تحریر: نرجس ملک
ماڈل: فلاڈیلفیا (مسکان)
ملبوسات: Sab Textile by Farrukh Ali
آرائش: ماہ روز بیوٹی پارلر
کوآرڈی نیشن: ساحل علی
عکّاسی: ایم کاشف
لے آؤٹ: نوید رشید
پروین شاکر کی ایک سادہ، خُوب صُورت، خالص نسائی تصورات و خیالات، جذبات و احساسات سے لب ریز ایک غزل ہے ؎ رنگ، خوشبو میں اگر حل ہوجائے..... وصل کا خواب مکمل ہوجائے..... چاند کا چُوما ہوا سُرخ گلاب..... تیتری دیکھے تو پاگل ہوجائے..... مَیں اندھیروں کو اُجالوں ایسے..... تیرگی آنکھ کا کاجل ہوجائے..... دوش پرلے کے گھومیں..... مَیں ہوا اور وہ بادل ہوجائے..... نرم سبزے پہ ذرا جُھک کے چلے..... شبنمی رات کا آنچل ہوجائے..... عُمر بھر تھامے رہے خوشبو کو..... پھول کا ہاتھ مگر شل ہوجائے..... چڑیا، پتّوں میں سمٹ کر سوئے..... پیڑ، یوں پھیلے کہ جنگل ہوجائے۔
سچ تو یہ ہے کہ مرد و عورت کے فطری میلانات و رجحانات، تخیلّات و تصورات، جذبات و احساسات اور تفکّرات و تاثرات میں خاصا تضاد پایا جاتا ہے۔ ایک عورت اپنی جذباتیت یا جذباتی کیفیات کے زیرِ اثر قلب و ذہن میں کیا کیا شکوک و شبہات، فکریں، وسوسے پالے جاتی ہے۔ اُس کا دل و دماغ اندر ہی اندر کیا تانے بانے بُنتا رہتا ہے، اِس کا اندازہ ایک عورت و مرد کی ایک ہی دن لکھی جانے والی ڈائری کے صفحات سے بھی بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔
مثلاً: عورت نے لکھا۔ ’’آج صُبح مَیں نے اُن سے شام کو ساتھ کافی پینے کا وعدہ کیا، مگر سہیلی کے ساتھ شاپنگ سے آتے کچھ تاخیر ہوگئی۔ مجھے پتا ہے کہ اُنہیں انتظار کرنا بُرا لگتا ہے۔ مگر مَیں نے سوچا، مَیں سوری کرلوں گی۔ واپس آکر مَیں نے معذرت کی، وجہ بھی بتائی، مگر اُنہوں نے کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔
مَیں نے ساتھ کافی پینے کا وعدہ یاد دلایا، تو وہ جیسے بوجھل قدموں سے ساتھ ہولیے۔ کافی ہاؤس میں بھی وہ بالکل خاموش رہے۔ مَیں نے وجہ پوچھی، دوبارہ بھی معذرت کی، مگر وہ تو جیسے مجھ سے بات ہی نہیں کرنا چاہ رہے تھے۔ واپسی پر مَیں نے، اُن کے ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کے کہا۔ مَیں آپ سے بہت پیار کرتی ہوں، کیا آپ بھی کرتے ہیں؟ تو جواباً انہوں نے ایک پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ اقرار میں سر ہلا دیا۔
مگر..... مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ وہ بدل گئے ہیں، اُن کے دل و دماغ میں کچھ اور چل رہا ہے۔ گھر آکر مَیں کافی دیر باتھ روم کے واش بیسن کے سامنے کھڑی روتی رہی۔ بستر پر آئی، تو وہ کروٹ بدل کر سوچُکے تھے۔
میری ایک چھوٹی سی غلطی کی اتنی بڑی سزا..... مجھے تو لگ رہا ہے، میری دنیا ہی اندھیر ہوگئی ہے۔‘‘ دوسری طرف اُسی روز شوہر کی ڈائری میں لکھا گیا۔ ’’آج پاکستان، انڈیا سے فائنل ہارگیا۔ سارا دن بہت ہی بُرا، سخت افسردگی میں گزرا۔‘‘
بلاشبہ، عمومی طور پر عورتیں فطرتاً ہی خاصی حسّاس طبع، زود رنج، سریع الحس، نرم دل، جذباتی اور کسی حد تک نازک مزاج ہوتی ہے اور اکثر مرد اُن سے متعلق اپنے فہم و ادراک کے مطابق جن آراء کا اظہار کرتے رہتے ہیں، ضروری نہیں کہ وہ سو فی صد درست ہی ہوں، کیوں کہ بعض اوقات تو ایک عورت کو سمجھتے مرد کی پوری حیاتی کام آجاتی ہے، مگر وہ اُس کے مزاج سے سو فی صد ہم آہنگی کا دعوے دار نہیں ہوپاتا کہ کچھ خواتین کی فطرت و سرشت ہی میں اس قدر تنوّع اور بُو قلمونی پائی جاتی ہے کہ کبھی کبھی تو وہ خُود بھی ساری زندگی اپنے آپ کو سمجھ نہیں پاتیں، کُجا کہ کوئی دوسرا اُنہیں جاننے کا زعم پال بیٹھے۔
بہرکیف، نسائی سوچ، نفسیات، مشاہدات، تجربات، آرزوؤں، خواہشات کی اپنی ایک الگ ہی دنیا ہے اور یہ دنیا صرف رنگارنگ ہی نہیں، بہت طریقے سلیقے سے خُوب سجی سنوری سی بھی ہے، اور… اِسی دنیا کا ایک بہت نمایاں، غالب رنگ سامانِ آرائش و زیبائش، لوازماتِ زیب و زینت بھی ہیں کہ اِن کے بغیر تو ایک عورت کی ہستی ہی نامکمل ہے۔
موسم بدل رہا ہے، سرما نے سامانِ رخصت تقریباً باندھ ہی لیا ہے۔ لینن، کاٹن، لائٹ کھدّر کے پہناوے روز مرّہ کیژول ملبوسات کی شکل میں اپنائے جا رہے ہیں، تو آج ہماری بزم بھی کچھ ایسے ہی رنگ و انداز سے مرصّع ہے۔
ذرا دیکھیے تو ٹُوپیس پھول دار پرنٹڈ ٹراؤزرز، قمیصوں اور ٹراؤزرز، فراکس سے پوری محفل کیسے جگمگا سی رہی ہے۔
نیوی بلیو، زرد، آف وائٹ، اسکائی بلیو اور سُرخ رنگوں نے گویا دھمال سی ڈال رکھی ہے۔ اب اِس دھمال سے آپ نے کیسے ہم آہنگ ہونا ہے، یہ آپ فیصلہ کیجیے۔ ہم نے تو اپنے تئیں بس کئی رنگ، خوشبو میں حل کر ہی ڈالے ہیں۔