• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دس سال قبل مضبوط وزیر اعظم اسٹیفن ہارپر کو سیاسی طور پر پچھاڑ کر خود اسکی کرسی پر براجمان ہونیوالے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے اب مستعفی ہونے کا اعلان کرکے پارلیمانی کھیل میں آخری پتا پھینک دیا ہے۔ لیکن ہمارے لیے سیکھنے کی بات یہ ہے کہ ان کے وزیراعظم بنتے وقت اور مستعفی ہوتے وقت نہ کینیڈین اسٹیبلشمنٹ نے استعفیٰ مانگا اور نہ ہی وہاں آدھی رات کوسپریم کورٹ لگی۔ شروع سے لیکر آخر تک پارلیمانی سیاست کے اصولوں کے مطابق TACTICS استعمال ہوئے۔ دارالحکومت اٹاوہ میں وزیر اعظم کی سرکاری رہائش گاہ میں 15سال تک پرورش پانے والے جسٹن ٹروڈو کو اچھی طرح یاد تھا کہ ان کے والد پیری ٹروڈو نے 15سال وزیر اعظم رہنے کے بعد حکومت کو خیرباد کہنے کا فیصلہ اپنے ساتھیوں سے مشورے اور بقول ان کے "A WALK IN THE SNOW" یعنی خود غور و خوض کرنے کے بعد کیا تھا۔ اسی لئے جسٹن نے بھی اکتوبر میں ہونیوالے عام انتخابات تک حکومت سے چپکے رہنے کی کوشش نہیں کی۔ جب انکی ذاتی مقبولیت کم ہوگئی تو اسٹیبلشمنٹ کا سہارا مانگنے کی بجائے پارلیمانی سیاست کا ٹیکٹک استعمال کرتے ہوئے استعفیٰ دے دیا۔ اس کے پیچھے یہی سوچ کارفرما ہے کہ جب ان کی لبرل پارٹی کا نیا لیڈر منتخب ہو کر آئے گا تو لبرل پارٹی کی حکومت کے لئے پیدا شدہ ناپسندیدگی کے جذبات اگلے دس مہینوں میں کم ہو جائیں گے۔ نتیجتاً اکتوبر میں عام انتخابات میں ان کی لبرل پارٹی اکثریت حاصل نہ کرسکی تو بھی ٹروڈو کی نسبت نیا پارٹی لیڈر اور وزیراعظم زیادہ سیٹیں جیت سکے گا۔ پارلیمانی سیاست کی اس موثرحکمت عملی میں ہمارے لئے بہت بڑا سبق ہے کہ جو نتائج ہم غیر جمہوری ہتھکنڈوں سے حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہ پارلیمانی سیاست کے ذریعے بھی حاصل ہو سکتے ہیں۔ اسلئے ہمارے لیڈروں کو اس پارلیمانی کھیل کے دائو پیچ سیکھنے کی اشد ضرورت ہے۔مثلاً جب وزیر اعظم عمران خان کو علم ہوگیا تھا کہ اپوزیشن 8مارچ کو عدم اعتماد کی تحریک قومی اسمبلی میں جمع کروا دے گی اور اندازہ کرلینا چاہئے تھا کہ ان کی اتحادی جماعت ایم کیو ایم بھی اپوزیشن سے جا ملے گی تو 7مارچ کی شام قوم سے خطاب کرکے وہ اختیار استعمال کرتے جو پارلیمانی نظام میں صرف اور صرف وزیراعظم کے پاس ہوتا ہے، اپنی کابینہ سے بھی مشورے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یعنی 7مارچ کو قومی اسمبلی توڑ کر عام انتخابات کا اعلان کرکے اپوزیشن کو سرپرائز دیکر اس کے قدم اکھاڑ دیتے مگر اس طرح کی موثر حکمت عملی کیلئے اداروں کی رپورٹوں کی بجائے اپنی سیاسی ججمنٹ پر انحصار انتہائی ضروری ہے۔ چونکہ میڈیا میں آنے والی خبروں کے مطابق رتی برابر بھی شواہد نہیں تھے کہ ایم کیو ایم عمران خان کا ساتھ چھوڑ کر اپوزیشن سے جا ملے گی اسلئے وزیر اعظم پراعتماد رہے تھے کہ عدم اعتماد کی تحریک ناکام ہوگی جبکہ میں نے تحریک جمع ہونے کے روز 8مارچ کی شام ہی ایک ٹی وی چینل پر تجزیئے میں کہہ دیا تھا کہ یہ سو فیصد کامیاب ہو جائے گی (وہ ٹی وی پروگرام اب بھی انٹرنیٹ پر موجود ہے جو میں بوقت ضرورت بطور ثبوت پیش کرسکتا ہوں)۔ ہمارے لیڈروں کیلئے اشد ضروری ہے کہ وہ اپنی سیاسی ججمنٹ ڈویلپ کرنے پر خصوصی توجہ دیں تاکہ اداروں کی غلط اطلاعات پر مبنی رپورٹوں کو اوور رول کرسکیں۔ مزید یہ کہ پارلیمانی سیاست کا پروسیجر اور لفاظی ضرور سیکھیں۔ اگر 1947 سے آج تک درمیان میں ڈکٹیٹر شپ کے رخنے کے بغیر جمہوریت ہی رہتی تو ہمارے نمائندے پارلیمانی نظام کے اصول ضرور سیکھ جاتے۔ ہمارے قائدین پارلیمانی سیاست کے اصول سیکھیں کیونکہ فزیکل فورس کا استعمال سیاسی پارٹیوں کا اسٹرانگ پوائنٹ نہیں۔ جب سیاسی قائدین فزیکل فورس استعمال کرتے ہیں تو بالکل منطق کے عین مطابق گیم ان کے ہاتھوں میں آ جاتی ہے جن کا یہ اسٹرانگ پوائنٹ ہے۔ جیسے 5 جولائی 1977ء اور پھر اب 9مئی 2023 ءکے بعد ہوا۔

کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کو اپنی سیاست کے ابتدائی ایام میں پاکستانی روایات کے بالکل برعکس اپنی ہی پارٹی کی مخالفت برداشت کرنا پڑی۔ کہا گیا کہ یہ نوجوان صرف اپنے باپ کی وجہ سے آگے بڑھنا چاہتا ہے۔ پھر نوجوان جسٹن نے اپنا نام پیدا کرنے کے لئے کئی ایسے کام کئے جس سے ثابت ہوا کہ وہ خود بھی باصلاحیت ہے۔ مثلاً دیگر کاموں کے علاوہ ظاہری طور پر سیاست سے ہٹ کر ایک کارنامہ انجام دیا۔ چیریٹی کے لئے اپنے سے زیادہ جاندار اور صحت مند ایک سینیٹر کے ساتھ باکسنگ کا میچ کھیلا اور عمومی توقعات کے خلاف جیت لیا۔ اس طرح پورے ملک میں نوجوان جسٹن ٹروڈو ذاتی حوالےسے مشہور ہوگیا۔ پھر فن خطابت میں باقاعدہ تربیت حاصل کرکے اپنے آپ کو بہترین مقرر ثابت کیا۔ اس سے ہمیں بھی سبق حاصل کرنا چاہیے کہ لیڈروں کے بچوں کو اپنی قابلیت ثابت کئے بغیر شہزادوں کی طرح قبول کرنے کا وطیرہ ختم کرنا ہوگا تب ہی پاکستان ترقی کرے گا۔

اس وقت سابق وزیراعظم کے بیٹے جسٹن ٹروڈو کے واضح طور پر ذاتی قابلیت ثابت کرنے پر پارٹی لیڈر چنا گیا تھا۔ جبکہ اب اکتوبر میں عام انتخابات کے بعد ٹروڈو کی لبرل پارٹی کے مخالف کنزرویٹو پارٹی کے 45سالہ قائدPIERRE POILIEVRE کے وزیر اعظم بننے کے امکانات روشن ہیں۔پائیری کی ماں نےمعاشی وسائل نہ ہونے کے ناطے اس کو ایک اسکول ٹیچر جوڑے کوبطور لے پالک دیدیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیااتنا معمولی پس منظر والا ہمارے ہاں لیڈر ہوسکتا ہے؟ کیا ہمارے ہاں یہحقیقت سمجھی جائےگی کہ ٹاپ کلاس آئیڈیاز اور پالیسیاں درختوں پر نہیں اگتیں بلکہ اعلیٰ پائے کے اذہان کی پیداوار ہوتی ہیں؟ کیا ہمارے ہاں ذاتی ٹیلنٹ اور صلاحیت کی بنیاد پر افراد کو قائدانہ پوزیشنوں پر آنے دیا جائےگا؟۔

تازہ ترین