• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارتی وزیر خارجہ نرملا سیتارمن نے یکم فروری2025ء کو بجٹ پیش کرتے ہوئے تنخواہ دار طبقے پر عائد ٹیکسوں میں بہت بڑی کمی کا اعلان کیا ہے ۔سالانہ 12لاکھ روپے یعنی 13800ڈالر کمانے والوں پرکسی قسم کاٹیکس عائد نہیں ہوگا جبکہ زیادہ تنخواہ لینے والے افراد کیلئے بھی انکم ٹیکس کی شرح میں کمی کا اعلان کیا گیا ہے۔یعنی پاکستانی کرنسی کے مطابق ماہانہ 3لاکھ روپے سے زائد جبکہ سالانہ 38لاکھ 54ہزار روپے تنخواہ لینے والے انکم ٹیکس سے مستثنیٰ ہوں گے۔جبکہ وطن عزیز پاکستان میں صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے ۔گزشتہ چند برس کے دوران تنخواہ دار طبقے پر ٹیکسوں کی بھرمار کرکے عام آدمی کی کمر توڑ دی گئی۔اگر آپ گزشتہ برس کی ٹیکس دستاویزات اُٹھا کر دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ ٹیکس وصولی میں تنخواہ دار طبقہ تیسرے نمبر پر آچکا ہے ۔فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے 2023-24ء میں تنخواہ دار ملازمین سے 368ارب روپے انکم ٹیکس جمع کیا جو گزشتہ برس کے مقابلے میں 103.74ارب روپے زیادہ ہے ۔یعنی صرف ایک سال میں اس مظلوم طبقے سے ٹیکسوں کی وصولی کی شرح 39.3فیصدبڑھ گئی۔

2024-25ءکی بات کریں تو پہلی ششماہی میں تنخواہ دار طبقے سے 243ارب روپے وصول کئے گئے جو گزشتہ مالی سال کی پہلی ششماہی کے مقابلے میں 157ارب روپے زیادہ ہیں ۔رواں مالی سال تنخواہ پر انحصار کرنے والے پاکستانیوں سے 500ارب روپے جمع کرنے کا ہدف ہے جو باآسانی پورا ہوتا دکھائی دے رہا ہے ۔مگر مجموعی طور پر ایف بی آر کو بہت بڑے خسارے کا سامنا ہے اور ہر ماہ شارٹ فال بڑھتا جارہا ہے۔جنوری میںبھی ایف بی آر ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہا۔956ارب روپے جمع کرنے کا ٹارگٹ تھا جبکہ 800ارب روپے جمع کئے جا سکے ۔FBRکو رواں مالی سال کے ابتدائی سات ماہ یعنی جولائی سے جنوری تک 468ارب روپے کے شارٹ فال کا سامنا ہے کیونکہ 6964ارب روپے جمع کرنے کا ہدف تھا اور 6496ارب روپے جمع کئے جا سکے ۔وجہ صاف ظاہر ہے کہ سرمایہ کاروں سے ٹیکس وصولی کیلئے کام کرنا پڑتا ہے جبکہ تنخواہ دار طبقے کا ٹیکس بیٹھے بٹھائے وصول ہوجاتا ہے ۔اگر پالیسی سازوں کی ستم ظریفی کی روداد یہیں تک محدود ہوتی تو شاید شکایت کی نوبت نہ آتی مگر کسی پہ’’کرم‘‘اور کسی پہ ’’ستم‘‘کے غیر منصفانہ اور امتیازی سلوک سے معلوم ہوتا ہے کہ ریاست وہ ماں ہے جس کیلئے کچھ بچے لاڈلے ہیں اور بعض بچوں کا شمار ناپسندیدہ اولاد میں ہوتا ہے ۔

ایک طرف تنخواہ دار اورمزدور طبقے سے دو وقت کی روٹی چھین لی گئی اور دوسری طرف دولت مندوں کو نوازنے کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔اطلاعات ہیں کہ رئیل اسٹیٹ سیکٹر کی بحالی کیلئے ریلیف پیکیج تیار کیا جارہا ہے ۔وزیراعظم کی ہدایت پر جو ورکنگ پیپر تیار کیا گیا ہے اس کے مطابق نہ صرف فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی ختم کی جارہی ہے بلکہ پلاٹوں کی خرید و فروخت پر عائد ٹیکسوں کی شرح میں بھی کمی کی جائے گی۔ہائوسنگ کیلئے پانچ کروڑ روپے کی چھوٹ دی جارہی ہے۔چیئرمین ایف بی آر سے منسوب یہ بیان کئی ٹی وی چینلز نے چلایا کہ پراپرٹی سیکٹر میں پانچ کروڑ روپے تک کی سرمایہ کاری پر کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوگی ۔یعنی جو کالا دھن چھپا کر رکھا گیا تھا ،اس سے کسی پوش علاقے میں پلاٹ خریدیں ،کوئی یہ سوال نہیں کرے گا کہ پیسہ کہاں سے آیا۔یہ سوال کرائے کے گھروں میں رہنے والے سفید پوش افراد سے پوچھا جائے گا کہ تمہارے اکائونٹ میں جو پچاس ہزار روپے آئے ہیں وہ کس نے بھیجے ہیں ۔

عام آدمی کے بینک اکائونٹ بلاک ہوں گے ،اس کے اکائونٹ میں گھر کا خرچہ چلانے کیلئے جو تھوڑی بہت رقم ہو گی ،ڈاکہ ڈال کر وہ نکال لی جائے گی ،بلاوجہ نوٹس بھیج کر اسے پریشان کیا جائے مگر رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کرنے والوں کو تنگ نہیں کیا جائے گا۔یہ ہے ایف بی آر کی نئی پالیسی۔

جب ناروا ٹیکسوں پر احتجاج کیا جائے تو بتایا جاتا ہے کہ ملک آئی ایم ایف کے چنگل میں پھنسا ہوا ہے ،کیا کریں ،ہماری مجبوری ہے ۔کوئی کم بخت یہ نہیں بتاتا کہ آئی ایم ایف کی طرف سے تو ٹیکس وصولیوںمیں اضافے کا کہا جاتا ہے جس کا مطلب ہے ٹیکس نیٹ بڑھایا جائے ،ٹیکس چوروں کو پکڑا جائے مگراس کا آسان حل یہ نکال لیا جاتا ہے کہ تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس بڑھا دیا جائے ،پیٹرول اور بجلی پر ٹیکسوں کی بھرمار کردی جائے تاکہ ایف بی آر کو بھاگ دوڑ نہ کرنی پڑے اور ٹیکس وصولی کا ہدف باآسانی حاصل کیا جاسکے ۔ایف بی آر کے ایک سابق چیئرمین کا بیان ریکارڈ پر موجود ہے کہ اگر فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے تمام ملازمین کو گھر بٹھا دیا جائے تو ٹیکس وصولی میں کوئی کمی نہیں آئے گی بلکہ عین ممکن ہے ٹیکس ریونیو بڑھ جائے ۔

تلخ حقیقت یہ ہے کہ جب تک ایف بی آر کا قبلہ درست نہیں کیا جاتا ،اصلاحات کا نفاذ نہیں ہوتا ،تب تک یونہی افراط و تفریط کا معاملہ رہے گا۔ہمارے ہاں جس طرح ہر حکومت تھانہ کلچر تبدیل کرنے کا دعویٰ کرتی ہے اسی طرح ہر دور میں ایف بی آر کلچر بدلنے کی کوشش کی جاتی ہے مگر عملاً حالات بد سے بدتر ہوتے چلے جاتے ہیں ۔

نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کے دور میں ایف بی آر کا ڈھانچہ تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی تاکہ ٹیکس وصولی اور مالیاتی پالیسیوں کے شعبہ جات کو الگ کیا جاسکے مگر جن سرکاری افسروں کے مفادات پر زد پڑتی تھی، انہوں نے یہ کام نہیں ہونے دیا۔وزیراعظم شہبازشریف کئی بار اس عزم کا اظہار کرچکے ہیں کہ ایف بی آر کو سدھارنا ان کی حکومت کا سب سے بڑا ہدف ہے لیکن ابھی تک اس حوالے سے کسی قسم کی کوئی پیشرفت نہیں ہوسکی۔بالعموم چند افسروں کو کھڈے لائن لگا کر یہ سمجھا جاتا ہے کہ اب ایف بی آر کاکلچر تبدیل ہوجائے گا لیکن ٹیکس کے نظام کو بدلنے اور بڑے پیمانے پر اصلاحات لانے کی ضرورت ہے۔

تازہ ترین