• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

میں اپنی زندگی میں پانچ دفعہ موت کے منہ سے نکلا ہوں۔ ایک تو بچپن میں جب میں ماں کی گود میں تھا میری حالت اتنی غیر ہوگئی تھی کہ ڈاکٹر نے جواب دے دیا تھااور کہا گھنٹوں کی نہیں منٹوں کی بات ہے ۔امی جی بتاتی تھیں کہ تمہارے ابا جی کی طبیعت میں اتنی جلد بازی تھی کہ وہ گورکن کو کہہ آئے تھے تاکہ ہر کام وقت پر ہو میں ان کی سب سے آخری اولاد تھا کہ پانچ بیٹیوں کے بعد بھائی جان ضیاء الحق قاسمی پیدا ہوئے تھے اور اب دوسرا بیٹا میں تھا۔ اپنی باقی’’اموات‘‘ کا ذکر بھی میں کروں گا پہلے امریکہ میں دو ’’متوقع‘‘ اموات کا ذکر کر لوں، پہلی والی تو بس ایسی ہی تھی کہ مجھ سے ون وے کی غلطی سرزد ہو گئی احساس تب ہوا جب سامنے سے ٹرکوں اور کاروں کے غصے بھرے ہارن سنائی دینے لگے خدا کا شکر کہ سماعت اور بینائی صحیح حالت میں تھی چنانچہ میں نے سائیڈ میں پناہ لی۔

لیکن جب میں نے موت کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ،وہ یاد آتا ہے تو آج بھی خوفزدہ ہو جاتا ہوں ۔میں نے امریکہ میں جو نوکریاں کیں ان میں ایک ریستوران میں نائٹ منیجر کی تھی ریستوران میرے گھر سے کم وبیش پچاس کلومیٹر پر واقع تھا وہ خوفناک واقعہ سنانے سے پہلے ایک ذیلی واقعہ بھی سن لیں ایک دفعہ میں ڈیوٹی پر جاتے ہوئے وہ ایگزٹ بھول گیا جو مجھے لینا تھا بالکل اجنبی جگہ سے کچھ دیر بعد مجھے تین چار بلیک امریکن نظر آئے انہوں نے ٹرائوزر پر ایک جیکٹ پہنی ہوئی تھی جس کے بٹن کھلے تھے ہٹے کٹے اور شکل سے مسٹنڈے بھی لگتے تھے مگر مجھے ان کے پاس جاکر بریک لگانا پڑی اندر سے میں بے حد خو فزدہ تھا کہ امریکہ میں بیشتر وارداتوں کا بوجھ ان کے ہی کندھوںپر لاد دیا جاتا ہے ،میں نے ان سے یہاں سے نکلنے کا راستہ پوچھا ان میں سے ایک نے بتایا اور پھر پوچھا کہاں سے ہو میں نے بتایا پاکستان سے !

یہ سن کر اُن کی خوشی دیدنی تھی مجھ سے کہا تمہارے پاس حشیش تو ہو گی میں نے کہا ہاں ہے مگر پاس نہیں گھر پر ہے انہیں یقین نہ آیا میری او رکار کی تلاشی لینے کے بعد جانے کی اجازت دے دی۔ اب اصل واقعہ... میں رات کو تین بجے موٹر وے سے گھر کو جا رہا تھا یہ جنوری کا مہینہ تھا شدید سردی سے رستے میں گاڑی اچانک رک گئی میں نے بہت دفعہ سیلف مارا مگر بے سود، اگرچہ میں نے لوگوں کو اس موقع پر بونٹ کھول کر تاروں کو ہلاتے جلاتے ہوئے دیکھا تھا میں نے بھی ٹرائی کرنے کی سوچنے کے بعد دروازہ کھولنے کی کوشش کی مگر وہ کھل نہ سکا پتہ چلا کہ باہر شدید ہوا چل رہی ہے تاہم میں دروازہ کھولنے میں کامیاب ہو گیا مجھے لگا جیسے مجھے کسی نے برف سے بھرے ہوئے ٹب میں بٹھا دیا ہے تاہم میں ہمت کر کےبونٹ تک پہنچا اسے کھولا مگر کھڑا نہیں ہوا گیا میں واپس کار میں آکر بیٹھ گیا ظاہر ہے انجن بند ہونے کے بعد ہیٹنگ بھی بند ہو گئی تھی نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن اب چوائس میری تھی کہ میں نے باہر سڑک پر بونٹ کے قریب مرنا ہے یا کار کے اندر ،زیادہ سوٹ تو یہی کرتا تھا کہ کار کے اندر وفات پائی جائے مگر میں ایک دفعہ پھرہمت کرکے باہر آ گیا ایک نیک دل امریکی میری مدد کے لئے کار میں سے باہر آیا اس نے اتنے سارے گرم لباس پہنے ہوئے تھے کہ اسکیمو لگتا تھا اس کے باوجود وہ چند سیکنڈ سے زیادہ باہر نہ کھڑا ہو سکا اور سوری کہہ کر دوڑتا ہوا اپنی کار کی طرف چلاگیا۔

اب واپس کار میں جانے کے علاوہ کوئی دوسرا چارہ نہیں تھا میرے جسم سے جان آہستہ آہستہ نکل رہی تھی میں نے کلمہ پڑھا اور آنکھیں بند کر لیں اس کے بعد مجھے صرف اتنا یاد ہے کہ میں ایک پٹرول پمپ کے بینچ پر لیٹا ہوا تھا یہاں کی ہیٹنگ آہستہ آہستہ زندگی کی رمق اندر اتار رہی تھی میرے پاس موٹر وے پولیس کا ایک افسر کھڑا تھا اس نے بتایا کہ وہ پٹرولنگ پر تھا کہ اسے ایک شخص کار کی ٹیک کا سہارا لئے دکھائی دیا اس نے ٹارچ جلا کر کار کا جائزہ لیا کہ کوئی نشہ آور چیز تو نہیں ایسی کوئی چیز نہ ملی پھر اسے اپنی کار میں بٹھا دیا اور پٹرول پمپ پر لے آیا تاکہ زندگی پوری طرح بحال ہو تو آپ اپنے کسی دوست کو فون کریں جو آپ کو یہاں سے لے جائے میں نے طارق کو فون کیا اور صورتحال بتا کر کہ جلدی آنے کی ہدایت کی وہ پہنچا اور اپنے گھر سے میرے لئے دو گرم سویٹراور ایک کمبل بھی مجھ پر ڈال دیا حالانکہ سویٹر پوری طرح گرم تھے اور اس کی ضرورت نہیں تھی ،میری حالت بہتر دیکھ کر طارق جسے ہم تارا کہتے تھے اور دوست تاراکی بجائے طافہ کہا کرتے تھے اور کہتے ہیں سو تارے نے میری طرف دیکھتے ہوئے شرارتی مسکراہٹ کے ساتھ ’’آج اللہ نے تم سے میری اس حق تلفی کا بدلہ لے لیا ہے‘‘ میں نے یہی ظاہر کیا کہ مجھے اس کی بات کی سمجھ نہیں آئی میں نے یہ کہہ کر کمبل چہر ےتک اوڑھ لیا ’’بکواس نہ کرو!‘‘(جاری ہے)

تازہ ترین