• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان بفضلِ خدا 14؍اگست کی شب وجود میں آ گیا تھا، کیونکہ وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے پاکستان کی دستورساز اسمبلی کے صدر کے طور پر قائدِاعظم محمد علی جناح کو اِقتدار منتقل کر دیا تھا۔ 15؍اگست کو پورے ملک میں یومِ آزادی منایا گیا جبکہ وزیرِاعلیٰ صوبہ سرحد ڈاکٹر خان صاحب نے پاکستانی پرچم کو سلامی دی نہ سرکاری طور پر یومِ آزادی کی تقریب کا اہتمام کیا۔ حالات کے پیشِ نظر صوبائی اسمبلی میں مسلم لیگ کے پارلیمانی لیڈر خان عبدالقیوم خاں نے آزادی کی تقریب منعقد کی اور پاکستانی پرچم کو سلامی بھی دی۔ وزیرِاعلیٰ ڈاکٹر خان صاحب کا بعدازاں یہ موقف سامنے آیا کہ خدائی خدمت گاروں نے اِس خوف سے تقریبِ آزادی میں شرکت نہیں کہ ہماری جانوں کو خطرات لاحق تھے۔ وجوہات جو بھی تھیں، اُن کی غیرحاضری سے یہ تاثر قائم ہوا کہ چونکہ وہ پاکستان کے قیام کو تسلیم نہیں کرتے، اِس لیے اُنہوں نے آزادی کی تقریب کا سرکاری طور پر کوئی انتظام نہیں کیا، چنانچہ گورنر جنرل پاکستان حضرت قائدِ اعظم کے احکام پر صوبہ سرحد کے انگریز گورنر سر جارج کنینگم نے وزیرِاعلیٰ کو عہدے سے برطرف کر دیا اور صوبائی اسمبلی میں مسلم لیگ کے پارلیمانی لیڈر خان عبدالقیوم خاں کو صوبہ سرحد کا وزیرِاعلیٰ مقرر کر دیا گیا۔ اِس کے بعد خدائی خدمت گار پارٹی پر پابندی عائد کر دی گئی اور اُس کے مختلف لیڈر گرفتار بھی کر لیے گئے۔ اِن اقدامات کے نتیجے میں صوبہ سرحد عملی طور پر اور قانونی اعتبار سے پاکستان کا حصّہ بن گیا تھا۔

ڈاکٹر خاں صاحب، خان عبدالغفار خاں کے بھائی تھے جو سرحدی گاندھی کہلاتے تھے۔ اُنہوں نے 3 جون 1947ء کا اعلان ہونے کے بعد دہلی میں گاندھی جی سے شکوہ کیا کہ آپ نے ہم سے پوچھے بغیر پاکستان کے قیام کی منظوری دے دی ہے اور ہمیں بھیڑیوں کے آگے پھینک دیا ہے۔ خدا جانے ہمارا حشر کیا ہو گا۔ ہم ہندوستان سے کٹ جائیں گے جس کی جدوجہدِ آزادی کے ہر مرحلے میں ہم کانگریس کے شانہ بشانہ چلتے آئے ہیں۔ وہ کانگریس کے رویّے سے اِس قدر دِلبرداشتہ ہوئے کہ اُنہوں نے صوبہ سرحد کے ریفرنڈم میں ہندوستان کے آپشن کو شامل کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ خان عبدالقیوم خاں نے صوبہ سرحد کی پاکستان میں شمولیت کا بلاشبہ بہت بڑا کارنامہ سرانجام دیا جس کی وجہ سے اُن کی بےمثال قدرومنزلت بھی ہوئی اور اُنہیں صوبہ سرحد میں من مانی کرنے کی مسلم لیگ کی اعلیٰ قیادت کی طرف سے کھلی اجازت مل گئی، کیونکہ وہاں خدائی خدمت گار جو سیاسی اعتبار سے منظم تھے اور وَہیں برسوں سے اقتدار میں چلے آ رہے تھے۔ اُنہوں نے پختونستان کا ایشو پوری قوت سے اٹھایا ہوا تھا اور اُسے افغانستان، ہندوستان، سوویت یونین کی شہ پر بین الاقوامی مسئلے کی حیثیت دینے کیلئےاپنے تمام سفارتی ذرائع استعمال کرتے رہے۔ بدقسمتی سے سوویت یونین اور ہندوستان کا منفی طرزِعمل پاکستان کے یومِ آزادی کے موقع پر سامنے آ گیا تھا۔ سوویت یونین نے آزادی کے پیغام میں کہا تھا کہ پاکستان کا قیام سامراجی طاقتوں کا شاخسانہ ہے جس کا وجود ہم کبھی تسلیم نہیں کریں گے اور اِس کا وجود ختم کر کے دم لیں گے۔ بھارت کے وزیرِاعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے پاکستان کے یومِ آزادی پر یہ ’مژدہ‘ سنایا کہ پاکستان صرف چھ ماہ تک قائم رہے گا، اِس کے بعد دوبارہ ہندوستان میں شامل ہونے کیلئے ہماری منت سماجت کرے گا۔ اِن حالات میں صوبہ سرحد کی اہمیت میںبہت اضافہ ہو گیاتھا اور دُوسرے خوفناک چیلنجوں کے علاوہ پختونستان کا مسئلہ سنگین صورتِ حال اختیار کر سکتا تھا۔

وزیرِاعلیٰ خان عبدالقیوم خاں نے خدائی خدمت گار کا زور توڑنے کیلئے جو آمرانہ حکمتِ عملی اپنائی اور اِنتہائی سخت اقدامات کیے، اُن سے وقتی طور پر تو شاندار کامیابی حاصل ہوئی، مگر ہر گزرتے دن کے ساتھ ساتھ صوبہ چیلنجز میں گِھرتا چلا گیا۔ اِس بات پر وزیرِاعلیٰ خان عبدالقیوم خاں جن کے ہاں وجاہت اور طنطنہ تھا، اُنہوں نے طاقت کے ذریعے اختلافِ رائے کا دروازہ بند کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ اُن کا اندازِ حکومت سخت جابرانہ تھا۔ بلاشبہ ایک حد تک جبر سے کام لینے کی بھی ضرورت تھی کیونکہ خدائی خدمت گار پاکستان کو نقصان پہنچانے کی مسلسل کوششیں کر رہے تھے، تاہم ایک بیدار مغز حکمران طاقت کے استعمال کے ساتھ مذاکرات کا دورازہ بھی کھلا رکھتا ہے۔ تاریخی واقعات اِس حقیقت کی طرف بار بار اِشارہ کرتے رہےکہ وزیرِاعلیٰ خان عبدالقیوم خاں نے دوربینی سے کام نہیں لیا تھا۔

وہ خدائی خدمت گاروں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کے ساتھ ساتھ اُن کے دلوں میں جگہ بنانے کی کوشش بھی کر سکتے تھے۔ اِس طرح سیاسی حریفوں کو قریب لایا جا سکتا تھا۔ پیرمانکی شریف جنہوں نے ریفرنڈم میں انتہائی اہم کردار اَدا کیا تھا، وہ وَزیرِاعلیٰ کی دست درازیوں پر چیخ اٹھے اور اُنہیں ایک علیحدہ پارٹی عوامی مسلم لیگ بنانا پڑی۔ اُس کے خلاف حکومت کی طرف سے نازیبا سختیوں کا ایک سلسلہ چل نکلا۔ خدائی خدمت گاروں میں بھی پاکستان کے ساتھ چلنے کی اُمنگ پیدا ہو رہی تھی۔ مگر 12؍اگست 1948ء کو باردرہ کے مقام پر ایک خوفناک واقعہ پیش آیا۔ خان عبدالغفار خاں تسلسل کے ساتھ پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کیے جا رہے تھے، چنانچہ اُنہیں گرفتار کر لیا گیا۔ 12؍اگست کو ہزاروں خدائی خدمت گار چارسدہ کے ایک مقام باردرہ میں جمع ہوئے جو عبدالغفار خاں کی رہائی کا مطالبہ کر رہے تھے۔ بدقسمتی سے اُن نہتے لوگوں پر گولی چلا دی گئی۔ اِس حادثے میں سینکڑوں شہری زخمی ہوئے اور دَرجنوں موت کی آغوش میں چلے گئے۔ اِس واقعے سے نفرت کی ایک ایسی خلیج پیداہوئی جو آج تک پاٹی نہیں جا سکی۔

وزیرِاعلیٰ خان عبدالقیوم خاں نے سب سے بڑے جرم کا ارتکاب کرتے ہوئے 1952کے صوبائی انتخابات میں کھلم کھلا دھاندلی کی۔ مقصد یہ تھا کہ خدائی خدمت گار بڑی تعداد میں اسمبلی میں نہ آ سکیں۔ اِس عمل سے پاکستان میں انتخابات پر سے اعتماد اٹھتا گیا، کیونکہ ایک سال پہلے پنجاب میں بھی یہی ڈراما رچایا گیا تھا۔ اِس پر صوبہ سرحد میں جمہوریت کے شیدائی بلبلا اُٹھے اور اُنہوں نے مختلف محاذوں سے اِن انتخابات کے خلاف آواز اٹھائی جو طاقت کے ذریعے دبا دی گئی۔ اُن کا نام ڈبل بیرل پڑ گیا تھا۔ (جاری ہے)

تازہ ترین