• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سبحان اللہ! وطن دوستی کے ایسے ایسے دھارے اس دھرتی میں پوشیدہ تھے کہ بغیر کسی اشارے کے، شہدا کی عظمت کے ترانے پڑھتے سڑکوں پر نکل آئے۔ دفاع وطن کے لئے تن من دھن قربان کرنے کا اعلان کیا گیا۔اچانک سے محبت کے چشمے ابل پڑے۔ یہ منظر نسیم حجازی مرحوم کے ناولوں میں پڑھے تھے۔ الحمدللہ !اپنی آنکھوں سے دیکھ لئے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ حکومت نے اس ضمن میں چھنگلی تک نہیں ہلائی۔ سیاسی جلسوں کے لئے پٹواریوں کو تھپکی دینا پڑتی ہے۔ سرکاری محکموں کے تار ہلائے جاتے ہیں۔ اسکول، کالج کے اساتذہ کو حاضری کا حکم دیا جاتا ہے۔ غرض اچھا خاصا طوفانِ نوح اٹھانا پڑتا ہے تب کہیں جا کر عوام کی امنگوں کو نعرہ نصیب ہوتا ہے۔ یہاں کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوئی۔ ایسا ہوا کہ سب سے پہلے مختلف شہروں میں تاجر برادری کی حمیت جوش میں آئی۔ راتوں رات چوراہوں میں بینر آویزاں ہو گئے۔ کھمبوں پر وطن دوستی کے پھول کھل اٹھے۔ پرنٹنگ پریس والے نے دھیلا نہیں لیا۔ ممتاز مفتی والے سبز پوش بزرگ اور اشفاق احمد کے بابے سیڑھیاں اٹھائے رات بھر سڑکوں پر لشکر کا علم آویزاں کرتے رہے۔ خدا ان تاجروں کو نیکی کی مزید توفیق دے۔ کوئی دن جاتا ہے کہ پارسائی اور تقویٰ کے یہ پتلے ٹیکس دینے پر بھی مائل ہو جائیں گے۔
کاروباری حلقوں میں کیبل آپریٹرز ایسوسی ایشن کی اہمیت کسی بیان کی محتاج نہیں۔ ابھی چند برس پہلے نومبر 2007ء میں مشرف حکومت نے ذرائع ابلاغ کے کان اینٹھنا چاہے تو یہی صاحبان تھے جنہوں نے اپنی مدد آپ کے تحت گمراہ عناصر کا ناطقہ بند کیا۔ پرانے زمانے میں حکومتوں کو پریس قوانین کے نفاذ کی زحمت اٹھانا پڑتی تھی۔ سنسر وغیرہ کے بکھیڑے تھے۔ بدنامی الگ اور پھر شرپسند صحافی کسی نہ کسی طور اپنی بات کہنے میں کامیاب ہو جاتے تھے۔ کیبل آپریٹرز کے سیاسی شعور میں ترقی سے یہ مسئلہ حل ہو گیا۔ دفاع پاکستان کونسل ایک محب وطن اور مفید عام پلیٹ فارم ہے۔ بھارت سے تجارت کا سوال اٹھے یا یو ٹیوب نامی فتنہ درپیش ہو، یہ صالحین سردی گرمی کی پروا کئے بغیر کلمہ حق بیان کرتے ہیں۔ جلوس کے راستے میں حفاظتی انتظامات کی ذمہ داری بھی خود ہی اٹھاتے ہیں۔ پولیس کو زحمت نہیں دیتے۔ اللہ اللہ کیسا روح پرور منظر ہوتا ہے۔ باریش صورتیں، تنومند جسم ، ہاتھوں میں ایک جیسی لاٹھیاں ۔ وطن دشمن قوتیں سہم کے رہ جاتی ہیں۔ ملک کے بانیان نے تنظیم کے اصول پر زور دیا تھا۔ کالعدم تنظیموں میں اس قدر توانائی دیکھ کر ان کی بصیرت پر ایمان تازہ ہوتا ہے۔ گزشتہ صدی کے آخری عشرے میں جمہوری حکومتوں کی بدعنوانی بہت بڑھ جاتی تھی تو ان کا بوریا بستر گول کرنے سے کچھ روز پہلے اخبارات میں انجمن اصلاح معاشرہ کے درد مندانہ اشتہارات چھپتے تھے۔ اب اس جھنجھٹ کی ضرورت نہیں رہی۔ وطن عزیز میں ایک جل تھل مخلوق دریافت ہوئی ہے یعنی پانی میں بھی رہتی ہے اور خشکی پر بھی۔ پانی میں رہے تو سول سوسائٹی اور خشکی پر پائوں دھرے تو این جی او کہلاتی ہے۔ سول سوسائٹی کا چولا پہن کر آزاد عدلیہ کی دہائی دے تو قوم کی آواز ، این جی او کا روپ دھار کر عورتوں اور مذہبی اقلیتوں کے ساتھ ناانصافی کی نشاندہی کرے تو امریکی ڈالر ہڑپ کرنے والی عفریت۔ علامہ اقبال نے کیا خوب فرمایا ہے۔ موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں۔ حضرت اقبال کی بصیرت تو بحر بے کنار ہے۔ فرماتے ہیں ’اچھی ہے گائے، رکھتی ہے کیا نوک دار سینگ‘۔
اقبال ہی پر موقوف نہیں۔ خاکسار تو سمجھتا ہے کہ صدیوں سے اکابرین ملت اسی مبارک گھڑی کی نوید دیتے آ رہے تھے۔ پانی پت کے الطاف حسین حالی نے فرمایا تھا ’کچھ کر لو نوجوانو، اٹھتی جوانیاں ہیں‘۔ تو یہ من چلے کچھ روز پہلے تک سڑکوں پر ون ویلنگ کرتے تھے یعنی شارع عام پر دوڑتی موٹر سائیکل کا ایک پہیا ہوا میں اٹھا دیا۔ دیکھنے والوں کے دل دھک سے رہ گئے۔ کسی گاڑی سے جا ٹکرائے تو ایک قیامت برپا ہو گئی۔ اردو اخبار نویسوں کو گویا کئی روز کے لئے ادارئیے کا مضمون ہاتھ آ گیا۔ مغرب کی تہذیب کو کوسنے دیئے۔ انگریزی تعلیم کے لتّے لئے۔ لارڈ میکالے کا مرثیہ لکھا۔ گاہے پتنگ بازی کی خرابیوں کا نوحہ لکھا، گاہے انٹرنیٹ کی تباہ کاریاں بیان کیں۔ یک بارگی کچھ ایسی نیک ہوا چلی کہ یہ بگڑے دل جوان، پیشانی پہ حب وطن کی روشنی لئے، جوق در جوق گھروں سے برآمد ہوئے۔ لاہور میں ’ٹو وہیل ایڈونچر گروپ‘ نے موٹر سائیکل ریلی نکالی یعنی دو پہیوں پر مہم جوئی کرنے والوں کا قافلہ نکلا۔ دل والے جیتے رہیں۔ مہم جوئی کا جنون تو پہیے کے بغیر بھی فراٹے بھرتا ہے۔ جیپ البتہ چار پہیوں پر چلتی ہے جب کہ ایک پہیہ ہنگامی ضرورت کے لئے الگ رکھا جاتا ہے۔
شہدا سے یکجہتی کا اظہار کسی ایک آدھ شہر تک محدود نہیں رہا۔ ساہیوال میں جہاز گراؤنڈ ، تھرپارکر میں کشمیر چوک،میرپور ماتھیلو میں بھٹائی چوک، فیصل آباد میں ہلال احمر چوک، منڈی بہأالدین میں پریس کلب، بہاولپور میں ون یونٹ چوک، راولپنڈی میں لیاقت باغ اور گوجرانوالہ میں پریس کلب سے ریلیاں نکالی گئیں۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ، ملتان، قصور ، کنگن پور اور چونیاں میں بھی عوام اپنے جذبات کا بے ساختہ اظہار کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے۔ معاف کیجئے گا، ہمارے عظیم دوست ملک چین میں نصف صدی قبل آنے والے ثقافتی انقلاب میں کچھ ایسے ہی مناظر تھے۔ گجرات میں ریلی کی قیادت چوہدری شجاعت حسین کے برادر خورد چوہدری شفاعت حسین نے کی۔ واللہ! خان عبدالقیوم خان مرحوم کے بتیس میل لمبے جلوس کی یاد تازہ ہو گئی جو فیلڈ مارشل ایوب خاں کے انقلاب سے صرف ایک روز پہلے نکالا گیا تھا۔ یہ معمہ آج تک حل نہیں ہوا کہ قیوم خان صاحب کے جلوس کا رخ جہلم سے گجرات کی طرف کیوں تھا۔ جہلم کی مچھلی کا چناب کے پانیوں سے کیا تعلق ہے؟
ہم پر اچانک انکشاف ہوا ہے کہ گزشتہ مئی میں ہونے والے انتخابات تو دھاندلی کا شاہکار تھے۔ بھائی یہ کچھ ایسی عجیب دھاندلی تھی کہ برسراقتدار سیاسی جماعت کا صفایا ہو گیا۔ نیز یہ کہ دھاندلی کا خمیازہ ان جماعتوں کو بھگتنا پڑا جو سرے سے انتخابی کھیل کا حصہ نہیں تھیں مثلاً پاکستان عوامی تحریک، تحریک استقلال اور آل پاکستان مسلم لیگ وغیرہ۔ ٹھیک سے کہئے نا کہ دھاندلی نہ ہوتی تو فرزند راولپنڈی شیخ رشید اور محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو قومی اسمبلی میں ایسی واضح اکثریت ملتی جسے فتح عظیم کہتے ہیں۔ ایک نکتے کی بات یہ سامنے آئی کہ پچھلے پچیس برس میں جو سات عام انتخابات اس ملک میں ہوئے، سب جھرلو کا نمونہ تھے۔ البتہ یہ وضاحت نہیں ہو سکی کہ یہ استمراری دھاندلی کس نے کی اور اس دھاندلی کا شکار کون ہوتا رہا؟ بالکل اسی طرح جیسے ملک بھر میں شہدا کے حق میں جلوس نکلے ہیں لیکن کسی نے یہ اشارہ تک کرنے کی ہمت نہیں کی کہ گزشتہ دس برس میں ہمارے پچاس ہزار شہری اور چھ ہزار فوجی شہیدوں کا قاتل کون ہے؟
تازہ ترین