• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صدیوں سے اس دنیا کے سیاہ و سفید میں ہمارا حصہ’ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے‘۔ ادب ہو یا مصوری، موسیقی ہو یا تعمیرات، سیاسی تدبر ہو یا سائنسی فکر، علمی جستجو ہو یا مشین کا معجزہ، کار آسماں ہو یا بندوبست زمیں، ہمارا شعار فقط یہی ٹھہرا ہے کہ کبھی اپنی سہل کوشی کے زعم میں جدید سے انکار کرتے ہیں اور کبھی خودپسندی سے مغلوب ہو کر نئی دنیا کی تعمیر کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اس کشمکش میں ہماری پسماندگی اور نئی دنیا میں فاصلہ بڑھتا چلا جاتا ہے۔ ادب ہی کو لیجئے۔ پہلی عالمی جنگ کے آس پاس دنیا ایذرا پائونڈ، جوائس، لارنس، ایلیٹ، پرائوست اور کافکا کو دریافت کر رہی تھی۔ ہم عبدالرحمن چغتائی اور نیاز فتح پوری کی نثر لطیف پر سر دھن رہے تھے۔ یورپ اضافیت، منطقی اثباتیت اور وجودیت کے منطقے دریافت کر رہا تھا اور ہم نے برگسان، رینے گینوں اور اور آسوالڈ سپینگلرمیں پناہ لے رکھی تھی۔ لطف یہ ہے کہ کسی فلسفے یا نظریے کی کنہ تک پہنچنے کی کوشش نہیں کی۔ عنایت اللہ مشرقی مسولینی کا بیلچہ اٹھا لائے۔ تحریک خلافت کے مقامی رہنما کو ڈکٹیٹر کہا جاتا تھا۔ جوش صاحب ہٹلر سے لندن پر بمباری کی فرمائش کرتے رہے۔ جماعت اسلامی کا تنظیمی ڈھانچہ اشتراکی نمونے پر تعمیر کیا گیا۔ ہماری صحافت کے سرکاری نمدہ بافوں میں چوہدری محمد حسین اور میر نور احمد کے نام آتے ہیں۔ میر نور احمد اپنی کتاب ’مارشل لا سے مارشل لا تک‘ میں سرسید کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں۔ ’جمہوری نظام حکومت کا مقصد ہی غلط تھا اور اس مقصد کی جانب ہر قدم غلط تھا‘۔ علامہ اقبال کے چھٹے خطبے میں پارلیمنٹ کو اجتہاد کا حق دینے سے انکار ممکن نہ ہو سکا تو ضیا آمریت کے خود کاشتہ دانشوروں نے یہ بحث بھی چلائی کہ اقبال نے عمر کے آخری حصے میں اپنے خطبات سے رجوع کر لیا تھا۔ اصل قصہ یہ تھا کہ ضیاالحق منتخب نمائندوں کو حق فیصلہ سازی دینے کے مخالف تھے۔ انہیں مالک کاندھلوی اور ظفر احمد انصاری سمیت مذہبی طبقے کی حمایت حاصل تھی۔ آفرین ہے اس سیاسی شعور پہ جو 140 برس میں جمہوریت، آمریت، سیکولرازم، الحاد، اشتراکیت اور لبرل ازم کے فکری زاویوں میں فرق نہیں سمجھ سکا۔ برٹرنڈ رسل کی خودنوشت میں ایک لفظ Ennui سے واسطہ پڑا۔ معلوم ہوا کہ اسکا مفہوم ’بیزاری اور مسلسل استعمال سے پیدا ہونیوالی پامال کیفیت‘ ہے۔ آگے چل کر اس کی مثالوں سے واسطہ پڑا۔ پاکستان بننے کے بعد 1948 ءمیں پہلی فلم ’تیری یاد‘ کے نام سے بنائی گئی۔ اس فلم کی کہانی اور مکالمے ضیا محی الدین کے والد خادم محی الدین نے لکھے تھے۔ گیت قتیل شفائی اور سیف الدین سیف نے لکھے تھے۔ آشا پوسلے اور ناصر خان کے گرد گھومتی اس فلم کی کامیابی کے اسباب کچھ اور تھے لیکن ضعیف الاعتقاد فلم والوں نے ’تیری یاد‘ کی ترکیب کو کامیابی کا اسم اعظم سمجھ لیا۔ درجنوں فلموں اور گانوں میں یہ ترکیب استعمال کی گئی۔ نتیجہ یہ کہ اس بے رنگ سی ترکیب میں اگر کچھ رس تھا تو وہ بھی جاتا رہا۔ ہمارے ملک میں ’سیاسی شعور‘ کی ترکیب کیساتھ بھی کچھ ایسا ہی سلوک ہوا۔ ہمارا سیاسی شعور تحریک خلافت میں جاگا۔ کسی نے نہیں پوچھا کہ ہندوستان پر ساڑھے آٹھ سو برس مسلمان خاندانوں کی حکومت میں ترکی خلافت کا کیا کردار تھا؟ عالمی جنگ اس زمانے کی بڑی طاقتوں کا کھیل تھا جس میں محکوم ہندوستانی مسلمانوں کے پاس سوائے خام جذبات کے کچھ نہیں تھا۔ اسی خروش میں’سول نافرمانی‘ اور ’تحریک ہجرت‘ کو دینی تقاضا قرار دیدیا گیا۔ کانگرس تو سیاسی کھیل کھیل رہی تھی۔ سیاست میں موقف بدلا جا سکتا ہے لیکن مذہبی فریضہ قرار دینے کے بعد کیسے پیچھے ہٹا جائے؟ نتیجہ یہ کہ ہزاروں مسلمان سرکاری ملازمتوں سے محروم ہوئے۔ طالب علموں کی تعلیم ادھوری رہ گئی اور گھر بار چھوڑ کر افغانستان کی طرف نکلنے والے لٹ پٹ کر واپس چلے آئے۔ ترکوں نے 1924ء میں خلافت کا منصب ہی ختم کر دیا۔ ہندوستان میں البتہ 1928ء تک خلافت کے نام پر چندہ جمع ہوتا رہا۔ 1916ء میں میثاق لکھنؤجداگانہ انتخابات کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔ تعجب ہے کہ اس معاہدے میں پنجاب اور بنگال میں مسلم اکثریت قربان کر کے شمالی ہندوستان کے ان منطقوں میں نیابت حاصل کی گئی جہاں مسلمانوں کی تعداد بمشکل بیس فیصد تھی۔ پنجاب میں یونینسٹ پارٹی، بنگال میں کرشک سرامک پارٹی اور یو پی میں ایگری کلچرسٹ پارٹی کی سیاست کا غلغلہ تھا۔ ہم تاریخ لکھتے ہوئے یہ نہیں پوچھتے کہ 1920ء سے 1924ء تک چار برس آل انڈیا مسلم لیگ کہاں تھی؟ جب قائداعظم 1930ء سے 1934ء تک برطانیہ میں تھے تو مسلم لیگ کون چلا رہا تھا؟ اور پھر ایک خوبصورت صبح مسلمانوں کے سیاسی شعور نے بیدار ہو کر پاکستان حاصل کیا۔ جس کے بارے میں آج تک طے نہیں ہو سکا کہ یہ مسلمان اقلیت کے مفادات کے تحفظ کے لیے حاصل کیا گیا یا یہاں پر مذہبی حکومت قائم کرنا مقصود تھا۔ مشکل یہ ہے کہ ہندوستان کی مسلمان قیادت نے ’قوم‘ کی اصطلاح پر کبھی غور ہی نہیں کیا۔ اگر 1947ء میں ہندوستان کے دس کروڑ مسلمان ایک قوم تھے تو2025 ء میں موجودہ ہندوستان کے 22کروڑ مسلمان ایک قوم کیوں نہیں ہیں؟ اگر پاکستان میں سیکولرازم کا نام لینا غلط ہے تو جمعیت علمائے ہند سمیت ہندوستان کی مسلم جماعتیں سیکولرازم کا تقاضا کیوں کرتی ہیں؟ اگر ایوب خان کیخلاف تحریک جمہوری شعور تھی تو یہ شعور مشرقی پاکستان میں فوجی کارروائی پر خاموش کیوں رہا؟ اگر آزاد عدلیہ کی تحریک سیاسی شعور کا آغاز تھی تو وکلا کا یہ سیاسی شعور میمو گیٹ اور پانامہ کیس میں کیوں نہیں جاگا؟ سنا جاتا ہے کہ ان دنوں پھر ہمارا سیاسی شعور کسمسا رہا ہے۔ ایک صاحب صفا نے راکھ کے ڈھیر میں جمہوریت، قانون کی بالادستی اور انصاف کی چنگاریاں دہکا دی ہیں۔ تاہم اپنی تاریخ کے تناظر میں جان لیجئے کہ حالیہ سیلابی ریلا بھی سیاسی شعور نہیں، منٹو کے افسانے ’دھواں‘ کی جذباتی کیفیت ہے جس میں ’آپ کی یاد آتی رہی رات بھر‘۔

تازہ ترین