مری مٹی کی قسمت میں بھیانک خواب آتے ہیں
کبھی بارش نہیں ہوتی ، کبھی سیلاب آتے ہیں
سیلابوں سے اپنا واسطہ خاصا پرانا ہے مگر ان سے کچھ زیادہ تکلیف شاید اس لئے نہیں ہوتی کہ ہم اپنی بارشوں کے موسموں کو جانتے ہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ برسات ہماری زندگی کا حصہ ہے بارشیں ہوتی ہیں تو دریا گرجتے ہیں، جھیلوں کے دامن بھر جاتے ہیں، ندیوں کی روانیاں زمینوں کو شاداب کرتی ہیں۔ یعنی بارش امید اور تجدید لے کر آتی ہے۔ آسمان سے گرتی ہوئی ہر بوند الٰہی کے تحفے سے کم نہیں ہوتی۔ کسان بادلوں کو دیکھتے ہیں تو انہیں معلوم ہو جاتا ہے کہ ہمارے کھیت سونا اگلنے والے ہیں۔ وہ فطرت کی تال پر بھروسہ کرتے ہیں۔ اس کے فضل پر یقین رکھتے ہیں۔ لیکن ابھی پتہ چلا ہے کہ ہواؤں نے اپنا رخ بدل لیا ہے۔ بادلوں میں زمین کو ہریالی عطا کرنے والے موتیوں کی مقدار کم ہو گئی ہے۔ ستمبر دو ہزار چوبیس سے اب تک چالیس فیصد بارشیں کم ہوئی ہیں۔ پانی کا وہ قطرہ جو آسمان سے اترتا تھا اور زندگی کو رنگین کرتا تھا اب ایک بھولے ہوئے خواب کی طرح غائب ہو تاجا رہا ہے۔ سندھ میں بارشیں صرف اڑتالیس فیصد ہوئیں۔ باون فیصد کمی نے سبزہ و گل کے آنگن میں اداسیاں بھر دی ہیں۔ بلوچستان کو اب بارشوں سے اپنے روایتی تحفے کا صرف 55فیصد مل رہا ہے۔ یعنی کمی پینتالیس فیصد ہے۔ پنجاب، جو ملک کے دل کی دھڑکن ہے، وہاں 42فیصد بارشیں کم ہوئی ہیں۔محکمہ موسمیات جس کی آنکھیں افق کو اسکین کرتی ہیں۔ وہ مستقبل میں بھی بارشوں کو کم دیکھ رہا ہے۔ اس نے تقریباً 30 فیصد کمی کی پیش گوئی کی ہے۔ یعنی خشک سالی کا امکان افق پر پھیل چکا ہے۔ کسان محتاط نظروں سے آسمان کو دیکھ رہے ہیں۔ انہیں فراوانی کے موسم ختم ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ زمین کے اندر بھی پانی کے ذخائر آہستہ آہستہ سکڑ رہے ہیں۔ ندیاں بھی خاموش ہوتی جا رہی ہیں۔
محکمہ موسمیات کی حالیہ رپورٹ کے مطابق اٹک، چکوال، راولپنڈی، اسلام آباد، بھکر، لیہ، اور ملتان جیسے علاقوں میں خاطر خواہ بارش نہیں ہوئی۔ اس کے علاوہ راجن پور، بہاولنگر، بہاولپور، فیصل آباد، اور سرگودھا میں بھی خشک سالی دیکھی گئی ہے۔ جن علاقوں میں فصلوں کا انحصار ہی بارش کے پانی پر ہوتا ہے جیسے چولستان، تھر یا پہاڑی علاقے، وہاں سب سے زیادہ فصلیں متاثر ہو رہی ہیں۔ زیر زمین پانی بھی بارش کی وجہ سے بلند ہوتا ہے بارش نہیں ہو گی تو وہ نیچے چلا جاتا ہے جس سے ٹیوب ویل بھی پانی نہیں نکال سکتے۔ توقع ہے کہ پیداوار میں بیس فیصد کمی ہو گی مگر یہ کمی پچاس فیصد تک بھی پہنچ سکتی ہے۔ یعنی قحط سالی کا امکان روز بروز بڑھ رہا ہے۔ حکومت کو ابھی سے اس پر پوری توجہ دینا ہو گی۔ کیونکہ یہ طے شدہ بات ہے کہ بارشوں میں چالیس فیصد کمی کسی بھی زرعی ملک کےلئے انتہائی خوفناک ہے۔ فضائی آلودگی اور اسموگ کے مسائل اپنی جگہ پر ہیں جنہیں صرف بارشیں ہی حل کر سکتی ہیں۔
پاکستان معاشی مسائل کی ایک پیچیدہ آماجگاہ بن چکا ہے۔ ایک زرخیز ملک ہونے کے باوجود، اپنے پاس بے پناہ قدرتی وسائل رکھنے کے باوجود ہمارا ملک معیشت کی ترقی میں مختلف چیلنجز سے دوچار ہے۔ ملکی معیشت میں استحکام لانے کے لیے ہمیں صرف زراعت کے مسائل ہی کا سامنا نہیں اور بھی بہت سے مسائل ہیں جن سے ہمکلام ہونے کی ضرورت ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں معاشی مسائل کی جڑیں سیاسی، سماجی اور انتظامی عوامل سے جڑی ہوئی ہیں۔ بہر حال اس وقت پاکستان میں مہنگائی ایک بڑا مسئلہ ہے اور مہنگائی کی وجوہات میں غیر مستحکم زر مبادلہ اور بڑھتے ہوئے درآمدی اخراجات اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
پاکستان کا بیرونی قرضہ مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔ توانائی کے شعبے میں عدم استحکام بھی ایک اہم مسئلہ ہے، ہم ابھی تک صحیح انداز میں اس سے معاملہ نہیں کر سکے۔ بیروزگاری کا عفریت روز بروز اپنے قامت میں اضافہ کرتا جا رہا ہے۔ خصوصاً نئی نسل کے لیے روزگار کے مواقع بہت محدود ہیں۔ صنعتیں بھی ترقی کی راہ میں رکاوٹوں کا سامنا کر رہی ہیں۔ انڈسٹریز کو جدید ٹیکنالوجی اور بہتر انفراسٹرکچر کی ضرورت ہے۔ کاروباری ماحول میں بہتری لانے سے ہی سرمایہ کاری میں اضافہ ممکن ہے۔ برآمدات اور درآمدات میں عدم توازن بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ مہنگائی، بجٹ خسارہ، بیرونی قرضہ، توانائی بحران، بیروزگاری، زرعی مسائل، صنعتی رکاوٹیں، سیاسی عدم استحکام اور بدعنوانی جیسے عوامل مل کر معیشت کو مسلسل متاثر کر رہے ہیں۔
کالم شروع کرتے وقت میرا خیال تھا کہ میں حکومت کو مشورہ دوں کہ وہ مالی نظم و ضبط برقرار رکھے اور غیر ضروری اخراجات میں کمی لائے مگر دل ِ پُردرد سے آواز آئی : قومی اسمبلی میں ایم این ایز نے متفقہ طور پر اپنی تنخواہیں تین گنا بڑھالی ہیں۔ یعنی اب ایک ایم این اے کی تنخواہ پانچ لاکھ سے کہیں بڑ ھ چکی ہے۔ کاش حکومت عام آدمی کی تنخواہ بھی تین گنا کرتی۔ اوپر سے یہ خشک سالی کا امکان۔ خدانخواستہ کچھ عرصہ اور بارشیں نہ ہوئیں تو غریب بیچارہ کہاں جائے گا۔