• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ ہفتہ ایک عجیب کشمکش میں گزرا ۔ ایک طرف نامعلوم افراد حامد میر پر کراچی میں حملہ آور ہوئے ،تو دوسری طرف ایک خفیہ ادارہ الزامات کی زد میں آیا جس کے باعث فوج کے اندر شدید اضطراب پیدا ہوا۔ یہ بھی محسوس ہونے لگا کہ حکومت کے بعض اہم ارکان جو خفیہ ایجنسیوں کے ہاتھوں زخم کھائے ہوئے ہیں ،اُن کے اندر ایک طوفان اُبل رہا ہے جو مختلف صورتوں میں اپنا اظہار کرتا رہتا ہے۔ وزیراعظم نوازشریف جو اعصاب شکن عوامی مسائل میں گھرے ہوئے ہیں،اُنہوںنے حالات پر قابو رکھنے کی سرتوڑ کوشش کی ،مگر وہ قائدانہ کردار ادا نہ کر سکے۔ اِس کا غالباً بڑا سبب یہ ہے کہ اُنہوں نے بعض اہم فیصلے عجلت میں کیے ہیں۔ عدالت ِعظمیٰ نے لاپتہ افراد کے سلسلے میں وزیردفاع کو طلب کیا جس کا قلمدان وزیراعظم سنبھالے ہوئے تھے ،تو اُنہوں نے آناً فاناً خواجہ محمد آصف کو وزیردفاع مقرر کر دیا جو اپنے کاندھوں پر بجلی اور پانی کی وزرات کا بوجھ اُٹھائے ہوئے تھے جبکہ توانائی کے بحران میں روزبروز شدت آتی جا رہی تھی۔ 27نومبر 2013ء کی صبح فوجی قیادت میں تبدیلی کی تقریب پہلی بار بڑے تزک و احتشام سے منعقد ہوئی جس میں کالجوں کے طلبہ کے علاوہ ملک بھر سے اخبار نویسوں اور میڈیا اینکروں نے بھی حصہ لیا۔ اِس تقریب میں خواجہ آصف وزیردفاع کی حیثیت سے آئے ،تو فوج کے نئے سپہ سالار نے اُنہیں سیلوٹ پیش کیا جو خوشگوار تعلقات کا آغاز تھا ،مگر آنے والے دنوں میں خواجہ آصف کے ماضی میں ادا کیے ہوئے ’’ارشادات ‘‘ فوج کے ساتھ کشمکش میں ڈھلتے گئے جس کا اظہار کاکول اکیڈمی میں مارچ پاسٹ کے موقع پر ہوا۔30اپریل کو یومِ شہداء کی تقریب میں اُن کی شرکت سے اگرچہ ایک اچھا پیغام گیا ہے۔
پچھلے دنوں مجھے اپنی زندگی میں ایک بڑے ہی خوبصورت اور طرب انگیز تجربے سے لطف اُٹھانے کا موقع ملا۔ اسلام آباد میں ایک ایسی تقریب میں شمولیت کی دعوت ملی جو نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں منعقد ہو رہی تھی۔ یہ ایک رسالہ کی سالانہ انعامات کی تقریب تھی جس میں اہل قلم ، اہل دانش، موسیقار اور اداکار حصہ لے رہے تھے۔ مجھے قدرے حیرت ہوئی اور یہی تحیر مجھے اسلام آباد لے آیا تھا۔ کار میرے بیٹے کامران ڈرائیو کر رہے تھے۔للّہ کے نزدیک پہنچے، تو گاڑی کا ایک ٹائر برسٹ کر گیا ، تو مجھے بے اختیار اپنے عزیز دوست ذوالفقار احمد چیمہ یاد آئے جو اِن دنوں موٹروے اور ہائی ویز کے آئی جی لگے ہوئے ہیں۔ اُنہوں نے بے پناہ عقیدت کے اظہار کے ساتھ ساتھ یہ مژدہ سنایا کہ پولیس کا عملہ بہت جلد آپ کی مدد کو پہنچ رہا ہے۔ دو منٹ بعد ہی سب انسپکٹر اورنگزیب کا فون آ گیا اور اُنہوں نے ہماری لوکیشن معلوم کی۔ پانچ منٹ ہی گزرے تھے کہ ڈی ایس پی راجہ تنویر جو موبائل پر بات کر رہے تھے ،ہماری مدد کو آن پہنچے۔ ایسا محسوس ہوا کہ جناب ذوالفقار چیمہ نے پوری پولیس فورس میں ایک روح پھونک دی ہے جو فرض شناسی کے عظیم جذبوں سے سرشار ہے۔ جناب راجہ تنویر کی اعانت سے ہمارا مسئلہ حل ہو گیا اور ہم اپنی منزل کی طرف دوبارہ چل نکلے۔نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں قومی سلامتی کے عنوان سے ہٹ کر علم و ادب کی شبنم آرائی بہت اچھی لگی۔ تقریب کے مہمانِ خصوصی جناب اکرم زکی تھے جو ایک ممتاز شاعر اور ایک منجھے ہوئے ڈپلومیٹ ہیں ،اُنہوں نے قلم اور تلوار کے اِس تجربے کو اپنی قومی زندگی کا نہایت عظیم تجربہ اور ایک خوشگوار مستقبل کی ایک نوید قرار دیا۔ قلم جو تلوار سے کہیں زیادہ کاٹ دار ہوتی ہے ، اِس کا آہنگ اگر سنگ و آہن میں بھی شامل ہو جائے ، تو طاقت کے نئے سرچشمے پھوٹنے لگتے ہیں۔ رسالہ کی مدیر اعلیٰ محترمہ بشریٰ مسرور نے نئی نسل کے اہلِ قلم کی حوصلہ افزائی کے لیے ایک نئی رسم ڈالی ہے۔ اچھی تحریروں پر انعامات کا اعلان کیا جاتا ہے اور ایک سالانہ تقریب میں وہ بڑے اہتمام اور وقار سے تقسیم کیے جاتے ہیں۔ میں دیکھ رہا تھا کہ انعام حاصل کرنے والوں کا تعلق زیادہ تر متوسط اور کم وسائل رکھنے والے طبقے سے تھا اور وہ سبی ،بہاولپور ، فیصل آباد ،پشاور اور باجوڑ سے بھی آئے تھے۔ اِسی طرح تمام علاقائی زبانوں میں نغمے اور ترانے پیش کیے گئے۔ انعامات حاصل کرنے والوں میں خواتین پیش پیش تھیں۔ یوں قومی یکجہتی کے دلکشا مناظر دیکھنے میں آئے۔ بریگیڈیئر مسرور جوInstitute of Regional Studies and Analysisسے وابستہ ہیں اور قومی سلامتی کے موضوعات پر ورکشاپس کے منتظم ہیں جن میں فوجی افسروں کے علاوہ عوام کے منتخب نمائندے بھی شریک ہوتے ہیں۔ اِس کے علاوہ اِس یونیورسٹی میں میڈیا ورکشاپس کا بھی ایک سلسلہ جاری ہے اور اِن تمام ورکشاپس میں آزادیٔ خیال کی مکمل آزادی میسر ہے۔اِس طرح سول سوسائٹی کو اپنی فوج کے مزاج ،اُس کی ساخت اور اُس کی اسٹرٹیجک اہمیت کو سمجھنے کا بہت اچھا موقع ملتاہے۔مارگلا پہاڑیوں کے اِس پار سے آنے والی نغمہ کناں ہواؤں کے درمیان ہم نے ڈنر کھایا اور ہمیں رانا اطہر جاوید کے حقائق کی تہوں سے اُٹھنے والے تجربے سننے کا موقع ملا۔ اُنہوں نے کوپن ہیگن میں اپنی زندگی کی بہت ساری بہاریں دیکھی ہیں اور وہاں ’’پاکستان ہاؤس‘‘ کے نام سے ایک ادارہ بھی قائم کیا ہے۔ مٹی کی محبت اُنہیں اسلام آباد کھینچ لائی ہے۔ وہ مختلف یونیورسٹیوں میں پڑھاتے اور پاکستان کی سوچ کو فروغ دینے میں شب و روز سرگرداں رہتے ہیں۔ اب اُن کا شوقِ جنوں یہ ہے کہ ’’پاکستان ہاؤس‘‘ ایک معیاری تحقیقی ادارے کے طور پر اسلام آباد میں بروئے کار آئے اور قوم کو درپیش دہشت گردی کے چیلنج پر قابو پایا جائے۔30اپریل جسے فوج نے یومِ شہداء کے طور پر بڑے جوش و خروش سے منایا ،اِس کے سینے پر نہایت قیمتی راز منکشف ہوئے ہیں۔ جنرل راحیل شریف جو شہیدوں کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں ،اُنہوں نے عوام کے جذبات اور توقعات کے عین مطابق اعتماد کی قوت سے معمور پالیسی بیان دیا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ کشمیر ہمارے لیے شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے اور ہم ہر نوع کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کی صلاحیت سے لیس ہیں۔ یہ واشگاف اعلان بھی کیا کہ فوج آئین کی بالادستی، قانون کی حکمرانی اور جمہوریت کے تسلسل پر یقین رکھتی ہے اور وہ اِن عناصرکے ساتھ مذاکرات کے حق میں ہے جو آئین کو تسلیم کرتے اور قومی دھارے میں آنے کیلئے تیار ہیں۔ وہ یہ پیغام بھی دے رہے تھے کہ ہم دہشت گردی کو جڑ سے اُکھاڑ کر دم لیں گے۔ اُن کی اِس ایمان افروز تقریر کی ساعتوں میں وزیراعظم نے لندن سے اِس عزم کا اظہار کیا کہ حکومت ، فوج اور میڈیا کے تعاون سے ہم تمام اداروں کی اجتماعی طاقت سے مسائل حل کر لیں گے اور پاکستان کو ترقی اور خوشحالی کی شاہراہ پر گامزن کرنے میں کامیاب رہیں گے۔
لاہور میں بھی سرِشب یومِ شہدا منایا گیا۔ شہید ہونے والے سپاہیوں اور افسروں کی ماؤں ، بیویوں اور بھائیوں نے جس عظمت کا ثبوت دیا ،اُس نے ہزاروں کے اجتماع کو زندگی کی نئی معنویت سے سرشار کر دیا۔ لاہور کے کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل نوید زمان کا خطاب اپنی جامعیت ، ایمانی قوت ، الفاظ کی شوکت اور حسن ادائیگی کے اعتبار سے برسوں یاد رکھا جائے گا۔ محسوس ہوا کہ اُن کے اندر پرورش پانے والا جو ہر فوج کی داخلی تربیت کا ثمرہ ہے اور اِس تربیت کے نتیجے میں اعلیٰ فوجی کمانڈر اور علم و ادب کے شہسوار پیدا ہوتے رہیں گے۔ لاہور کی تقریب کا والہانہ پن اوراپنے وطن سے لازوال رشتہ ایک زندۂ جاوید منظر نامے کے ساتھ اُبھر کر سامنے آیا اور عوام کے دلوں میں اُتر گیا ہے۔شہیدوں کے لہو کی خوشبو جو گلاب ، چنبیلی اور رات کی رانی کے پھولوں سے کہیں پاکیزہ تر ہے ،ہر سمت پھیلتی جا رہی ہے اور شہادتِ حق ادا کر رہی ہے۔
تازہ ترین