’’ یہ احمقانہ جنگ بند کریں یا پھر نئی پابندیوں کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہوجائیں۔‘‘ یہ دھمکی امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے روسی صدر ولادمیر پیوٹن کو دی۔ یوکرین جنگ کو اب تین سال ہوچُکے ہیں، جس میں60ہزار سے زاید یوکرینی اور روسی شہری اور فوجی ہلاک، جب کہ یوکرین میں شہر کے شہر کھنڈرات میں تبدیل ہوچُکے ہیں۔ بہتر ہوتا کہ صدر ٹرمپ اِسے ’’ظالمانہ جنگ‘‘ قرار دیتے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ روس، یوکرین جنگ کے عالم گیر اثرات مرتّب ہوئے۔
منہگائی کا ایک طوفان آیا، جس نے دنیا بَھر کے لوگوں کو لپیٹ میں لے لیا۔غریب ممالک کے عوام تو اِس تباہی میں پِسے ہی، امیر ممالک کے شہری بھی توانائی، خوراک اور دوسری اشیائے صَرف کی آسمان سے چُھوتی قیمتوں سے اب تک نجات نہیں پاسکے۔ روس کے صدر، ولادمیر پیوٹن سے یہ سوال تو بہرحال بنتا ہے کہ کورونا سے بے حال دنیا پر آخر اُنہوں نے کیا سوچ کر یہ سِتم ڈھایا، جب فروری 2022 ء میں اُنہوں نے اپنی فوجوں کو یوکرین جیسے چھوٹے مُلک پر حملے کا حکم دیا تھا۔
صدر ٹرمپ نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ’’ٹروتھ سوشل‘‘پر لکھا کہ وہ یہ جنگ بند کروا کے درحقیقت روس اور اُس کے صدر کا خیال کر رہے ہیں، کیوں کہ اِس تین سالہ جنگ کے بعد روسی معیشت تباہی سے دوچار ہے۔ پھر اگلی ہی سانس میں یہ بھی کہہ گزرے کہ اگر روسی صدر جنگ بند نہیں کرتے، تو ہر اُس روسی مال پر سخت ٹیکسز اور پابندیاں عاید کرنے پر مجبور ہوجائیں گے، جو وہ امریکا یا کسی بھی دوسرے مُلک کو فروخت کرتا ہے۔ روس پہلے ہی امریکی، یورپی اور مغربی ممالک کی اقتصادی پابندیوں کا سامنا کر رہا ہے اور اِس امر میں بھی کوئی شک نہیں کہ یوکرین کی جاری جنگ اپنے منفی اثرات اس پر مرتّب کر رہی ہے۔
ٹرمپ اپنی صدارتی مہم کے دَوران مستقلاً یوکرین وار بند کرنے پر زور دیتے رہے، بلکہ یہاں تک کہا کہ اگر وہ مسلسل صدر رہتے، تو یہ جنگ ہوتی ہی نہیں۔صدر ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ اگر روس نے جنگ بند نہیں کہ تو وہ امریکی تیل اور توانائی کے ذرائع کا ایک سیلاب یورپی ممالک کی طرف موڑ دیں گے، جس سے اُن کا روسی تیل و گیس پر انحصار ختم ہوجائے گا اور روس کو توانائی خریدنے والا کوئی دوسرا نہیں ملے گا۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ روسی صدر نے ٹرمپ کے بیان کا مثبت جواب دیا اور کہا کہ وہ جنگ اور دوسرے معاملات پر بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ یہ بات اُنہوں نے روس کے سرکاری ٹیلی ویژن پر ایک انٹرویو میں کہی۔ پھر یہ کہ اُنھوں نے جس انداز میں صدر ٹرمپ کی تعریف کی، اُسے قصیدہ گوئی ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔
پیوٹن نے ٹرمپ کی ہاں میں ہاں ملائی اور کہا کہ واقعی اگر ٹرمپ، بائیڈن کی جگہ صدر ہوتے، تو یہ جنگ نہ ہوتی، بلکہ یہاں تک کہہ دیا کہ اگر اُنہوں نے (امریکی سرکار) ٹرمپ کا الیکشن نہ چُرایا ہوتا، تو یہ جنگ نہ ہوتی۔ یہ ٹرمپ کے دعوے کی کسی بھی غیر مُلکی صدر کی جانب سے اِس طرح پہلی حمایت ہے۔ صدر پیوٹن نے کہا کہ’’ ہم تو ڈائیلاگ کے لیے تیار ہیں، لیکن یوکرین کے صدر اِس سے انکاری ہیں۔ روس پر پابندیوں سے امریکا کو نقصان ہوا۔‘‘
پھر صدر ٹرمپ سے متعلق فرمایا کہ وہ بہت سمجھ دار اور حقیقت پسند ہیں، اِس لیے بہت اچھا ہوگا کہ ہم ملاقات کریں اور اِس جنگ سمیت تمام معاملات پر بات چیت کریں، جن کا تعلق روس اور امریکا سے ہے۔ ماہرین نے پیوٹن کے اس مصالحانہ انداز پر حیرت کا اظہار کیا، کیوں کہ وہ اپنے منہ توڑ بات کے لیے شہرت رکھتے ہیں۔
قوم پرست لیڈر کے طور پر وہ یہاں تک کہتے ہیں کہ اگر روس نہیں، تو کچھ بھی نہیں۔ روسی صدر کے اِس بیان کے دوسرے ہی دن صدر ٹرمپ نے ویڈیو کے ذریعے ڈیوس فورم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اوپیک پلس اور وہ ممالک بھی یوکرین جنگ کے جاری رہنے میں شامل ہیں، جنہوں نے تیل کی قیمتیں بہت بلندی پر رکھیں اور ان قیمتوں ہی کے سبب روس کے لیے جنگ کرنا ممکن ہو رہا ہے، کیوں کہ تیل وگیس کی فروخت روس کی کمائی کا بنیادی ذریعہ ہے۔
اگر تیل کی قیمتیں کم ہوتی ہیں، تو روس جنگ جاری رکھنے کے قابل ہی نہیں رہے گا۔ غالباً اِس ضمن میں اُنہوں نے سعودی عرب کے ولی عہد، شہزادہ محمّد بن سلمان سے بھی ٹیلی فون پر گفتگو کی۔ گو، اِس ضمن میں مکمل تفصیلات تو سامنے نہیں آئیں، لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ گفتگو بہت مثبت تھی، کیوں کہ محمّد بن سلمان نے نہ صرف ٹرمپ کے دَور کو امریکی ترقّی کے لیے بہت اچھا کہا، بلکہ پیش کش کی کہ وہ امریکا میں600بلین ڈالرز کی سرمایہ کاری کریں گے۔ صدر ٹرمپ نے بعد میں کہا کہ شاید اُن کا پہلا غیر مُلکی دورہ سعودی عرب کا ہوگا۔ یاد رہے، پہلے دَورِ صدارت میں بھی اُن کا پہلا دورہ سعودی عرب ہی کا تھا۔
تیل کی قیمتوں میں کمی آنی شروع ہوگئی ہے۔اِس امر میں کوئی شک نہیں کہ اِس وقت امریکا، سعودی عرب کے برابر تیل پیدا کر رہا ہے، جو تقریباً بارہ بلین بیرل ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جتنا تیل ساری دنیا استعمال کرتی ہے، اُتنا اکیلا امریکا کرتا ہے۔ عالمی امور کے ماہرین کے مطابق، یوکرین جنگ میں توانائی کی ڈیمانڈ، سپلائی اور قیمتوں نے بڑا اہم کردار ادا کیا۔
پاکستان جیسے چھوٹے مُلک تو اس کی قیمتوں کے بوجھ تلے پِس کر دیوالیہ ہوتے ہوتے بچے۔ آئی ایم ایف کے قرضوں کے مسلسل پروگرام اِسی یوکرین جنگ کی براہِ راست مہربانی ہے۔ جب روس نے جنگ کے بعد تیل اور گیس کی سپلائی پر پابندی لگائی، تو یورپی ممالک تڑپ اُٹھے۔
منہگائی اور سردی نے اُنہیں بے حال کردیا، لیکن ایڈوانس ٹیکنالوجی پر اُن کی دسترس نے صُورتِ حال پر جلد ہی قابو پا لیا اور ایک سال کے اندر اندر روس اپنا تیل 30 سے35فی صد کم قیمت پر فروخت کرنے پر مجبور ہوا۔ روس کے پاس600بلین ڈالرز کے محفوظ ذخائر تھے، جن پر تیل کے کم منافعے نے آہستہ آہستہ دباؤ ڈالنا شروع کردیا۔ چین اور بھارت نے بڑی مقدار میں یہ کم قیمت تیل خریدا اور فائدہ اُٹھایا۔
عمران خان جب روس گئے، تو یہی کم قیمت تیل پاکستان کو دینے کا معاہدہ ہوا۔ تاہم، اُن کی اقتدار سے رخصتی کے بعد اس پر عمل نہ ہوسکا۔ روس نے ایسے کسی بھی معاہدے سے لاعلمی ظاہر کی۔ پھر ماہرین اِس امر کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں کہ پاکستان کی ریفائنریرز عرب تیل تو صاف کرنے کے صلاحیت رکھتی ہیں، لیکن یہاں روسی گریڈ کا تیل کام نہیں آتا۔
جب کہ چین اور بھارت روسی تیل اور گیس کے پرانے خریدار ہیں۔ اِن دونوں بڑے خریداروں کی وجہ سے روس کی بڑی بچت ہوئی، وگرنہ وہ بھی ایران کی طرح پابندیوں کے بعد مشکل میں آجاتا۔ ایران، دنیا میں تیل پیدا کرنے والا چوتھا بڑا مُلک ہے، تاہم پابندیوں نے اُس کی معیشت تباہ کرکے رکھ دی ہے۔
اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تیل اور توانائی کا یوکرین جنگ میں کتنا بڑا کردار ہے۔ نیز، اِس سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ بین الاقوامی امور میں مفادات کے ذریعے کہاں سے کہاں تک جایا جاسکتا ہے۔ یہ مفادات جنگیں کروا دیتے ہیں، جن میں انسانی جانوں کی کوئی پروا نہیں کی جاتی۔
ایک تکلیف دہ حقیقت یہ بھی ہے کہ عوام، جو دنیا بَھر میں ایک سی مشکلات سے دوچار ہیں، سیاست دانوں اور حُکم رانوں کی چالوں کے سامنے کس قدر مجبور ہوتے ہیں۔ ایک برس قبل کورونا کی ہلاکتوں نے اُنہیں دن میں تارے دِکھا دیئے تھے اور کوئی انسانیت کے اتحاد اور کوئی قیامت کی خبر دے رہا تھا۔ اِسی یوکرین جنگ کے دَوران غزہ کی جنگ شروع ہوگئی، جس میں پچاس ہزار بے گناہ شہری جاں بحق ہوئے، جن کا سیاست سے کچھ لینا دینا نہیں۔
اس کا اندازہ اُس خوشی سے لگایا جاسکتا ہے، جو اُن کی واپسی کی تصاویر میں نظر آرہی ہے، گو، اُن کا شہر اسرائیلی بم باری نے کھنڈر میں تبدیل کردیا ہے۔ وہاں شہر نام کی شاید ہی کوئی چیز سلامت رہی ہو۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق وہاں500 ہزار ٹن ملبہ ہے۔ غزہ سیز فائر معاہدے کی تیسری شق کے مطابق اس کی بحالی ہونی ہے، مگر یہ کون کرے گا اور اس کے لیے سرمایہ کہاں سے آئے گا؟
یوکرین جنگ میں، میدان میں تو روس اور یوکرین ہیں، تاہم یہ کسی عالمی تنازعے سے کم نہیں۔اس کے اقتصادی اثرات کا تو ذکر ہوچکا، جب کہ اس کے سیاسی اور جیو اسٹریٹیجک اثرات بھی کم نہیں۔ اِس جنگ کو یورپی یونین نے دوسری عالمی جنگ کے بعد یورپ پر سب سے بڑا حملہ قرار دیا۔ یہ سب ممالک نیٹو میں امریکا کے ساتھ شامل ہیں۔ اِنھیں دوسری عالمی جنگ میں یورپی محاذ پر ہٹلر کے خلاف فتح اُس وقت حاصل ہوئی تھی، جب امریکا نے یورپ کے اتحاد میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا، اسے’’الائیڈ پاورز‘‘ کہا گیا، یہی نیٹو کی اصل طاقت ہے اور جنوبی ایشیا تک کے تمام علاقوں پر مغربی برتری کی ضامن بھی۔
جب بھی کوئی دوسری طاقت کوئی فوجی اتحاد بناتی ہے، تو اُس کا موازنہ نیٹو سے کیا جاتا ہے۔ سوویت یونین کے زمانے میں وارسا پیکٹ اور آج کل شنگھائی فورم یا گلوبل ساؤتھ جیسے تجربات سامنے ہیں۔ شاید ہی کوئی یورپی مُلک ہو، جس نے یوکرین کی مالی، فوجی اور سیاسی مدد نہ کی ہو۔یوکرین سے آنے والا ہر فرد اسائیلم سیکر کی حیثیت سے یورپ اور برطانیہ میں قابلِ قبول ہے۔ صدر جوبائیڈن کے دَور میں کم از کم ایک سو ارب ڈالرز کی فوجی و اقتصادی امداد یوکرین کو دی گئی۔
صدر ذلنسکی کی مزاحمت اپنی جگہ، لیکن اگر یہ پُشت پناہی نہ ہوتی، تو اُن کے لیے مہینے بَھر بھی جنگ کرنا ممکن نہ ہوتا۔ پیوٹن کی اصل تشویش اور پریشانی اُس وقت شروع ہوئی، جب پورا مغرب اُن کے خلاف اور یوکرین کے ساتھ کھڑا ہوگیا، وگرنہ وہ اپنے فوجی، مالی اور قدرتی وسائل سے یہ جنگ کب کی جیت چُکے ہوتے۔ وہ اب یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ یوکرین سے، جو پہلے سوویت یونین کا حصّہ تھا، جنگ اُن کا مقصد نہیں، بلکہ وہ تو صرف روسی بولنے والے علاقوں کے تحفّظ کے لیے آگے بڑھے تھے۔
اب اگر ان تمام عوامل اور یوکرین جنگ کو سامنے رکھیں، تو صدر پیوٹن نے جس انداز میں ٹرمپ کی تعریف کی ہے، اُس پر ماہرین کا کہنا ہے کہ پیوٹن خود بھی جنگ کی طوالت سے تنگ آچُکے ہیں۔ اگر ٹرمپ، سعودی عرب اور اوپیک ممالک کو راضی کرلیتے ہیں کہ وہ تیل کی قیمتیں کم کردیں،( جو لگتا ہے، کردیں گے)، تو روس مزید دباؤ کا شکار ہوجائے گا۔
مشرقِ وسطیٰ میں روسی پسپائی کے بعد اگر تیل کی قیمتوں میں بھی کمی ہوجاتی ہے، تو پیوٹن کے لیے جنگ جاری رکھنا بہت مشکل ہوجائے گا۔ چین، جو اس کا سب سے قریبی شراکت دار ہے، اُس کے لیڈر شی جن پنگ کی کتاب میں جنگ کی فی الحال کوئی گنجائش نہیں۔
ایسے حالات میں صدر پیوٹن کے لیے بہترین راہ یہی ہوسکتی ہے کہ وہ اپنے جیسے قوم پرست ٹرمپ کے ساتھ ملاقات کرکے یوکرین جنگ کا کوئی حل نکال لیں۔ اِس ضمن میں ماہرین دو امور کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ روس خود یورپ کا حصّہ ہے اور ان کا ہم مذہب بھی، یورپ کی تباہی یا اقتصادی کم زوری سے روس کو نقصان ہوگا، کیوں کہ اُس کے مال کے بڑے خریدار یورپ ہی میں ہیں۔
یوکرین تنازعے کا محرّک یہی تھا کہ روس، یوکرین کو نیٹو کا حصّہ نہیں دیکھنا چاہتا اور وہ اسے اپنی سلامتی کا مسئلہ کہتا ہے، جب کہ یوکرینی 2014 ء سے نیٹو میں شامل ہونے کے لیے روس سے جنگ کر رہے ہیں۔ صدر پیوٹن روسی زبان بولنے والے بیس فی صد یوکرینی علاقے کی بات کرتے ہیں اور اِس معاملے میں اُس کا ایک بڑا سہارا جرمنی کی روسی زبان بولنے والی سربراہ، مرکل تھیں، جو اب اقتدار چھوڑ چُکی ہیں اور آج کی جرمن قیادت کُھل کر روس کی مخالفت کرتی ہے، بلکہ وہ اُن چند یورپی ممالک میں سے ایک ہے، جس نے بھاری اقتصادی امداد کے علاوہ یوکرین کو فوجی امداد بھی فراہم کی۔
پیوٹن، سوویت یونین کو بکھرتے دیکھ چُکے ہیں۔ یوکرین جب روس سے آزاد ہوا، تو زیادہ تر ایٹمی اثاثے اُسی کی سرزمین پر تھے، جن کی روس منتقلی کے عوض امریکا نے ایک سہہ فریقی معاہدے میں یوکرین کی حفاظت کی ضمات دی تھی، جس میں روس، یوکرین اور امریکا شامل تھے۔
اِسی معاہدے کے تحت امریکا اور نیٹو نے یوکرین کے لیے حفاظتی حصار قائم کر رکھا ہے۔ پیوٹن کو تین سال کی زور آزمائی کے بعد اندازہ ہوچُکا کہ یہ حصار توڑنا اس کے لیے ممکن نہیں۔اِسی لیے صدر ٹرمپ کا دباؤ، صدر پیوٹن کی جانب سے اُن کی غیر معمولی تعریف و توصیف اور فوری ملاقات کی خواہش، یوکرین جنگ کے خاتمے کی نوید ثابت ہوسکتی ہیں۔