اول تو میں تقریبات پر کالم بہت کم لکھتا ہوں اور جو لکھتا بھی ہوں تو سمجھیں کہ بس گلے پڑی مصیبت ٹالنے کی کوشش کرتا ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تقریباتی کالم کو اگر کوئی کالم بنانا جانتا ہے تو وہ صرف انتظار حسین ہیں، ورنہ یہ روئیداد کی ذیل میں آ جاتا ہے۔ تاہم اس دفعہ ایک نئی مصیبت گلے آن پڑی ہے۔ یہ نیشنل بک فائونڈیشن (این بی ایف) کے سہ روزہ کتاب میلے کی کہانی ہے جو اسلام آباد میں منعقد ہوا۔ میں برضا و رغبت اس پر کچھ لکھنا چاہتا ہوں کہ یہ اپنی نوعیت کی ایک بہت بڑی اور منفرد تقریب تھی، مگر اس کی لمبائی، چوڑائی اور گہرائی کا احاطہ مجھ سے ہونا ممکن نظر نہیں آتا تاہم ایک بزرگ فاتح نپولین نے کہا تھا کہ ’’ان کی ڈکشنری میں ناممکن کا لفظ نہیں ہے‘‘ اس پر ایک ستم ظریف نے جملہ کسا تھا کہ ’’ڈکشنری دیکھ کر خریدنا تھی‘‘ بہرحال کوشش کر دیکھتا ہوں!
دراصل یہ ہے دوست مظہر الاسلام کے بعد ڈاکٹر انعام الحق جاوید این بی ایف کے منیجنگ ڈائریکٹر مقرر ہوئے جو ممتاز اسکالر، شاعر اور 40کتابوں کے مصنف ہیں، ابھی انہیں چارج سنبھالے صرف دو ماہ ہوئے تھے کہ نیشنل بک ڈے اور انٹرنیشنل بک ڈے کی سالانہ تقریبات کا اہتمام ان کی ذمہ داری ٹھہری، مگر اتنے کم وقت میں جو کہ دفتری معاملات کا جائزہ لینے کے لئے بھی کم تھا، ڈاکٹر صاحب نے اتنی عظیم الشان تقریبات کا اہتمام کر ڈالا کہ حاضرین کے لئے حیرت کے اظہار کے سوا کچھ نہیں تھا، ان تین دنوں میں کیا کیا کچھ ہوا، اس کی صرف ایک جھلک ملاحظہ فرمائیں۔ یعنی ان پروگراموں میں پیس کانفرنس، ڈائیلاگ آن ہیومن رائٹس، پاکستانی زبانوں کی لوک کہانیوں پر مبنی پروگرام، قصہ خوانی، کتاب خوانی اوورسیز پاکستانی رائٹرز کارنر، ایک پل ملٹی پل، چائے خانہ، ماڈل لائبریری، نسائی ادب، دی وژن بریل بُکس، لکی بک ڈرا، ریڈیو ڈسپلے، لینگویج لیبارٹری، یوتھ فل بک سیشن، بُک کاسل، بگ بک ریڈنگ، بُک واک کریبین نائٹس، گوگی شو، سفیرانِ کتب کانفرنس کتاب کہانی، اسیسیس ٹیکنالوجی کا پروگرام اور اس نوع کے کئی دوسرے پروگرام، اس کتاب میلے کا حصہ تھے۔ امید ہے پروگراموں کی اس جھلک سے آپ کی تسلی ہو گئی ہو گی، مگر وہ جو کہتے ہیں کہ شنیدہ کے بود مانند دیدہ۔ تو جس نے یہ میلہ نہیں دیکھا۔ وہ اس کی رونق اور اس کی جگمگاہٹ کا صحیح اندازہ نہیں لگا سکتا!
نیشنل بک فائونڈیشن کے کتاب میلے میں ان پروگراموں اور ان ایسے بہت سے دوسرے پروگراموں کے علاوہ دو ’’مرکزی‘‘ پروگرام بھی تھے، ایک ضیاء محی الدین اور ایک راقم الحروف کے ساتھ۔ این بی ایف نے ان پروگراموں کو ’’ایوننگ ود لیونگ لیجنڈز‘‘ کا نام دے رکھا تھا ضیاء محی الدین نے مختلف کتابوں سے اقتباسات اپنے مخصوص انداز میں پڑھ کر سنائے اور میں نے اپنی طنز و مزاح کی تحریروں سے سامعین کو محظوظ کرنے کی ’’کوشش‘‘ کی۔ میرے پروگرام کی نظامت اداکارہ ریما اور اینکر فرح حسین نے کی۔ ریما نے پروگرام کے شروع میں اساتذہ کے بہت خوبصورت اشعار بھی سنائے اور پھر میری طنز و مزاح کی کتاب ’’وصیت نامے‘‘ کے کچھ اقتباسات بھی نذر سامعین کئے۔ مگر ریما کے اس خراج تحسین کا شکریہ کیسے ادا کروں کہ تقریب کے اختتام پر جب میں ہجوم میں گھرا ہوا تھا انہوں نے آگے بڑھ کر میرے گالوں کو بوسہ دیا! یہ ایک فنکار کی طرف سے ایک قلمکار کے لئے خلوص بھری عقیدت کا مظاہرہ تھا۔ فرح حسین نے میرے حوالے سے بہت خوبصورت زبانی گفتگو کی۔ اس کے بعد میں تھا اور حاضرین تھے اللہ تعالیٰ انہیں اس صبر جمیل کا اجر عطا فرمائے جو انہوں نے دو گھنٹے تک مجھے مسلسل سنا۔۔۔ اور جہاں تک ضیاء محی الدین کا تعلق ہے، تو ان کے بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں۔ موصوف کے نام پر لوگ کھنچے چلے آتے ہیں اور وہ پرانی تحریریں بھی اسی طرح پڑھتے ہیں کہ وہ نئی لگنے لگتی ہیں! مشتاق احمد یوسفی نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ’’ہم نے غالب کو جب بھی پڑھا، وہ ہر دفعہ نیا لگا۔ یہ تو بعد میں پتہ چلا کہ ہمارا حافظہ کمزور ہے۔‘‘
میرے خیال میں بہت ضروری ہے کہ اس موقع پر ڈاکٹر انعام الحق جاوید کے علاوہ ان کے اسٹاف اور ان رضا کاروں کی ان تھک محنت کو بھی سراہا جائے جنہوں نے اس کتاب میلے کو یادگار بنا دیا۔ اور ہاں اس موقع پر سب سے زیادہ شکریہ کیبنٹ ڈویژن اور وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سنیٹر پرویز رشید کا بھی بنتا ہے جنہوں نے کانفرنس کے رستے کے کانٹے چنے اور قدم قدم پر ڈاکٹر صاحب کی رہنمائی اور تعاون کا مظاہرہ کیا۔ این بی ایف کا یہ کتاب میلہ عجیب طرح کا میلہ تھا، ایک ہی وقت میں دس بارہ اجلاس ہو رہے تھے، بڑوں کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں بچوں نے بھی اس کتاب میلے میں شرکت کی اور یوں کتاب کے ساتھ ان کی وابستگی اس عمر میں قائم ہو گئی جس کے اثرات عمر بھر انسان کی زندگی میں نظر آتے ہیں۔ کتاب میلے کے منتظمین کو اس امر کی مبارکباد بھی دینا ضروری ہے کہ انہوں نے ملک کے کونے کونے سے بغیر کسی ذاتی پسند و نا پسند کے صف اول کے ادیبوں کو مدعو کیا۔ میں اگر یہاں نام گنوانے بیٹھوں تو کالم لمبا ہو جائے گا۔۔ اور ہاں ہم لوگ بیورو کریٹس کو برا بھلا کہتے رہتے ہیں مگر یہاں کیبنٹ ڈویژن کے سیکرٹری اخلاق احمد تارڑ اور سینئر جائنٹ سیکرٹری ضیاء الحق کا شکریہ سب سے زیادہ واجب ہے جنہوں نے اس کتاب میلے کی تمام دفتری رکاوٹیں دور کرنے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ اور رفیق طاہر صاحب؟ ان کے بارے میں جو کچھ سنا یقین نہیں آتا تھا، انہوں نے ٹیکسٹ بکس کی فراہمی کے ضمن میں درپیش رکاوٹیں چشم زدن میں ختم کر دیں۔ کیا ہماری بیورو کریسی میں ایسے لوگوں کی تعداد میں مزید اضافہ نہیں ہو سکتا؟
اور ہاں صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان جناب ممنون حسین کو جب پتہ چلا کہ میں اسلام آباد میں ایک کانفرنس میں شرکت کے لئے آیا ہوا ہوں تو انہوں نے مجھے ازراہ محبت ایوان صدر دوپہر کے کھانے پر مدعو کیا جہاں تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ تک باہمی دلچسپی کے امور پر گفت و شنید ہوتی رہی، ممتاز قلمکار برادر عزیز فاروق عادل بھی کراچی چھوڑ کر ایوان صدر آ بسے ہیں۔