گزشتہ دنوں وزارت خزانہ نے قومی اسمبلی میں ایف بی آر کے ٹیکس قوانین 2024ءترمیمی بل پیش کیا جس کے تحت فائلرز اور نان فائلرزکیلئے پراپرٹی خریدنا انتہائی مشکل ہوجائیگا اور رئیل اسٹیٹ سیکٹر پر منفی اثرات مرتب ہونگے جو پہلے ہی دبائو کا شکار ہے۔ میں نے تجویز دی کہ بل کو تفصیلی بحث کیلئے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے فنانس اینڈ ریونیو میں لایا جائے اور اس طرح 21جنوری کو قائمہ کمیٹی فنانس میں وزیر مملکت خزانہ علی پرویز ملک اور چیئرمین ایف بی آر راشد محمود لنگڑیال نے ٹیکس قوانین میں ترامیم پر بریفنگ دی۔ انہوں نے بتایا کہ نئے قوانین کے تحت ایف بی آر کے کمشنر انکم ٹیکس کو یہ اختیارات حاصل ہوں گے کہ وہ نان فائلرز کے بینک اکائونٹس منجمد کرسکتا ہے اور پراپرٹی کی منتقلی یا خرید و فروخت روکنے کیلئے رجسٹرار کو آرڈر جاری کرسکتا ہے لیکن اس کی اپیل چیف کمشنر سے کی جاسکتی ہے جبکہ چیف کمشنر کو نان فائلرز کا کاروبار سیل کرنے کا اختیار بھی حاصل ہوگا۔ اس موقع پر آباد کے چیئرمین محمد حسن بخشی نے اِن ترامیم پر اپنے شدید تحفظات پیش کئے کہ اس ترمیم کے تحت فائلر ہونے کے باوجود اُس وقت تک مکان یا پراپرٹی نہیں خرید سکتے جب تک آپ کی دولت گزشتہ سال کے جمع کرائے گئے گوشوارے کے مطابق 130 فیصد نہ ہو، خریدار کو ایک کروڑ روپے مالیت سے زائد کی پراپرٹی خریدنے سے پہلے رجسٹرار کو مطمئن کرنا ہوگا کہ اس کے پاس پراپرٹی خریدنے کیلئے جائز دولت موجود ہے بصورت دیگر آپ پراپرٹی نہیں خرید سکیں گے۔ اِسی طرح نان فائلرز بھی مذکورہ بالا شرط پورا کئے بغیر رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری نہیں کرسکیں گے۔ اس موقع پر میں نے چیئرمین ایف بی آر کو بتایا کہ ہم 78 سال میں اپنی معیشت کو دستاویزی شکل نہیں دے سکے اور ہماری غیر رسمی یعنی بلیک اکانومی، آفیشل اکانومی کے برابر ہوگئی ہے، ہم نے دنیا میں پہلی بار نان فائلرز کیٹگری متعارف کرائی اور 2 سے 3 فیصد اضافی ٹیکسز وصول کرکے انہیں قانونی حیثیت دے دی، ماضی میں جب بھی نان فائلرز کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی بات کی جاتی تھی تو حکومت دبائو میں آکر معیشت کو دستاویزی شکل دینے کی پالیسیاں واپس لے لیتی تھی اور اگر اب ہم فائلرز کو بھی "Sufficient Resources" کے نام پر معاشی ٹرانزیکشنز سے روکیں گے تو اس کے ملکی معیشت بالخصوص رئیل اسٹیٹ اور کنسٹرکشن سیکٹرز پر نہایت منفی اثرات پڑیں گے۔ میں نے اُنہیں تجویز دی کہ ٹیکس ترامیم میں گزشتہ سال کے گوشواروں کی شرط کے بجائے موجودہ مالی حیثیت کی بنیاد پر ٹرانزیکشن کی اجازت دی جائے اور کم از کم 2.5 کروڑ روپے مالیت کی پراپرٹی خریدنے پر مالی ذرائع بتانے کی چھوٹ دی جائے۔ نئے قوانین پر عملدرآمد کیلئے اسٹیک ہولڈرز کیساتھ ٹائم فریم پر اتفاق کیا جائے تاکہ فوری عملدرآمد کی وجہ سے معیشت متاثر نہ ہو بصورت دیگر لوگ اپنی دولت دبئی اور دیگر ممالک منتقل کرسکتے ہیں جہاں پراپرٹی کی خرید و فروخت پر صرف 4 فیصد ٹیکس ہے جبکہ پاکستان میں ایڈوانس پراپرٹی ٹیکس، کیپٹل گین ٹیکس، فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی، اسٹیمپ ڈیوٹی اور دیگر ٹیکسوں کی بھرمار ہے لہٰذا حکومت کو ٹیکس ترامیم مرحلہ وار کرنا ہوں گی تاکہ سرمائے کا بیرون ملک انخلا روکا جاسکے۔ میں نے قائمہ کمیٹی میں اس بات پر زور دیا کہ پارلیمنٹ معیشت کو دستاویزی شکل دینے کے حق میں ہے، اس وقت ہماری جی ڈی پی میں ٹیکس کی شرح صرف 10فیصد ہے جسے بڑھاکر 15 فیصد تک لیکر جانا ہے جس کیلئے ہم سب کو ٹیکس دینا ہوگا۔ رواں مالی سال کے دوران جولائی سے دسمبر 2024تک ایکسپورٹرز نے صرف 80ارب روپے ٹیکس ادا کیا جبکہ اس مدت میں تنخواہ دار طبقے نے 300 فیصد زائد 243 ارب روپے انکم ٹیکس ادا کیا، رواں مالی سال ایف بی آر کا ٹیکس ہدف 12970ارب روپے انتہائی مشکل ہدف ہے کیونکہ ایف بی آر کو پہلے 7 مہینے میں 468 ارب روپے کے خسارے کا سامنا ہے جس پر آئی ایم ایف کو تشویش ہے۔ ریٹیلرز کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی ’’تاجر دوست اسکیم‘‘ بھی مطلوبہ نتائج نہیں دے سکی لیکن ایف بی آر نے 236G اور 236H کے ذریعے ریٹیلرز سے ریونیو وصولی میں اضافہ کیا ہے۔ چیئرمین ایف بی آر نے بریفنگ میں بتایا کہ ایف بی آر کے پاس کئی لاکھ بجلی صارفین کا ڈیٹا ہے جن کے لاکھوں روپے ماہانہ بل آتے ہیں لیکن وہ NTN رجسٹرڈ نہیں جس کیلئے ایف بی آر 1500 پروفیشنلز چارٹرڈ اکائونٹینٹ آڈیٹرز اپوائنٹ کرنا چاہتی ہے تاکہ نان فائلرز کے اکائونٹس کا آڈٹ کرکے ان سے حکومتی واجبات وصول کئے جاسکیں۔ میں نے چیئرمین ایف بی آر کو تجویز دی کہ ان آڈیٹرز کی تعیناتی میرٹ پر کی جائے اور طویل المیعاد مدت کیلئے ایف بی آر کی کیپسٹی بڑھائی جائے۔ ٹیکس ترامیم کے ملکی معیشت پر اثرات کے مدنظر قائمہ کمیٹی فنانس اینڈ ریونیو نے رکن قومی اسمبلی بلال کیانی کی قیادت میں مجھ سمیت تین اراکین پارلیمنٹ پر مشتمل ایک سب کمیٹی تشکیل دی ہے جو ایف بی آر کے چیئرمین، اُن کی ٹیم، رئیل اسٹیٹ اور کنسٹرکشن سیکٹر کے اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر ٹیکس ترامیم کے بل کو فائنل کرے گی۔ اس سلسلے میں ہماری چیئرمین ایف بی آر اور ان کی ٹیم کے ساتھ دو میٹنگز ہوچکی ہیں۔ چیئرمین ایف بی آر راشد محمود لنگڑیال ملکی معیشت کو دستاویزی شکل دینے میں نہایت سنجیدہ ہیں اور امید ہے کہ ہم ملکی مفاد میں ایسی ترامیم پر اتفاق کرلیں گے جس سے معیشت پر منفی اثرات نہ پڑسکیں۔