• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قارئین !لیبیا میں کشتی الٹنے سے متعدد پاکستانیوں کی ہلاکت کے بعد سے انسانی اسمگلنگ کا معاملہ ایک بار پھر ملک میں موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ چند روز قبل لیبیا میں ایک کشتی الٹنے سے متعدد افراد ہلاک ہوئے، جن میں 13افراد پاکستان سے بھی تھے، جو غیر قانونی طور پر لیبیا کے ساحل سے دور بحر متوسطہ کے علاقے میں روشن مستقبل کی تلاش میں یورپ جانے کے خواہش مند تھے، ان میں سے 11کی میتیں اسلام آباد کے بے نظیر بھٹو ایئر پورٹ پر ورثاء کے حوالے کر دی گئیں، جن میں سے اکثریت کا تعلق گوجر خان، گجرات، منڈی بہاؤالدین سمیت دیگر شہروں سے تھا۔ ڈائریکٹر لیبین کرائسز سیل شوزب عباس نے میڈیا کو بتایا کہ لیبیا میں 31جنوری کو کشتی ڈوبنے کا حادثہ ہوا، جس میں 13پاکستانی جاں بحق ہوئے۔ دوفروری کو خبریں موصول ہوئی تھیں کہ لیبیا کے سمندری علاقے میں مہاجرین کی کشتی ڈوبنے سے کم ازکم 90افراد ڈوب گئے۔4 فروری کو ترجمان دفتر خارجہ نے تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ لیبیا میں کشتی حادثے میں متاثرہ 80سے 90افراد میں سے 32پاکستانی تھے۔ حادثے میں 13پاکستانی جاں بحق ہوئے، جبکہ4 افراد کی شناخت نہیں ہو سکی۔ واضح رہے کہ ہلاک ہونے والے یہ افراد ان 16پاکستانیوں میں شامل میں تھے، جو 2فروری کو لیبیا کے ساحل سے دور بحر متوسطہ میں کشتی الٹ جانے کی وجہ سے سمندر میں ڈوب کر موت کے منہ میں چلے گئے تھے۔ حکومت نے انسانی اسمگلرز اوراْن کے ایجنٹس کو انجام تک پہنچانے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ میں انسانی اسمگلنگ سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے بھی حکام کو ہدایت دی تھی کہ وہ اس معاملے کو مل بیٹھ کر حل کریں۔ عدالت میں پیشی کے دوران سیکرٹری خارجہ نے بتایا تھا کہ انسانی اسمگلنگ میں مافیاز ملوث ہیں اور پنجاب میں منڈی بہاؤ الدین، گجرات، جہلم اور ملحقہ علاقے زیادہ متاثر ہیں۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ انسانی اسمگلنگ ہمارے لیے بہت بڑا مسئلہ ہے، اس ناسور کو ختم کرنے کیلئے کیا اقدامات ہوسکتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ جہلم، گجرات، لالہ موسیٰ میں انسانی اسمگلنگ کے لوگ کام کرتے ہیں، جبکہ تربت میں لوگوں کو مار دیا گیا اور حال ہی میں لیبیا میں پاکستانیوں کے ساتھ ایسا واقعہ پیش آیا۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ ایک انتہائی پیچیدہ معاملہ ہے جس کے انسداد کے لیے پائیدار کوششوں کی ضرورت ہے جن میں ملک میں روزگار کے مواقع میں اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ ہمسایہ ممالک کے ساتھ مل کر سرحد کے آرپار لوگوں کی غیر قانونی ٹریفک کی روک تھام کے لیے مشترکہ تعاون بھی شامل ہے۔ پاکستان میں غربت اور بیروزگاری کے باعث نوجوانوں کی غیر قانونی طور پر بیرون ملک جانے کی خواہش روز بروز شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ گزشتہ برس 15نومبر کو بلوچستان کے علاقے تربت میں واقعہ بلیدہ گورک سے 20افراد کی گولیاں لگی لاشیں برآمد ہوئی تھیں، جنہیں انسانی اسمگلنگ کیلئے ذریعے بیرون ملک لے جایا جارہا تھا۔ مقتولین کا تعلق پنجاب کے مختلف علاقوں سے تھا۔ یہ بدنصیب نوجوان بھی بلوچستان کے راستے سے براستہ ایران غیر قانونی طور پر یورپی ممالک جانے کی کوشش کر رہے تھے، جنہیں مقامی ایجنٹوں نے بیرون ملک بھیجنے کا جھانسہ دیا تھا۔ ہر سال لاکھوں پاکستانی روزگار کے سلسلے میں بیرون ملک جاتے ہیں اور ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو اسمگلروں کو پیسے دے کر غیر قانونی طریقے سے یورپ اور دیگر ملکوں میں جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یورپ جانے کے خواہشمند نوجوانوں کو کنٹینرز اور کشتیوں کے ذریعے یونان بھیجا جاتا ہے، مگر کچھ خوش نصیب ہی اپنی منزل تک پہنچ پاتے ہیں۔

اگرچہ حکومت پاکستان انسانی اسمگلنگ میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کر رہی ہے، لیکن اس دھندے میں اتنے بڑے لوگ ملوث ہیں کہ حکومت بھی ان کو قابو کرنے میں ناکام ہے۔پاکستان میں گزشتہ 2سال کے دوران ملک بھر میں انسانی اسمگلنگ کے واقعات کے 7ہزار سے زائد مقدمات درج کیے گئے ہیں اور ان میں مبینہ طورپر ملوث 7ہزار3 سو سے زائد افراد کو گرفتار بھی کیا گیا۔ چند ماہ قبل وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے قومی اسمبلی میں کہا تھا کہ 2016ء میں صوبہ پنجاب میں انسانی ٹریفکنگ کے 3349، خیبر پختونخوا میں 140، سندھ میں 181اور بلوچستان میں 349مقدمات درج کیے گئے تھے، جبکہ 2017ء میںپورے ملک میں ایسے 3334مقدمات درج کیے گئے، جن میں سے زیادہ تر مقدمات صوبہ پنجاب میں درج کیے گئے جن کی تعداد 2784 تھی، جبکہ باقی دیگر صوبوں میں درج کیے گئے۔ انسانی حقوق کی ایک تنظیم کے ارکان کا کہنا تھا کہ مقدمات درج کرنا اچھی پیش رفت ہے، لیکن حکومت کو یہ بات بھی یقینی بنانی چاہیے کہ انسانی اسمگلنگ میں ملوث افراد کڑی سزا سے نہ بچ سکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ جو تعداد بتا رہے ہیں، وہ ان لوگوں کی ہے جو انسانی ٹریفکنگ کا نشانہ بنے ہیں۔ جب بھی اس طرح کوئی شخص اس طریقے سے ملک سے باہر جاتا ہے تو واپس آنے کے بعد اس کے خلاف مقدمہ درج کر لیا جاتا ہے۔ ان لوگوں کے خلاف مقدمہ درج کرنا چاہیے جو انسانی ٹریفکنگ میں ملوث ہیں۔ اگر حکومت عملی اقدامات کرے تو ایسے واقعات کی روک تھام ممکن ہے۔ یہ چیلنج اتنا بڑا نہیں ہے جس طرح جنوبی ایشیا کے بعض دیگر ملکوں جیسے بنگلا دیش یا برما میں ہے۔ (پاکستان میں) اس کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے، اگر حکومت سیاسی عزم کا مظاہرے کرے اور کچھ عملی اقدمات کرے تو میرے خیال میں اس کا سدباب کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان میں بڑھتی ہوئی غربت، بے روزگاری اور عدم تحفظ کے باعث انسانی اسمگلنگ کی صورتحال سنگین ہوتی جارہی ہے۔ دیگر جرائم کے ساتھ ساتھ انسانی اسمگلنگ کا گھناؤنا دھندہ باقاعدہ صنعت کی صورت اختیار کر چکا ہے، اس کے سد باب کیلئے حکومت کو سنجیدہ کوشش کرنا ہو گی۔

تازہ ترین