دنیائے تخیل…محلہ شریفاں
شریف خاندان کے جانشین نواز شریف کے نام
السلام علیکم! میرےتابع فرمان اور ہونہار بیٹے مجھے ہوائوں نے خبر دی ہے کہ آج کل تمہاری طبیعت زیادہ ٹھیک نہیں رہتی تمہاری امی شمیم بیگم اور میں ہر وقت تمہاری درازی عمر بالخیر کیلئے دعائیں مانگ رہے ہیں، کل کلثوم بیٹی بھی بڑی پریشان نظر آ رہی تھی میں نے اسے بڑا حوصلہ دیا تمہارا چھوٹا بھائی عباس شریف خط لکھتے ہوئے میرے پاس ہی زمین پر بیٹھا میرے پائوں دبا رہا ہے وہ سلام بھی کہہ رہا ہے اور دعائیں بھی دے رہا ہے ابھی وہ مکئی کا ایک بھٹہ لایا تھا اور اس کے دانے اتار اتار کر مجھے اور تمہاری والدہ کو کھلا رہا ہے۔ دو دن پہلے میں علامہ اقبال کے ہاں حاضر ہوا تھا میں نے انہیں یاد کروایا کہ میں نے آپ سے ملاقات کی تھی، انہیں مکمل طورپر وہ ملاقات یاد تو نہیں تھی مگر پھر انہیں وہ زمانہ یاد آگیا۔ علامہ اقبال کو انکے بیٹے جاوید اقبال نے تمہارا نام لے کر بتایا کہ یہ وزیراعظم نواز شریف کے والد ہیں جنہوں نے مجھے سینیٹر بنوایا تھا، اس پر علامہ اقبال کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی مگر پھر اچانک انکے چہرے پر فکر مندی کے آثار ابھرے اور مجھے نصیحت بھرے لہجے میں کہنے لگے آپ کے خاندان کیلئے بہت ہی مشکل مرحلہ آ پہنچا ہے میں نے پریشان ہوکر پوچھا کہ اس مشکل سے کیسے نکلیں۔ علامہ اقبال نے جواب دیا میرے لئے تو آسان تھا، ایک ہی بیٹا تھا، جاوید۔ اس لئے میں نے اس کیلئے ہی نصیحتیں کیں جاوید نامہ اسی کے نام کیا۔ وصیت میں اپنے عقائد اور فلسفے کے بارے میں تلقین کی اور جاوید اقبال نے بھی اسے بخوبی نبھایا۔ جاوید اقبال نے مجھے بتایا کہ آپ کی اولاد میں سے نواز شریف بڑا تھا آپ کے بعد وہی آپ کا جانشین بنا، شہباز شریف سمیت سارے خاندان نے آپ کے بعد اسے والد کا درجہ دیا۔ لیکن اب اگلا مرحلہ درپیش ہے، نواز شریف کا سیاسی جانشین کون ہوگا؟ وفادار چھوٹا بھائی شہباز شریف جو وزیراعظم بھی ہے اور مقتدرہ کی آنکھ کا تارا بھی، دوسری طرف نواز شریف کی کرشماتی بیٹی مریم ہے جو ہٹ کی پکی اور براہ راست نواز شریف کی تربیت یافتہ ہے۔ علامہ اقبال نے کہا نواز شریف زندگی کے اس مشکل ترین فیصلے میں انصاف کر پائیں گے یا نہیں اسی پر شریف خاندان کے اکٹھے رہنے یا الگ ہو جانے کا انحصار ہے۔
جانِ پدر!
میں یہ مراسلہ تمہاری اسی مشکل کے حوالے سے لکھ رہا ہوں، تم نے ساری زندگی میرے سامنے اُف تک نہ کی، مجھے آسودہ اور خوش رکھنے کیلئے تم ہر وقت خود بھی اور تمہاری اولاد بھی ’’پباں بھار‘‘ رہتے تھے، تمہاری مجھ سے محبت کی مثالیں دنیا میں کم کم ملتی ہیں ہر انسان کو اپنی اولاد سے فطری پیار ہوتا ہے مگر مشترکہ خاندان میں اولاد کی محبت کو دل میں چھپا کر انصاف سے کام لینا پڑتا ہے وگرنہ خاندان ٹوٹ جاتے ہیں۔ رشتے شیشے کی طرح ہوتے ہیں ان میں بال برابر بھی تڑک لگ جائے تو یہ ٹوٹ جاتے ہیں۔ کل کلثوم آئی تو باتوں باتوں میں اس نے مریم کے کارناموں کا تفصیلی ذکر کیا اس نے مجھے اشاروں اشاروں میں گڑیا بیٹی کی ممکنہ جانشینی کا عندیہ بھی دیا، میں نے پوچھ لیا کہ شہباز شریف کے ہوتے ہوئے کیا یہ فیصلہ خاندان کو اکٹھا رکھ پائے گا؟ تو دانش مند کلثوم نے فوراً جواب دیا کہ فیصلے میں دیکھنا یہ ہوگا کہ عوام میں مقبول کون ہے؟ نواز شریف کی سوچ کے قریب کون ہے؟ کس میں توانائی زیادہ ہے؟ کون اتنا بہادر ہے کہ وہ اپنے موقف کے ساتھ کھڑا ہوسکے اور نتائج بھگتنے کیلئے بھی تیار ہو۔ کلثوم کی باتوں میں وزن تو تھا، میں نے خود مشاہدہ کیا تھا کہ مریم نے قید بہت بہادری سے کاٹی تھی مگر میں نے کلثوم کو کہا شہباز خاندان میں سب سے تجربہ کار ہے، تضادستان ایک مشکل ملک ہے وہاں مقتدرہ کی قبولیت بھی بہت ضروری ہے، لچک جتنی شہباز میں ہے ہمارے خاندان میں کسی میں بھی نہیں، خاندان کو اس نے کئی بار مشکلوں سے نکالا ہے۔ اسے نظر انداز کرنے سے مسلم لیگ نون ٹوٹ پھوٹ جائے گی۔
پیارے بیٹے!
تمہیں علم ہے کہ میں حضرت میاں محمد بخش عارف کھڑی شریف کے کلام سیف الملوک کا عاشق ہوں، جامی مجھے بہ آواز بلند جب اس عارف ِکامل کا کلام سناتا تھا تو میرے لئے علم و دانش اور دنیا داری کے نئے نئے دروازے کھل جاتے تھے، میں اپنی مشکل کے حل کیلئے میاں محمد بخش کے پاس حاضر ہوا۔ مجھے آتا دیکھ کر ہی وہ میری مشکل جان گئے اور کہنے لگے بھائیوں اور والد، والدہ کے بارے میں اشعار تو تمہیں معلوم ہی ہیں، بیٹے نواز شریف کو کوئی نام نہ بھیجنا بس اسے یہ کہہ دو کہ اسے اولاد کی محبت سے نکل کر فیصلہ کرنا ہے، بھائی کی ناراضی سے بھی نہ ڈرنا، بس وہ فیصلہ کرنا جو ملک کے مفاد میں ہو تمہاری سیاست کو بھی فائدہ ہو اور شریف خاندان کابھی بھلا ہو۔ آئندہ جانشین وہ ہونا چاہیے جو سارے خاندان کو ساتھ لے کر چلے، ناراضیاں کم کرے اور خاندانی رشتوں کو مضبوط کرے، اس وقت حمزہ بالکل الگ تھلگ بیٹھا ہے اس کا خیال بھی تم نے ہی کرنا ہے، شہباز تمہیں اس احساس محرومی کے بارے میں روز روز یاد تو نہیں کراسکتا۔
میرے تابع فرمان بیٹے!
مجھے علم ہے کہ تم مجھے دیکھ دیکھ کر جیتے تھے، میں محفل میں موجود ہوتا تو روئے سخن صرف اور صرف میری طرف ہوتا۔ میرے چہرے پر مسکراہٹ لانےکیلئے تم محفل کو کشتِ زعفران بنانے کا انتظام کرتے۔ بیٹا!! مجھے پتہ چلا ہے کہ تم کچھ ہی عرصہ بعد اپنی سیاسی جانشینی کا باقاعدہ اعلان کرنے والے ہو مجھے ایک خفیہ والے نے خبر دی ہے کہ تم فیصلہ کر چکے ہو اور اندازہ یہی ہے کہ تمہارا جھکائو گڑیا بیٹی کی طرف ہے، دیکھو! شہباز اور گڑیا دونوں ہی میرا خون ہیں، مجھے یہ بھی یقین ہے کہ تم نے یقیناً انصاف سے فیصلہ کیا ہو گا، یہ بھی کہ پارٹی صدارت مریم کو سونپنے سے پارٹی میں جوش اور توانائی کی نئی لہر آئیگی، یہ بھی بتا دوں کہ یہ فیصلہ خاندان کے اندر بھی آسانی سے ہضم نہیں ہو گا، تم نے تو مشترکہ اتفاق خاندان کو خود اپنی آنکھوں سے ٹوٹتے دیکھا ہے ایک نسل تک تو اتفاق چل جاتا ہے پھر بغاوتیں ہوتی ہیں، اختلافات بڑھ جاتے ہیں۔ چودھری خاندان کا بھی ہماری طرح بہت اتفاق تھا۔ دونوں بھائیوں، شجاعت اور پرویز الٰہی نے جیسے تیسے ایک دوسرےکیلئے قربانیاں دے کر خاندانی نظام کو چلا لیا لیکن اگلی نسل یعنی سالک حسین اور شافع حسین آئے تو مونس الٰہی کی ان سے بن نہ سکی بلکہ سچ تو یہ ہے کہ انکی آپس میں باقاعدہ ٹھن گئی ہے۔ اتفاق خاندان بکھرا تو آج تک جڑ نہیں سکا۔ چودھری خاندان میں جو دراڑیں پڑی ہیں انکے بھرنے کا بھی کوئی امکان نہیں۔ شریف خاندان پہلے ہی دو بھائیوں اور ایک بہن اور انکے بچوں پر مشتمل ہے اب اسکو مزید نہیں ٹوٹنا چاہئے۔
آخر میں تمہیں یہی نصیحت ہے کہ شہباز شریف کے ساتھ صلاح مشورے سے یہ بڑا فیصلہ کرو، اسکی دل جوئی ہوگی، وہ اس وقت سسٹم کے اندر ہے اسے اندر ہی رہنے دو، اگر اسے پارٹی میں ثانوی عہدہ دیا گیا تو اسکی سیکورٹی حیثیت چھوٹی ہوجائیگی اور وہ وفاقی حکومت میں کمزور سے کمزور تر ہوتا چلا جائیگا۔ سب اہل خاندان کو سلام۔
والسلام۔ اباجی، میاں محمد شریف