صاحب کا کردار مسلمانوں کو شفاعت کا کمپا لگاکر بیسن کا حلوہ خریدنے کی ترغیب دیتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح پاکستان سرکار نے پیکا مجریہ 2016ء کی طنابیں مزید کس دی ہیں۔ابہام کچھ بڑھا دیا ہے۔ تحریری مقاصد اور ان کہے ارادوں میں فاصلہ زیادہ ہو گیا ہے۔ عطااللہ تارڑ اور اعظم نذیر تارڑ سے شکوے کی جا نہیں۔وہ تو منصب کی تہمت میں عبث بدنام ہو رہے ہیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ الیکٹرانک میڈیا پر جس گروہ کی کھلی اشتعال انگیزی کی آڑ میں صحافت کی جڑیں کھودی جا رہی ہیں، یہ وہی قبیلہ تو ہے جسے کل تک دربار سرکار میں کرسی اور خلعت دے کر ’درس جنون‘ کی تعلیم دی جاتی تھی۔ کیا ضمانت ہے کہ جس طرح پانچویں پشت کی دوغلی ابلاغی جنگ کے لاڈلے آج فتنہ قرار دیے جا رہے ہیں، آج کے مرغان دست آموز آئندہ مقہور نہیں ٹھہریں گے۔ پیکا ترمیمی قانون میں ’نظریہ پاکستان‘ کی مخالفت جرم ٹھہری ہے۔ عبدالولی خان نے حیدرآباد ٹریبونل سے 1975ء میں نظریہ پاکستان کا مطلب پوچھا تھا۔ نصف صدی گزر گئی جواب نہیں مل سکا۔ میں سوال دہرا دیتا ہوں ۔ پاکستان کے دستور میں ’نظریہ پاکستان‘ نامی اصطلاح کی کوئی تعریف موجود ہے؟اگر نہیں ، تو پھر لگائیے پیکا!پیکا 2016 ء میں ’عظمت اسلام ‘(Glory of Islam ) بھی شامل ہے۔ کیا 1985 ء کی آٹھویں ترمیم سے قبل یہ اصطلاح دستور پاکستان کا حصہ تھی؟ کیا یہ اصطلاح بذات خود فرقہ وارانہ تنازعات کو ہوا دینے کے مترادف نہیں۔ یہ قانون پاکستان کے تمام شہریوں پر لاگو ہوتا ہے ۔ ایک کروڑ غیر مسلم شہری اس اصطلاح سے کیا مراد لیں۔ ایک سادہ فوجداری قانون میں 1986 ء سے 1990ء تک ہونیوالی ترامیم بہتر بنانے کی تو کسی میں ہمت نہیں۔ عظمت اسلام کی اصطلاح اس سے بھی زیادہ مبہم ہے۔ صاحب لگائیے پیکا!
اس قانون میں مسلح افواج کے بارے میں مخالفانہ رائے کو بھی خلاف قانون قرار دیا گیا ہے۔ اس ملک میں چار دفعہ مسلح افواج کی اعلیٰ ترین قیادت نے عوام کی حاکمیت غصب کی ۔ ہر موقع پر تشریف آوری کے مقاصد کچھ اور بتائے گئے اور دم رخصت آنکھوں میں کاجل کسی اور رنگ کا پھیلا ۔ کیا یہ اجتماعی سانحات نیز مداخلت کی کھلی صورتیں ہماری تاریخ کا حصہ نہیں۔ کیا ان کا ذکر اور ان کے نتائج بیان کرنا جرم قرار پائے گا۔ ہمارے اجتماعی ارتقا کے اس بنیادی تضاد کا ذکر کیے بغیر تعمیر قوم کا نقشہ کیسے مرتب ہو گا۔ اگر یہ سوال پیکا مدون اور منظور کرنے والوں کے ذہن رسا سے نہیں گزرا تو صاحب لگائیے پیکا!
پیکا کا قانون تحریک انصاف نے بنایا اور اب اس پر دیگر سیاسی جماعتوں نے بھی مہر تصدیق ثبت کر دی ہے۔ ہم آپ رموز خسروانہ نہیں جانتے البتہ ایک صاحب محمد علی جناح نے 1916 ء میں بمبئی کی صوبائی کانگرس کمیٹی سے خطاب کرتے ہوئے 1910 ء کے پریس ایکٹ کی غیر محتاط شقوں نیز اس ایکٹ کے اندھا دھند استعمال پر شدید تنقید کی تھی۔ دسمبر 1917 ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے کلکتہ اجلاس میں جناح نے کہا تھا ۔ ’حکومت کے اہلکار صحافیوں کی زباں بندی کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ہم پریس ایکٹ پاس کریں گے۔ اگر تم نے کچھ لکھا تو ہم تمہارا گلا گھونٹ دیں گے۔
کیا کسی قانون کے لیے ممکن ہے کہ عوام کی رو ح کو کچل ڈالے‘۔19 ستمبر 1918 ء کو مجلس قانون ساز میں پریس ایکٹ کی مذمت کرتے ہوئے محمد علی جناح نے کہا ۔ ’میں قطعاً نہیں چاہتا کہ بغاوت ، بے اطمینانی یا فرقہ وارانہ نفرت پھیلانے والا کوئی شخص سزا سے بچ نکلے لیکن میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ ان صحافیوں کا تحفظ کیا جائے جو آزادی اور ایمانداری سے حکومت پر تنقید کر کے حکومت اور عوام دونوں کی خدمت انجام دے رہے ہیں۔ ان کی تنقید حکومت کے لیے تعلیم کا درجہ رکھتی ہے‘۔ قائداعظم بے لگام صحافت کے حامی نہیں تھے۔ 13مارچ 1947 ء کو بمبئی میں مسلم صحافیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا ۔ ’آپ کے پاس بہت بڑی طاقت ہے ۔ آپ کسی شخصیت کو بنا سکتے ہیں یا تباہ کر سکتے ہیں لیکن یہ طاقت ایک امانت ہے۔ میں آپ سے ایک دوست کی سی دیانتدار تنقید کی توقع کرتا ہوں‘۔
پیکا کے ترمیمی قانون کے دائرہ کار ، طریقہ کار اور مقاصد پر میں تنقید کرنے والا کون ہوتا ہوں۔ سر دوستاں سلامت کہ تو خنجر آزمائی۔میں نے تو بابائے قوم کے کچھ اقتباسات نقل کیے ہیں۔ جو چاہے احسن اقبال یا عطااللہ تارڑ تک پہنچا کر فرمائش کرے کہ صاحب لگائیے پیکا! لیکن یہ پیکا صرف قلم کے مزدور ہی پر کیوں لگے ، ہمت ہے تو بابائے قوم پر بھی لگائیے پیکا!