(گزشتہ سے پیوستہ)
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اَپنی بہترین مخلوق کا درجہ عطا کیا۔ اُس میں خیروشر میں تمیز کرنے، معاملات کی گہرائی میں اترنے اور دُور تک دیکھنے کی صلاحیت ودیعت کی گئی ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ زیادہ تر لوگ خالقِ بحروبر کی عطا کی ہوئی گراںقدر نعمتوں سے پورا پورا فائدہ نہیں اٹھاتے جبکہ بعض اوقات ایسے افراد اِقتدار پر قابض ہو جاتے ہیں، جن میں مستقبل شناسی کی صلاحیت انتہائی محدود ہوتی ہے اور اُنہیں سامنے کی چیز بھی نظر نہیں آتی۔ پاکستان، جو قدرت کی مشیت سے وجود میں آیا ہے، اُس میں ایسے حکمران بھی آتے رہے ہیں جو دوراَندیشی سے کام نہیں لے سکے جس کے باعث ملک میں بعض خرابیاں مستقل حیثیت اختیار کر گئی ہیں۔ فی الحال ہم اپنے کالموں میں اُن دو صوبوں پر اپنی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں جہاں بدامنی اور دَہشت گردی کا عفریت حددرجہ ہلاکت خیز ہو گیا ہے۔ افغانستان جو پاکستان کا روزِ اوّل ہی سے مخالف تھا، اب خونریزی پر اُتر آیا ہے، حالانکہ پاکستان نے اُسے برسوں پر محیط سوویت یونین کی وحشیانہ یلغار سے نجات دلانے کیلئےناقابلِ فراموش قربانیاں دی ہیں۔ لگتا ہے کہ ہماری اِس بدقسمتی میں بیرونی عوامل کے علاوہ ہمارے بعض حکمرانوں اور منصوبہ سازوں کی ناقابلِ بیان کوتاہ نظری بھی شامل ہے۔
ہم یہ حقیقت پہلے بیان کرچکے ہیں کہ خان عبدالغفار خاں نے 1929ء میں خدائی خدمت گار تنظیم پختونوں کے حقوق کی حفاظت اور اَنگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کی خاطر قائم کی تھی اور اِس ضمن میں کچھ قابلِ ذکر عوامی اور سیاسی جدوجہد بھی کی تھی، لیکن تاریخ کے انتہائی نازک موڑ پر پہنچ کر وہ کورچشمی کا شکار ہو گئے اور سامنے کی یہ کھلی حقیقت بھی نہیں دیکھ سکے کہ ہندوستان تقسیم اور پاکستان وجود میں آ رہا ہے۔ اِس حوالے سے جب صوبہ سرحد میں ریفرنڈم کا مرحلہ قریب آیا ، تو خدائی خدمت گار تنظیم نے مطالبہ کیا کہ ہمیں یہ اختیار دِیا جائے کہ ہم آزاد پختونستان اور اَفغانستان میں شمولیت کا آپشن استعمال کر سکیں۔ انگریزوں نے یہ مطالبہ تسلیم نہیں کیا جس پر اُس نے ریفرنڈم کا بائیکاٹ کر دیا۔ اُس وقت سرحد کے غیور مسلمانوں میں پاکستان کی اہمیت کا بھرپور شعور پیدا ہو چکا تھا، چنانچہ اُنہوں نے لاکھوں کی تعداد میں پاکستان کے حق میں ووٹ ڈالے جبکہ انڈیا کے حصّے میں صرف دس ہزار کے لگ بھگ ووٹ آئے۔ برطانوی پارلیمنٹ سے منظورشدہ ’آزادیِ ہند قانون‘ کے مطابق 14؍اگست 1947ء کی شب بفضلِ خدا پاکستان وجود میں آ گیا اور چند ہی روز بعد خان عبدالقیوم خاں سرحد کے وزیرِاعلیٰ منتخب کر لیے گئے۔ وہ 1901ء کے لگ بھگ چترال میں پیدا ہوئے۔ اُنہوں نے علی گڑھ یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کی اور اِنگلستان کی معروف یونیورسٹی سے بیرسٹری کا امتحان پاس کیا۔ ہندوستان واپس آئے، تو اَپنی شخصی وجاہت اور اِنتظامی قابلیت کی بدولت وکالت اور سیاست میں بڑا نام پیدا کرنے میں کامیاب رہے۔ وہ اِنڈین نیشنل کانگریس سے وابستہ رہے، مگر اُنہیں بتدریج اِس امر کا گہرا اِحساس ہوتا گیا کہ حکیم الاُمت علامہ اقبال اور قائدِاعظم نے برِصغیر کے مسلمانوں میں آزاد وَطن کیلئے زبردست اُمنگ پیدا کر دی ہے، چنانچہ اُنہوں نے پختونوں میں پاکستان کی حمایت پیدا کرنے کا بیڑا اُٹھایا۔ شب و روز کانگریس کا زور توڑنے میں لگے رہے۔ وہ فروری 1946ء کے صوبائی انتخابات میں آل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے منتخب ہوئے۔
ریفرنڈم کی کامیابی کے فوراً بعد خان عبدالقیوم خاں وزیرِاعلیٰ کے منصب پر فائز ہوئے۔ وہ بڑا ہی پُرآشوب عہد تھا۔ ایک طرف خدائی خدمت گار پاکستان کی سخت مخالفت کر رہے تھے جن کو اَفغانستان کی مکمل حمایت دستیاب تھی۔ دوسری طرف تقسیم کے نتیجے میں بڑی افراتفری پھیلی ہوئی تھی۔ تیسری طرف لاکھوں کی تعداد میں لُٹے پُٹے مہاجر صوبہ سرحد میں بھی چلے آ رہے تھے جبکہ اُس کے وسائل انتہائی محدود تھے۔ وزیرِاعلیٰ خان عبدالقیوم خاں نے چند ہی مہینوں میں امن و اَمان کی بگڑی ہوئی صورتِ حال پر قابو پا لیا۔ وہ 1953ء تک اِس ذمےدار عہدے پر تعینات رہے اور اِس عرصے میں اُنہوں نے بڑے بڑے کارنامے سرانجام دیے۔ اُن کی بدولت پورے صوبے کا حلیہ ہی تبدیل ہو گیا تھا۔ اُن کا ایک ناقابلِ فراموش کارنامہ سیاسی عمل کے ذریعے شمال مغربی سرحدی صوبے کو پاکستان میں شامل کرانا اور سرکش قوتوں کا زور توڑ دینا تھا۔ انگریزوں نے اپنے سیاسی مقاصد کیلئے اِس صوبے کو پسماندہ رَکھا اور آزاد قبائل کو اَپنے قابو میں رکھنے کیلئے اُن پر فوجیں تعینات کی تھیں۔ قائدِاعظم نے وہ فوجیں ہٹا لیں جس کے نتیجے میں آزاد قبائل پاکستان کا حصّہ بن گئے اور اُس کی طاقت اور وُسعت میں اضافے کا باعث بنے۔ خان عبدالقیوم خاں کا تیسرا ناقابلِ فراموش کارنامہ صوبہ سرحد کو پسماندگی سے نکال کر اُسے ایک ترقی یافتہ معاشرے میں ڈھال دینا تھا۔ اُنہوں نے حیرت انگیز رفتار سے پورے صوبے میں اسکول اور کالج قائم کیے جن سے تعلیم کو بہت فروغ ملا۔ پشاور یونیورسٹی کا قیام بھی فی الحقیقت اُن کا بہت بڑا کارنامہ تھا۔ اِس کے علاوہ اُنہوں نے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر پر غیرمعمولی توجہ دی۔ قصبوں، تحصیلوں اور اَضلاع میں دیکھتے ہی دیکھتے سڑکیں اور پُل تعمیر ہونے لگے اور ترقیاتی کاموں کی ایک کہکشاں روشن ہوتی گئی۔ وارسک ڈیم کی تعمیر کا سہرا بھی خان عبدالقیوم خاں کی حکومت کے سر بندھتا ہے۔
آگے چل کر ہم اِس امر کا قدرے تفصیل سے جائزہ لیں گے کہ اِس قدر بلندقامت سیاسی قائد سے وہ کیا بنیادی غلطی سرزد ہوئی یا مستقبل بینی میں کیا بڑی کوتاہی ہوئی کہ اُس وقت سے صوبہ سرحد بدنظمی اور خون خرابے کی زد میں چلا آ رہا ہے۔ اِس پہلو پر بھی غیرمعمولی غوروخوض کرنا ہو گا کہ اِس سے چھٹکارا پانا اب کیونکر ممکن ہے۔ دہشت گردی کا ناسور عذابِ جاں بنتا جا رہا ہے۔ شاید اِسے محض طاقت کے ذریعے جڑ سے اکھاڑ دینا محال ہوتا جا رہا ہے۔ وقت کا اہم ترین تقاضا یہی ہے کہ تمام سیاسی اور عسکری دماغ سر جوڑ کر بیٹھیں اور جملہ اجتماعی دانش سے ایک جامع پالیسی اور ایکشن پلان مرتب کریں۔ آج ہماری قومی سلامتی کو بہت بڑا چیلنج درپیش ہے جس کی تباہ کاریاں بلوچستان میں خطرناک تیزی سے پھیلتی جا رہی ہیں۔ (جاری ہے)